صحافیوں سے سیاستدانوں تک

شہاب احمد خان  ہفتہ 31 اگست 2019
کیا واقعی صحافت اتنی زیادہ کمائی والا پیشہ بن گیا ہے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کیا واقعی صحافت اتنی زیادہ کمائی والا پیشہ بن گیا ہے؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

صحافت یوں تو ساری دنیا میں ایک انتہائی باعزت اور باوقار پیشہ سمجھا جاتا ہے۔ صحافی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دنیا کو صحیح معلومات پہنچانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ صحافت کی تاریخ میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں جس میں کسی صحافی نے اپنی جان قربان کرکے دنیا کو کسی سچ سے روشناس کرایا۔

ہمارے ملک میں بھی آج کل صحافت نہ صرف ایک باعزت پیشہ بن چکا ہے، بلکہ اس میں ہمیشہ کی طرح ایک پاکستانی ٹچ بھی آگیا ہے۔ پاکستانی ٹچ سے میری مراد وہ اضافی مراعات ہیں جو صحافی خواتین و حضرات ہمارے قابل فخر سیاستدانوں سے حاصل کرتے ہیں۔ اس کے بدلے میں ان سیاستدانوں کی پروپیگنڈہ مشینری کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔ آج آپ کسی بھی صحافی کا کالم پڑھیں یا کسی بھی اینکر کا پروگرام ٹی وی پر دیکھیں، آپ کو فوراً اندازہ ہوجائے گا کہ موصوف کس سیاسی پارٹی کے پروردہ ہیں یا کس سیاست دان کے پے رول پر ہیں۔ ایک میڈیا ہاؤس تو ایک خاص خاندان کو بچانے اور ان کی کرپشن پر پردہ ڈالنے کی دن رات کوشش کرنے کے بارے میں بدنامی کی حد تک مشہور ہوچکا ہے۔

کچھ میڈیا ہاؤسز نے حکومت کو ہر حال میں دفاع کرنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے انھیں کہیں سے کوئی خاص احکامات ملتے ہیں جس کے تحت وہ ہر حال میں حکومت کا ہی ساتھ دیتے نظر آتے ہیں۔ اکثر صحافی کوئی ایسا خاندانی بیک گراؤنڈ نہیں رکھتے جس کی وجہ سے ان کی موجودہ مالی حیثیت کو جواز مل سکے۔ کچھ مشہور صحافی حضرات جنہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز پیدل کیا تھا، آج بڑے اور قیمتی گھروں اور گاڑیوں کے مالک ہیں۔
کیا واقعی صحافت اتنی زیادہ کمائی والا پیشہ بن گیا ہے؟ یا پھر اس میں بھی ہمارے معاشرے کی مشہور بیماری موجود ہے، جسے کرپشن کہتے ہیں۔

کرپشن صرف رشوت لینا یا اپنے اختیارات کو ناجائز استمعال کرتے ہوتے فائدہ اٹھانا ہی نہیں ہوتا، بلکہ اپنی موجودہ حیثیت اور صلاحیتوں کو غیر مستحق ہاتھوں کو بیچ دینا بھی کرپشن ہے۔

آج پروپیگنڈہ، ہائبرڈ جنگ کا سب سے موثر ہتھیار بن چکا ہے۔ اس ہتھیار کا سب سے زیادہ استمعال ہمارے ہی ملک کے خلاف کیا جارہا ہے، اور اس ہتھیار کو استمعال کرنے کےلیے سب سے زیادہ موزوں ٹول صحافی ہیں۔ اس لیے اس شک کو تقویت ملتی ہے کہ کچھ میڈیا ہاؤس بھی غیر ملکی طاقتوں کی سرپرستی میں پھل پھول رہے ہوں۔ اکثر صحافی بھی حکومت کو چیلنج کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کرکے تو دیکھے۔

کیا کبھی ہم یہ سمجھ پائیں گے کہ صحافی کا کام صرف درست معلومات ہی عوام تک پہنچانا ہوتا ہے، عوامی رائے کو کسی خاص رخ میں موڑنا ان کا کام نہیں ہے۔

ہمارے معاشرے میں دولت کی بھوک ایک ایسی لعنت بن چکی ہے جس نے حرام اور حلال کی تمیز بالکل اٹھا دی ہے۔ آج ایک استاد نئی نسل کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینے کے بجائے اس بات میں زیادہ دلچسپی لیتا ہے کہ اس کا اپنا ٹیوشن سینٹر جلد از جلد کامیاب ہوجائے۔ آج ہمارے کالج بالکل ویران پڑے ہیں، کوئی طالب علم کلاسیں لینے کالج نہیں جاتا، لیکن ٹیوشن سینٹروں کے باہر آپ کو اتنا رش ملے گا جس کا آپ اندازہ نہیں کرسکتے۔ بہت سے سینٹروں نے تو باقاعدہ وین سروسز بھی شروع کر رکھی ہیں۔ ہم میں سے ہر کوئی ایسے ٹیوشن سینٹروں کے باہر ٹریفک جام میں پھنس چکا ہوگا۔ یہ ٹریفک جام چھٹی کا وقت ہونے پر نکلنے والے طالب علموں کے ہجوم کی وجہ سے ہوتا ہے۔

سب سے زیادہ اونچی پرسنٹیج سرکاری کالجز میں داخلہ لینے کےلیے ضروری ہے، لیکن سب سے زیادہ ویران یہی کالجز ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری حکومت صرف داخلہ دینا اپنا فرض سمجھتی ہے، اس کے بعد بچوں کو پڑھانا ٹیوشن سینٹروں کی ذمے داری ہے۔ کیا کسی نے آج تک اس بوجھ کو محسوس کرنے کی کوشش کی جو والدین اپنے بچوں کی تعلیم کے سلسلے میں اٹھا رہے ہیں۔ نہ صرف کالجز کی فیس دے رہے ہیں بلکہ ٹیوشن کی اضافی فیس بھی ماہانہ اخراجات کا حصہ بن چکا ہے۔ ہر شخص کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ صرف بچوں کی تعلیم پر خرچ ہورہا ہے۔

ان تمام معاشرتی بیماریوں پر اگر غور کیا جائے تو ایک وجہ تو سب سے پہلے سامنے آتی ہے کہ ہم نے کبھی ایک قوم بننے کی کوشش ہی نہیں کی۔ ہمارا کوئی مشترکہ قومی مقصد کبھی نہیں رہا۔ ہم نے کبھی یکساں نظام تعلیم پورے ملک میں بنانے کی کوشش ہی نہیں کی۔ رہی سہی کسر اٹھارویں ترمیم نے پوری کردی ہے۔ اب تعلیم صوبائی معامله ہے۔ امن و امان صوبائی معامله ہے۔ اگر یہ دونوں شعبے صوبائی معامله ہیں تو پھر وفاق میں وزیر تعلیم کیا کرتا ہے؟ وفاق میں وزیر داخلہ کیا کرتا ہے؟

ایسا لگتا ہے پچھلی حکومت نے اٹھارویں ترمیم کی ہی اسی لیے تھی کہ پاکستان کو ایک ایسی ریاست میں تبدیل کردیا جائے جو کہ ایک ڈھیلے ڈھالے وفاق پر مشتمل ہو، جس میں سے جب چاہے کوئی بھی اکائی الگ ہوجائے۔ اگر ہم اس ترمیم کی وجہ پر غور کریں تو ہمیں صاف نظر آئے گا کہ اس کا محرک صرف نسلی اور لسانی تفریق ہی ہے۔ اب ہر صوبے کی حکومت جس طرح چاہے اپنے صوبے میں بسنے والے لوگوں کا حال کرے۔ وفاق اس میں دخل اندازی نہیں کرسکتا۔ آج ہماری دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں صرف اپنے اپنے صوبوں تک ہی محدود ہوچکی ہیں۔ بڑے صوبے کی پارٹی کا اس صوبے کے باہر کوئی وجود نہیں ہے۔ دوسری بڑی پارٹی کا اپنے صوبے سے باہر کوئی ووٹر نہیں ہے۔

لگتا ہے ان دونوں پارٹیوں نے شاید یہ پہلے ہی طے کرلیا تھا کہ اس ملک کو اس ڈگر پر لانا ہے کہ کسی بھی موقع پر اگر کوئی سلامتی کی صورت حال پیدا ہونے پر ہر صوبہ علیحدگی کی آواز لگا سکتا ہو، اور اپنے عوام پر ایک بادشاہت قائم کرلے۔ اس کا سب سے زیادہ اثر کراچی پر پڑا ہے۔ آج کراچی کا والی وارث کوئی نہیں ہے۔ یہ شہر صرف وسائل پیدا کرنے کی مشین بنا ہوا ہے۔ یہ وسائل کہاں خرچ ہوتے ہیں؟ کراچی والوں کو یہ پوچھنے کا حق کسی نے نہیں دیا۔

صوبائی حکومت جو چاہے کراچی اور کراچی کے بسنے والے لوگوں کے ساتھ کرے، وفاق ان سے کچھ نہیں پوچھ سکتا۔
اسی ترمیم کی وجہ سے جمع ہونے والے سارے وسائل صوبوں کو منتقل ہوجاتے ہیں۔ وفاق کے پاس اتنا بھی نہیں بچتا کہ وہ اپنے ذمے کسی بھی کام کو اپنے وسائل سے پورا کرسکے۔ اسی لیے قرضوں تک نوبت پہنچتی ہے۔ صوبائی حکومتیں خود الگ عالمی اداروں سے قرضے لے رہی ہیں۔ جو کہاں خرچ ہورہے ہیں، وفاق ان سے نہیں پوچھ سکتا۔

اس ترمیم کا سب سے زیادہ فائدہ ہمارے کرپٹ سیاستدانوں کو ہوا ہے اور سب سے زیادہ نقصان عوام کو ہوا ہے۔ عوام کی یادداشت کو تازہ کرنے کےلیے یہاں ایک بات دہرانی ضروری ہے کہ پچھلی حکومت کے پرائم منسٹر کو سیاست میں لانے والا کوئی اور نہیں ایک فوجی آمرتھا، اور اس کی سرپرستی میں جس طرح اس خاندان کی دولت میں اضافہ ہوا اور اس اضافے کےلیے کیا کیا دو نمبر طریقے استمعال کیے گئے وہ ان کی سیاسی تربیت کا حصہ بن گئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی اس پرائم منسٹر کو جیل سے نکالنے کےلیے جو دو نمبر طریقے استمعال کرنے کی کوشش ان کی جانشین کرتی ہے اس کے علاوہ اسے مزید کچھ نہیں آتا۔

پچھلے پرائم منسٹر کو سیاست میں لانے کے پیچھے جو سوچ کارفرما تھی، وہ بھی صرف اور صرف ایک لسانی سوچ ہی تھی۔ یہ سب باتیں کرنے کا مقصد کسی پارٹی کو برا بھلا کہنا نہیں، بلکہ جو بھی پاکستان کا حال ہوگیا ہے اس کے اسباب پر روشنی ڈالنا ہے۔ جو حال ہم نے تعلیم کا کردیا ہے، جس کی وجہ سے معاشرے میں جو تنزل وقوع پذیر ہورہا ہے، اس پر سوچنے کی دعوت دینا ہے۔ اگر کسی صحافی کا کالم پڑھ کر یا کسی اینکر کا پروگرام دیکھ کر آپ کوئی جانبداری محسوس کرتے ہیں تو خود تجزیہ کرکے فیصلہ کریں کہ یہ صحیح کہہ بھی رہا ہے یا نہیں۔ آج صرف ایک عام پاکستانی ہی اس ملک کی امید ہے۔ ورنہ تو صحافیوں سے لے کر سیاستدانوں تک، سب کا جو حال ہے وہ اوپر بیان کردیا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شہاب احمد خان

شہاب احمد خان

بلاگر اسلامک بینکنگ اور فائنانس میں ماسٹرز کی سند رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔