مسلم دنیا سائنسی ترقی میں ناکام کیوں؟

جبار قریشی  جمعـء 30 اگست 2019
 jabbar01@gmail.com

[email protected]

گلیلو ایک نامور سائنسدان تھا ، اس کا تعلق اٹلی سے تھا۔اس نے سولہویں صدی عیسوی میں یہ دعویٰ کیا کہ زمین بھی دوسرے سیاروں کی طرح سورج کے گرد گھومتی ہے۔اس وقت کے مذہبی عناصر نے اس کے اس دعوے پر شدید ردعمل کا اظہارکیا،کیونکہ ان مذہبی عناصرکا عقیدہ تھا کہ زمین فرش کی مانند پانی پر بچھی ہوئی ہے۔

گلیلوکے اس دعوے کے نتیجے میں ان کے اس عقیدے پر ضرب لگتی تھی۔ لہٰذا کلیسا کی جانب سے اس پر مقدمہ دائر ہوا ، گلیلو مذہبی عدالت میں پیش ہوا۔ اس نے مذہبی عدالت میں پیش ہوکر نہ صرف توبہ کی بلکہ معافی نامہ بھی پیش کیا۔گلیلو عدالت سے باہر آیا،کسی نے اس سے اس ضمن میں سوال کیا تو اس نے جواب میں کہا کہ ’’میرے لکھ کر دینے سے زمین رک نہیں جائے گی۔‘‘ مجھے نہیں معلوم یہ واقعہ حقیقت پر مبنی ہے یا محض افسانہ ہے تاہم یہ حقیقت ہے کہ سائنس ایک حقیقت ہے اسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔

سوال یہ ہے کہ اس سائنس کا آغاز کیسے ہوا۔ درحقیقت یورپ میں سائنس کا آغاز مسلمانوں کا مرہون منت ہے۔ ہسپانیہ (اسپین) میں مسلمانوں نے سات سو سال حکومت کی، اس دور میں مسلمانوں نے یورپ کے لوگوں کو یونانیوں اور عربوں کے صدیوں سے جمع شدہ علمی خزانوں سے روشناس کرایا۔اس کے نتیجے میں یورپ میں تیرہویں صدی عیسوی میں ایک تحریک نے جنم لیا جسے نشاۃ ثانیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

یہ فرانسیسی لفظ ہے جس کے معنی نئی زندگی کے ہیں۔ اس تحریک نے یورپ کے لوگوں کے ان خیالات اور تصورات کو بدل دیا تھا جو عہد وسطیٰ میں سیاست، معاشرت، فطرت اور فلسفہ سے متعلق پائے جاتے تھے۔ ان علوم نے لوگوں میں نئے تصورات پیدا کر دیے اب انھوں نے ہر چیز کو نئے زاویے سے دیکھنا شروع کردیا۔

اس طرح سائنسی انداز فکر کی بنیاد پڑی۔ سائنسی ایجادات اور دریافتیں اسی زمانے میں ہوئیں۔ ان میں ایک ایجاد چھاپہ خانہ کی ایجاد تھی۔ 1663 میں ہونے والی اس ایجاد نے دنیا کی تہذیب و تمدن میں ایک انقلاب برپا کردیا۔

چھاپہ خانہ کی ایجاد سے طباعت کے کام میں آسانی آگئی۔ وہ کتابیں منظر عام پر آئیں جو عوام کی نگاہوں سے اوجھل تھیں۔ اب ان پر لوگوں کی دسترس آسان ہوگئی۔ اب عوام کے دلوں میں علمی ذوق پیدا ہوا۔ اس کے نتیجے میں خطے میں روشن خیالی کی تحریکوں نے جنم لیا اور ایسے بے شمار مفکرین اور سائنسدان پیدا ہوئے جنھوں نے معاشرے کے افکار اور اقدار کا رخ بدل دیا۔ نتیجے میں ہر شعبہ زندگی بالخصوص صنعتی زندگی میں ایک انقلاب آگیا۔

صنعتی انقلاب کے نتیجے میں یورپ کو نئی منڈیوں کی ضرورت تھی لہٰذا انھوں نے اپنے سامراجی مقاصد کی تکمیل کے لیے تمام دنیا میں اپنی نو آبادیات قائم کرنی شروع کردی۔ اپنی نوآبادیات کی توسیع پسندانہ مہم کے نتیجے میں سائنس اور ٹیکنالوجی کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے جب انھوں نے مسلم دنیا پر یلغارکی تو اسلامی دنیا کا کوئی ملک اس یلغارکا مقابلہ نہ کرسکا۔

اس طرح ڈیڑھ سو برس سے زائد عرصے تک مسلم دنیا پر سامراجی قوتوں کا قبضہ رہا۔ آج بھی مغرب کو مسلم دنیا پر سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں برتری حاصل ہے، یہ ایک وسیع موضوع ہے۔

موجودہ دور سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم دنیا سائنسی ترقی میں ناکام ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ میری ذاتی رائے میں مسلم دنیا کی سائنسی میدان میں پسماندگی کی بڑی وجہ مسلم دنیا کا ناقص نظام تعلیم ہے۔اس وقت مسلم دنیا کی تعلیمی صورتحال کیا ہے اس بارے میں میرا علم محدود ہے اس لیے اپنی بات کو پاکستان تک محدود رکھوں گا۔

تعلیم کے معاملے میں ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں تعلیم آزادی فکر کے ساتھ دی جاتی ہے۔ اس کے برعکس ہم سائنس جیسے مضمون جو اپنی فطرت میں ہی سیکولر ہے ، اس کو سائنس کی طرح پڑھنے کے بجائے اس کے ذریعے مذہب کی حقانیت اور سچائی کو ثابت کرتے ہیں ، اس طرح ہمارے اندر ایک غیر سائنسی سوچ جنم لیتی ہے اور ہم سائنس کی افادیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ڈاکٹر انجینئر پیدا کر رہا ہے لیکن ہم سائنسدان پیدا کرنے میں ناکام رہے ہیں ۔ہمارا طریقہ تعلیم ایسا ہے کہ ہم نے سارا زور یاد داشت کو تیز کرنے پر صرف کیا ہے۔ اس طرح ہم اپنے طریقہ تعلیم کے ذریعے ایک اچھے اور دیرپا یاد داشت رکھنے والے طوطے پیدا کر رہے ہیں۔

کوئی غیر ملکی زبان سیکھنا اور اس پر عبور حاصل کرنا اچھی بات ہے لیکن ماہرین تعلیم کے مطابق اسے ذریعہ تعلیم بنانا ایک تباہ کن عمل ہے۔ یہ عمل بڑے پیمانے پر طالب علم کی ذہنی صلاحیتوں کو ضایع کرنے کے مترادف ہے۔ ہم نے ایک اجنبی زبان ’’انگریزی‘‘ کو ذریعہ تعلیم بناکر اپنے طالب علم پر مسلط کردیا ہے جو ہمارے طالب کی ذہنی صلاحیتوں کو بیدار کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ہمارے طالب علم کی ساری صلاحیت ایک اجنبی زبان کی گتھیاں سلجھانے پر صرف ہو رہی ہے۔

جہاں تک اردو ذریعہ تعلیم کا تعلق ہے تو ہم نے اصطلاحات کے نام پر ذریعہ تعلیم کو انتہائی مشکل بنادیا ہے۔ ہم نے اصطلاحات سازی میں الفاظ سازی اور ترجمے کے اصولوں کو زیادہ مد نظر رکھا ہے۔ اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا کہ الفاظ آسان ہیں یا مشکل، اس میں اپنائیت کا احساس ہے یا نہیں یعنی وہ زبان کا حصہ بن سکتے ہیں یا نہیں، سائیکل کے لیے پیرگاڑی کے الفاظ کی کوشش نے ہمارے طالب علم کے لیے سائنسی تعلیم کو نہ صرف مشکل بلکہ بوجھل بنا دیا ہے۔

میرا دعویٰ ہے کہ آپ کسی سائنسی اور فنی کتاب کا مطالعہ کرلیں جسے اردو زبان میں ڈھالا گیا ہو، آپ خود محسوس کریں گے کہ یہ کتاب آپ کے ذہن میں اترنا تو دورکی بات ہے آپ کے فہم سے ہی بالاتر ہوگی۔ یہ وہ عوامل ہیں جس کی وجہ سے ہم علمی بالخصوص سائنسی علوم میں پیچھے ہیں۔

جب مسلم دنیا اور مغربی ممالک کے درمیان سائنسی ترقی کے حوالے سے تقابلی جائزہ پیش کیا جاتا ہے تو ہمارے ارسطو اور بقراط یورپی سائنسی ترقی کے مقابلے میں مسلم دنیا کا قدیم ماضی پیش کردیتے ہیں۔ یہ درست رویہ نہیں یہ رویہ ہمارے احساس کمتری کو ظاہر کرتا ہے۔

ہمیں ماضی کا مقابلہ ماضی اور حال کا مقابلہ حال اور مستقبل کا مستقبل سے کرنا چاہیے حقائق کو تسلیم کرکے ہی ہم آگے بڑھنے کا سفر جاری رکھ سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہماری سائنسی ترقی کی پسماندگی کا ذمے دار کون ہے؟ دراصل مسلم دنیا اپنی ایک ہزار سال عروج کی تاریخ میں 950 سال سے زائد عرصے موروثیت، ملوکیت اور آمریت کے زیر اثر رہی ہے اور اب بھی بیشتر اسلامی ممالک اس کے چنگل میں ہیں۔ ایسے معاشرے سائنسی علم کی اس خصوصیت سے ڈرتے ہیں کہ وہ انسانی ذہن کے دریچے کھولتا ہے اور اس کی سوچ کو آزادی بخشتا ہے۔

ایسے معاشرے کے طاقتور عناصر کو یہ خوف ہوتا ہے کہ اس علم کے فروغ کے نتیجے میں ان کے اقتدار کو چیلنج کرنے والے پیدا ہوجائیں گے اس لیے وہ علم کی روشنی کو اپنے مفادات کے خلاف سمجھتا ہے لہٰذا علم بالخصوص سائنسی علوم کو فروغ دینے سے گریزکرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم دنیا کا سائنسی ترقی میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے جب تک تعلیم کو علم کی روشنی کے دشمنوں کے چنگل سے آزاد نہیں کیا جائے گا سائنسی ترقی اس وقت تک نہیں ہوسکے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔