ہندوتوا اور مسلمانوں کو درپیش سوال

اکرام سہگل  جمعـء 30 اگست 2019

بی جے پی کا ہندوتوا کا نظریہ اور بھارت میں اس کے نفاذ کے لیے پُرزور کوششوں پر مناسب ردعمل کے لیے باریک بینی سے اس کا فکری جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔ ’ہندوتوا‘ کی اصطلاح 1923میں ونایک دامودر ساورکر نے اپنی کتاب Essentials of Hindutva میں وضع کی۔ بعدازاں یہ کتاب ‘Hindutva: Who is a Hindu?’ کے عنوان سے بھی شایع ہوئی۔

ساورکر کے نزدیک ہندومت یا ہندوازم، ہندوستان میں پیدا ہونے والوں کی نسلی، ثقافتی اور سیاسی شناخت ہے۔ مذہبی پہلو کو اس میں شامل نہیں کیا۔ اس کے نزدیک مذہب کی حیثیت ثانوی ہے اور جن مذاہب کی ابتدا ہندوستان سے نہیں ہوئی انھیں وہ واضح طور پر مسترد کرتاہے۔ ہندوستانی مذاہب کو وہ ہندوازم ہی قرار دیتا ہے اور انھی بنیادوں پر اس نے ’’ہندو راشٹر‘‘ اور ’’اکھنڈ بھارت‘‘ کے تصور کو بیان کیا ہے ، پورا برصغیرجس میں شامل ہے۔

ساورکر اور دیگر کی ہندو قوم پرستی دراصل انیسویں صدی میں برطانویوں کے متعارف کردہ نظریہ قومیت کا جواب ہے۔ اس کا آغاز ہندوستان میں نوآبادیاتی انتظامیہ کے مرکز بنگال اور کلکتہ سے ہوا، یہیں برطانوی اور یورپی فکر کی بنیاد پر قائم ہونے والے اکثر تعلیمی ادارے قائم  تھے جن کے ذریعے تعلیم یافتہ بنگالی اور بعدازاں دیگر ہندوستانی مغربی تصور قومیت کی جانب متوجہ ہوئے۔

یہ طبقہ نوآبادیاتی نظام کے خلاف مزاحم تھا لیکن ساتھ ہی اس نے طے کیا تھا کہ وہ ترقی یافتہ انگریزوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ بنگال میں اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے  یہ لوگ، جنھیں ’’بھدرا لوک‘‘ بھی کہا جاتا ہے، اس نظام تعلیم سے روایتی طور پر وابستہ ہوچکے تھے اور اسی طبقے نے سب سے پہلے قومیت کے نظریات کا اثر قبول کیا۔ ابتدا ء رام موہن رائے سے ہوئی۔

جس نے 1928 میں ہندوؤں کے ذات پات کی روایات میں اصلاحات کے ذریعے بھارتی معاشرے کو جدیدیت کی طرف لے جانے کے لیے ’’براہمو سماج‘‘ کی بنیاد رکھی۔ برہمو سماج والوں نے اپنی اصلاحات کا نقشہ یورپ کے نشاۃ ثانیہ کے تصور سے اخذ کیا تھا، یہی وجہ ہے کہ ان میں سیکیولرازم اور انسان دوستی کے تصورات بھی شامل تھے۔

سیکیولرازم کا مفہوم مذہب اور مذہبی تصورات کی نفی ہے، یورپ میں اس کی ابتدا ہوئی اور بنیادی طور پر یہ یونانیوں کے فلسفیانہ ورثے کی دین ہے۔ یونانی فلسفے نے دنیا کی مادی اور عقلی توجیحات کو ترجیح دی جن کے نتیجے میں مذہب پر تنقید کا ایسا مواد فراہم ہوا جو  مذہب کو روحانی اور غیر منطقی قرار دینے میں معاون تھا۔ابتدائی ہندوستانی اصلاح پسندوں نے ستی، تعدد ازواج، کم سنی کی شادی اور ذات پات کے نظام جیسی ہندو مذہبی روایات پر تنقید کے طور پر سیکیولرازم کو قبول کیا۔

یورپ کی فلسفیانہ روایت میں بھی ’’مذہب‘‘کی اصطلاح صرف مسیحیت کے مقدسات اور اعتقادات تک محدود ہے اور سماجی و اقتصای اور اخلاقی اعتبار سے اس کی حیثیت تسلیم نہیں کی گئی۔ صدیوں بعد جب یورپ میں سرمایہ داری نے قدم جمائے تو حقیقی مذہبی اخلاقیات کے برخلاف کلیسا نے مادیت، لالچ، حرص اور سفاکیت کے فروغ میں سرمایہ داری کو مدد فراہم کی۔رفتہ رفتہ مذہب اجتماعی زندگی سے نکل کر نجی زندگی تک محدود ہوگیا اور اس کے نتیجے میں تشکیک اور الحاد کو فروغ ملا۔

عقائد کے بارے میں ایسا نکتہ نظر تعلیم یافتہ ہندوستانیوں کے لیے اجنبی اور ناقابل قبول تھا۔ یہ لوگ ذات پات کی بنیاد پر قائم طبقات سے تشکیل پانے والے معاشرتی ڈھانچے کی پیداوار تھے، جس میں تبدیلی اس زندگی میں کم از کم ممکن نہیں تھی۔ اس لیے انسانی مساوات کا تصور ان کے لیے اجنبی تھا اور اس کے نفاذ سے صدیوں اپنی روایات پر عمل پیرا ہندوستانی سماج تہ و بالا ہوسکتا تھا۔

برہمن کبھی یہ تسلیم نہیں کرسکتا کہ ذات پات کے جس نظام میں ’’پروشا‘‘، جہاں سے لفظوں کا آغاز ہوا، کے اصول پر اسے برتری حاصل ہے ، اس پر کوئی آنچ آئے۔ آج بھی اگرچہ بھارتی آئین میں ذات پات کو شامل نہیں ہونے دیا گیا لیکن اس کی بنیاد پر پائے جانے والی طبقاتی تقسیم ختم کرنے کا عمل ابتدائی مرحلے میں بھی داخل نہیں ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ کے نظریہ قومیت کی، جس میں سیکیولرز کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے، صرف اطلاقی صورت ہی کو برصغیر میں قبولیت حاصل ہوسکی اور یہ مذہبی قوم پرستی کی شکل اختیار کرگیا۔

انگریزوں کے ثقافتی احساس برتری ، رعونت اور تصور سلطنت اور ہندوستانی ثقافت سے متعلق ان کے تحقیر آمیز رویے کے نتیجے میں  انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں تعلیم یافتہ بنگالیوں اور ہندوستانیوں میں بے چینی بڑھنا شروع ہوگئی۔ اسی وجہ سے انگریز کو اپنی قدر و قیمت سے آگاہ کرنے کے لیے انھوں نے قوم اور قوم پرستی کے تصورات کو اختیار کیا۔

پہلے (1875 میں ) بنگالی قوم پرستی اور بعدازاں( 1885میں) ہندوستانی قوم پرستی انڈین نیشنل کانگریس کی صورت میں نمودار ہوئی ، جس نے جنوبی ایشیائی برصغیر میں برطانوی تسلط سے نجات کے لیے جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔ کانگریس کے ابتدائی برسوں میں مذہب سے گریز کی پوری کوشش کی گئی کیوں کہ اس وقت کی قیادت کا خیال تھا کہ سیکیولر قومیت کے تصور کے ساتھ وہ انگریز پر زیادہ اثرانداز ہوسکیں گے اور عوامی حمایت بھی حاصل ہوجائے گی۔ کانگریس میں سخت گیر کہلانے والے گروہ کے اس وقت کے رہنما ہندو دیوی دیوتاؤں کا نام اور ان کی تصاویر سے عوام پر اثرا انداز ہونا چاہتے تھے۔

مہا راشٹر سے تعلق رکھنے والے بی جی تلک نے 1893میں گنیش اتسوو کے موقعے پر قومیت کے تصور کو اس ہندو دیوتا سے جوڑا۔ تِلک نے دوکتابیں تصنف کی، دونوں ہی ویدوں سے متعلق تھیں اور ان میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ وید لانے والے ہی دنیا پر راج کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

اسی طرح کانگریس کے ایک اور نمایاں رہنما لالہ لاجپت رائے 1875میں قائم ہونے والی ہندو اصلاحی تنظیم آریا سماج کے بھی رکن تھے۔ 1923میں ’’دی ٹریبیون‘‘ میں شایع ہونے والے اپنے ایک مضمون میں انھوں نے ہندوستان کو ’’ہندو انڈیا اور مسلمان انڈیا میں تقسیم کرنے‘‘ کا مطالبہ کیا۔ کانگریس کے ایک اور رہنما مدن موہن مالویہ نے ہندوستان کے مسلمانوں کی ’’مسلمانیت‘‘ ختم کرنے اور انھیں دوبارہ ہندو دھرم میں شامل کرنے کے لیے شدھی تحریک کی بنیاد ڈالی۔ اس دور میں یہ بات عام ہوچکی تھی کہ ہندو اصلاحاتی تحریکوں کے رکن اور لیڈرتنظیم کے ابتدائی سیکیولر عزائم  کے باوجودر کانگریس میں شامل رہے۔

یہاں مزید کئی مثالیں بیان کی جاسکتی ہیں۔ یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہندوستان میں نوآبادیات کے خلاف کوئی بھی تحریک مذہبی حوالے کے بغیر چلائی نہیں جاسکتی کیوں کہ اس خطے کے عوام ماں کی گود سے لے کر آخری وقت تک مذہب کے بغیر اپنے وجود کا ادراک نہیں کرسکتے۔

عوام کی ترغیب اور انھیں قوم کا مفہوم سمجھانے کے لیے گاندھی کو بھی مذہب کا سہارا لینا پڑا اور انھوں نے ’’رام راج‘‘ کو ہندوستان کی منزل قرار دیا۔ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی اس نعرے سے کتنی جذباتی وابستگی ہوسکتی ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ مسلم قومیت کا تصور اور مطالبۂ پاکستان سامنے آنے سے بھی تقریباً ساٹھ برس قبل ہندو قوم پرستی اپنے قدم جما چکی تھی۔ ہندوستان کسی خاصے (مذہبی) گروہ کی ملکیت ہے، اس تصور نے معاشرتی تفرقی کو بڑھاوا دیا۔ اس بارے میں ساورکر کے خیالات ملاحظہ کیجیے:’’ اگرچہ یہ مذہب سے آزاد ہے ، تاہم  لفظ ’’ہندوتوا‘‘ میں محمدن شامل نہیں۔

ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت ، اگر جہالت سے پیدا ہونے والے تعصبات سے آزاد ہوکر دیکھے تو، ہماری سرزمین کو آبائی وطن سمجھ کر کسی بھی محب وطن اور معزز شہری کی طرح اس سے محبت کرسکتی ہے، یاد رہے کہ بہت سے ایسا کرتے بھی آئے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں ان کی زبردستی تبدیلیٔ مذہب کی کہانی زیادہ پرانی نہیںکہ یہ فراموش کردیا جائے کہ ان کی رگوں میں ہندو خون ہے۔ لیکن کیا ہم انھیں ہندو تسلیم کرسکتے ہیں؟ نہیں۔ کیوں کہ ہمارے لیے صرف خونی اور آبائی وطن کا رشتہ کافی نہیں، ہم اپنی عظیم تہذیب اور اپنے ہندو کلچر کی تکریم کو مشترکہ قدر مانتے  ہیں۔‘‘

اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مسلمانوں کو صرف اس لیے مسئلہ قرار دیا جاتا ہے کہ وہ ہندوستان میں پیدا ہونے کے باوجود مکہ اور امت مسلمہ سے جذباتی وابستگی رکھتے ہیں۔ کوئی بھی مسلمان قوم کی اس تعریف پر پورا نہیں اتر سکتا اور اسی وجہ سے اسے بھارتی تسلیم کرنے کا بھی کوئی امکان نہیں۔ کشمیر اور آسام میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کا سبب بھی قومیت کا یہی تصور ہے۔

بھارت سیکیولرازم کے جس نقاب کو اوڑھے رکھنے کی کوشش میں تھا وہ تار تار ہو چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ایک ہندو راشٹر میں مسلمانوں کے لیے کوئی گنجایش ہے اور اسی طرح ایک اسلامی ریاست میں کیا ہندو رہ سکتے ہیں؟

(یہ کالم سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار اکرام سہگل اور برلن کی ہمبلوٹ یونیورسٹی کے شعبہ برائے جنوبی ایشیا کی سابق سربراہ بیٹینا روبوٹکا کے اس موضوع پر لکھے گئے سلسلۂ مضامین کا دوسرا حصہ ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔