کوئٹہ، تفتان ہائی وے

ڈاکٹر عرفان احمد بیگ  اتوار 1 ستمبر 2019
قومی شاہراہوں میں شامل وہ سڑک جو تاریخی اور تجارتی حوالوں سے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے

قومی شاہراہوں میں شامل وہ سڑک جو تاریخی اور تجارتی حوالوں سے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے

بلوچستان میں قومی شاہراہوںکی تعداد10 ہے لیکن اِن میں سے تین شاہراہیں ملک کی اہم ترین شاہراہیںہیں۔ نیشنل ہائی وے 10 جس کو کوسٹل ہائی وے بھی کہا جاتا ہے، یہ ساحل کے ساتھ ساتھ گوادرسے براستہ پسنی، اورماڑا اوتھل زیرو پوائنٹ پر نیشنل ہائی وے 25 تک کل لمبائی 653 کلو میٹر ہے جب کہ نیشنل ہائی وے 25 کوئٹہ اور 25 خصدارکی مجموعی لمبائی 706 کلومیٹر سے ساڑھے سات سو کلومیٹر تک ہے جو پاک افغان سرحد پر پاکستانی شہر چمن سے کراچی تک جاتی ہے۔

یہ صوبے کی مصروف ترین شاہراہ ہے مگر افسوس یہ ہے کہ یہ ابھی تک دورویہ نہیں ہے اور اسی سبب اس شاہراہ پر روزانہ حادثے ہوتے ہیں اور روزانہ ہی انسانی جانیںجاتی ہیں،کو ئٹہ سے مستونگ کے قریب ہی دوراہے پر قومی شاہراہ کوئٹہ تاتفتان ہے۔

پاکستان کو دنیا میں یہ شرف حاصل ہے کہ یہ خطہ ہزاروں برسوں سے انسانی تہذیب و تمدن کا امین رہا ہے، بلوچستان میں سبی اور ڈھاڈر کے نزدیک مہر گڑھ میں تقریباً نو ہزار سال قبل کے آثارِقدیمہ پورے شہر کے کھنڈرات کی صورت موجود ہیں، پھر ساہیوال کے قریب ہڑپا اور لاڑکانہ کے قریب موہنجوداڑو کے کھنڈرات پانچ ہزار سال قدیم ہیں، اور ٹیکسلا کے کھنڈرات ڈھائی ہزار سال پرانے ہیں، ماہرین اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ ہزاروں سال قبل، ہمارے ان شہروں کے تجارتی اقتصادی روابط عراق اور مصر کی قدیم تہذیبوں اور اُن کے شہروں سے تھے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے روابط عراق ، شام ، مصر، سنٹرل ایشیا اور ایران سے شاہراہوں کے ذریعے تھے، یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان کے اِن قدیم شہروں سے شاہراہیں ہمارے بحیرہ عرب کے ساحل تک بھی جاتی ہونگی، اور پھر یہاں سے تجارتی سامان بحری جہازوں کے ذریعے مصر ، شام ، عراق اور ترکی وغیرہ جاتا ہو گا، جہاں تک تعلق افغانستان اور سنٹرل ایشیاکا ہے، تو چونکہ ان ملکوں کے پاس سمندر نہیں اس لیے اِن سے تو روابط صرف اور صرف شاہراہوں کے ذریعے ہی تھے۔

یہ اندازے قبل از تاریخ کے ہیں ، جبکہ تاریخی اعتبار سے یہ ریکارڈ پر ہے کہ گذشتہ تین ساڑھے تین ہزار سال سے ہمارے علاقے میں سنٹرل ایشیا،ایران، افغانستان سے تاجروں کے علاوہ مختلف قوموں اور حملہ آوروں کی آمد کا سلسلہ رہا ہے ، برصغیر کی تاریخ میں مسلمانوں کی آمد کے بعد ہندوستان میں وسیع رقبے پر مضبوط مرکز کی بنیاد پر حکومت قائم ہوئی، تو تجارت و صنعت کو فروغ حاصل ہوا ،کیونکہ اس سے قبل ہندوستان کئی چھوٹی بڑی ریاستوں میں تقسیم ہو کر صدیوں خانہ جنگی کا شکار رہا، پھر ہندو دھرم میں بیرون ِ ملک سفر کرنے دریا  یا سمندر پار کرنے سے دھرم نشٹ ہو جاتا تھا۔

اس لیے اِن کی توجہ بیرونی تجارت پر نہیں تھی، یوں مسلمانوں کی آمد کے بعد ہندوستان کے روابط دنیا کے دوسرے ملکوں سے مستحکم ہو ئے، اور صنعت و تجارت کو فروغ حاصل ہوا تو پھر شاہراہوں کی تعمیر وترقی پر توجہ دی گئی، بڑی شاہراہوں پر دونوں جانب سایہ دار پھلدار درخت لگائے گئے۔

قافلوں کی رفتار اور مسافت کے مطابق سرائیں تعمیر ہوئیں، جہاں قافلے،کاروان رک کر سستا سکیں، اِن کے اور ان کے گھوڑوں،اونٹوں کے لیے پانی اور خوراک کے انتظامات بھی اِن سرائے کے ساتھ ہی ہو تے تھے، اس سلسلے میں سب سے اہم کارنامہ ہندوستان کے نامور بادشاہ شیر شاہ سوری نے سر انجام دیا ، جس نے اُس زمانے میں پشاور سے ڈھاکہ تک نہایت معیاری شاہراہ تعمیر کروائی، جس کو جنریلی سڑک کا نام دیا گیا ،آج ہمارے ہاں اس سڑک کے ایک حصے کو جی ٹی روڈ کہا جاتا ہے۔

انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے آ غاز تک یورپ میں سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی کی وجہ سے ریلوے اور موٹر گاڑیاں عام ہو نے لگیں، تو قافلوں اور سرائے کے انداز بھی تبدیل ہوئے، اور سڑکوں کی تعمیر کے معیار میں بھی انقلا بی تبدیلیاں رونما ہوئیں، اگرچہ بیسویں صدی کی دوسری اور تیسری دہائیوںسے ہوائی جہاز  کے ذریعے بھی سفرعام ہوا مگر اب بھی سب سے زیادہ سفر اور تجارت سڑکوں اور شاہراہوں سے ہوتی ہے۔ اور پوری دنیا میں ملکوں اور قوموں کی ترقی میں شاہراہوں کی تعمیر و ترقی پر بھر پور توجہ دی جاتی ہے۔ پاکستان میں آزادی کے بعد اِس جانب بھی بھر پور توجہ دی گئی۔

1977 ء تک بڑی اور بین الاصوبائی شاہراہوں کی دیکھ بھال صوبائی سطح پر ہی کی جاتی تھی، مگر اُس وقت تک ہماری شاہراہوں پر بھی بڑے ٹرکوں اور ٹرالروں اور بڑی بڑی کوچوں سے آمد ورفت کا سلسلہ شروع ہو گیا، تو 1978 ء میں حکومت پاکستان نے شاہراہوں کے معیار کی بہتری کے لیے پانچ اہم بین الاصوبائی شاہراہوں کو وفاقی ملکیت میں لے کر نیشنل ہائی وے بورڈ تشکیل دیا، اس کے بعد 1991 ء میں (  این ایچ اے  ) نیشنل ہائی وے اتھارٹی قائم کردی گئی، اس وقت یہ ادارہ39 قومی شاہراہوں کا مالک ہے۔

جن کی مجموعی لمبائی 12131 کلو میٹر ہے، یہ نیشنل ہائی ویز، موٹروے،ایکسپریس ویز اور اسٹرٹیجک روڈز پر مشتمل ہیں، اِن پر ٹول ٹیکس کی وصولی کے ساتھ اِن شاہراہوں کی تعمیر و مرمت، دیکھ بھال اور نگرانی کے فرائض این ایچ اے کا یہی ادارہ کرتا ہے، پاکستان کے کل 881913 مربع کلومیٹر رقبے میں سے صوبہ بلوچستان کا رقبہ 347190 مربع کلو میٹر ہے، یوں بلوچستان میںقومی شاہراہوں کی مجموعی لمبائی کا 38 فیصد واقع ہے۔ یعنی بلوچستان میں نیشنل ہائی ویز کی کل لمبائی4629 کلومیٹر ہے، جو دس اہم قومی شاہراہوں پر مشتمل ہے۔

بلوچستان میں قومی شاہراہوں کی زیادہ اہمیت اس لیے بھی ہے کہ اس صوبے سے پاکستان کی سرحدیں ایران سے 909 کلومیٹر ہیں، جبکہ پاک افغان سرحد 2611 کلومیٹر کا بڑا حصہ بھی بلوچستان سے ملتا ہے، اسی طرح بحیرہ عرب پر ہمارے ساحل کی کل لمبائی 1000کلو میٹر ہے، جس میں سے 777 کلومیٹر ساحل بلوچستان کے پاس ہے، بلوچستان میں واقع ان قومی شاہراہوں میں سے، ایک اہم ترین شاہراہ این ایچ 40 کوئٹہ سے تفتان قومی شاہراہ ہے۔

جس سے مستونگ کے علاقے لکپاس سے پاک ایران سرحد پر واقع پاکستانی شہر تفتان تک فاصلہ 605 کلومیٹر ہے، واضح ہے کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ سے لکپاس تک کا فاصلہ تقریباً 40 کلومیٹر ہے، لکپاس کے قریب ہی کو ئٹہ کراچی کو ملانے والی اہم ترین اور مصروف شاہراہ یہاں دوراہا بناتی ہے، یوں نیشنل ہائی وے 40، یہاں سے بلوچستان کے تین اہم اضلاع سے گزر کر ایران کی سرحد  تک جاتی ہے۔ لکپاس کو ئٹہ کے جنوب میں واقع ہے جب کہ مستونگ کے کنارے سے یہ شاہراہ مغرب کی جانب مڑ تی ہے۔

ان تین اضلاع میں مستونگ ایک سرسبز ضلع ہے، جس کا رقبہ 5896 مربع کلومیٹر ہے اور آبادی تقریباً تین لاکھ ہے، اس ضلع کی تین تحصیلیں اور 13 یونین کو نسلیں ہیں یہ قومی شاہراہ مستونگ سے تقریباً پچاس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ڈسٹرکٹ نوشکی میں داخل ہو تی ہے، واضح رہے کہ نوشکی، چاغی 1992 ء تک ایک ہی ڈسٹرکٹ تھے اس سال سے نوشکی کو چاغی سے الگ کر کے نیا ضلع بنادیا گیا، ڈسٹرکٹ کا رقبہ 5797 مربع کلومیٹر ہے اور آبادی ڈھائی لاکھ سے زیادہ ہے، اس ضلع کی ایک تحصیل اور 10 یونین کونسلیں ہیں، جن میںانام بوستان،احمد وال، جمالدینی اور کشنگی، ڈاک اور مینگل ا س شاہراہ کے اعتبار سے اہم ہیں۔

اس کے بعد ڈسٹرکٹ چاغی کی حدود شروع ہوتی ہیں، ضلع چاغی رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا ضلع ہے جس کا مجموعی رقبہ تقریباً 45000 ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ آبادی تقریباً چار لاکھ ہے، نیشنل ہائی وے کی اسی فیصد لمبائی اسی ڈسٹرکٹ میں ہے، ضلع چاغی کی دو تحصیلیں دالبندین اور نوکنڈی ہیں جب کہ 10 یونین کونسلیں ہیں، جن میںامری، چاغی، چل گاری ، پدک، زیارت، بلانوش، نوکنڈی اور تفتان اس شاہراہ کے اعتبار سے اہم ہیں، یہ ڈسٹرکٹ نہ صرف رقبے کے اعتبار سے بڑا ہے بلکہ نہایت اہم ضلع ہے۔

یہی وہ ضلع ہے جہاں راس کوہ نامی پہاڑ کے ہزاروں فٹ نیچے پاکستان نے 28 مئی 1998 ء کو بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے مقابلے میں چھ ایٹمی دھماکے کئے تھے۔ کوئٹہ، مستونگ اور نوشکی کے مقابلے میں ضلع چاغی کا بیشتر رقبہ دنیا کے گرم ترین مقامات میں شمار ہوتا ہے، جہاں سنگلاخ پہاڑ، دشت اور صحرا ہیں۔ موسم گرما میں یہاں نہ صرف درجہ حرارت 48 سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے، بلکہ یہاں گرمیوں کے مہینوں میں تیز گرم آندھیاں اور بگو لے چلتے ہیں،اس ضلع کی کئی لحاظ سے خاص اہمیت و افادیت ہے، جہاں اس کی سرحد پر ایک

جانب تفتان پر پاک ایران سرحد کا بڑا گیٹ ہے ، جہاں دونوں اطراف سے آنے جانے وا لوں کے پاسپورٹ ویزے اور دیگر دستاویزات چیک کئے جا تے ہیں، اور یہاں سے تجارتی مال کے بڑے بڑے  ٹرالراور ٹرک آتے جاتے ہیں، وہا ں تفتان سے ڈھائی سو کلومیٹر پہلے شمال کی جانب افغانستان کی سرحد اس مقام پر یوں اہم ہے کہ  یہاں سے افغانستان میں صرف سو کلومیٹر سفر کے بعد ترکمانستان کی سرحد ہے، یوں یہ ڈسڑکٹ تجارتی،اقتصادی اور دفاعی لحاظ سے بھی بہت اہم ہے۔ ماحولیاتی اعتبار سے چاغی ضلع یوں اہم ہے کہ یہاں سالانہ بارشیں بہت ہی کم ہیں۔

مگر اس کا اپنا ایکالو جیکل زون ہے جس میں دنیا کا ایک منفرد ایکو سسٹم ہے ، چاغی کا نقشہ دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے کوئی بڑا عقاب آسمان میں پر پھیلائے محو ِ پرواز ہو، اتفاق دیکھیں کہ یہاں کے باز،شہباز، سنہری عقاب بہت قیمتی ہیں، یہاں ماضی قریب میں غیر قانونی طور پر بعض لو گوں نے ان عقابوں کا شکار کیا، اور لاکھوں روپے فی عقاب عرب شیوخ کو فروخت کئے، جبکہ نوشکی ، خاران اور چاغی کے علاقوں ہی میں اِن ہی عقابوں اور بازوں سے تلور کا شکار بھی کھیلا جاتا ہے، چاغی کے منفرد ایکالوجیکل زون میںپوری دنیا سے مختلف نسل کے دو نایاب سانپ اور ایک چھپکلی پائی جاتی ہے ، اور بد قسمتی سے اس کو پکڑ کر بھی غیر قانونی طور پر بعض عناصر لاکھوں روپے فی سانپ یا چھپکلی مغربی ممالک میں اسمگل کرتے رہے ہیں، جہاں اِن پر ماہرین تجربات کر رہے ہیں۔

45000 ہزار مربع کلو میٹر رقبے کے اس وسیع ضلع چاغی کو دنیا میں یہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ اسے معدنیات کا عجائب گھر کہا جاتا ہے، اور وہ اس لیے کہا جا تا ہے کہ دنیا میں جہاں جہاں معدنیات پائی جاتی ہیں وہا ں دو چار اقسام کی معدنیات پائی جاتی ہیں یا کثیر مقدار میں ملتی ہیں، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ چاغی ایک ایسا خطہ ہے جہاں کئی اقسام کی معدینات پائی جاتی اور مزید کے ملنے کے امکانات ہیں، یہی وہ خطہ ہے جہاں پہلے تفتان کے نزدیک سیندک کے مقام پر سونے ، چاندی اور تانبے کے ذخائر ملے اور اُن کو نکالنے کا کام ستر کی دہائی سے چینی کمپنی کر رہی ہے۔

اور اس کے بعد اس سے کہیں زیادہ مقدار میں سونے اور تانبے کے ذخائر، اسی چاغی ڈسٹرکٹ میں ریکوڈیک کے مقام پر ملے ہیں، جن پر تنازعہ کے سبب پاکستان پر گذشتہ دنوں چھ ارب ڈالرز کا ہرجانہ عائد کر دیا گیا، جب کہ اسی ضلع میں کرومائٹ ، بیر ائٹ، گرینائٹ اور اعلیٰ درجے کے ماربل کے علاوہ لوھے اور دیگر معدنیات کے ذخائر دریافت ہو چکے ہیں ۔ لفظ چاغی کے معنی یوں بیان کئے جاتے ہیں کہ یہ لفظ چا گئی تھا، جو بگڑ کر چاغی ہوا چا ،کنویں کو کہتے ہیں اور گئی کے معنی جگہ کے ہیں یوں ایک زمانے میں یہاں بڑی تعداد میں کنویں تھے، یعنی پورے ضلع میں چاغی کے مقا م پر میٹھے پانی کے کنویں تھے،اس لیئے اِس جگہ کو کنووں کی جگہ کہتے تھے۔

برصغیر کی تاریخ میں سنٹرل ایشیا ، افغانستان، ایران بلکہ یونان سے جب سکندر اعظم بھی آیا تو پاکستان کے انہی علاقوں سے آیا، اور واپسی تو بلوچستان کے ضلع لسبیلہ سے ہوئی تھی، جہاں تک تعلق ضلع چاغی کا ہے تو اس علاقے میں جب تیمور نے بڑی قوت حاصل نہیں کی تھی، اُس وقت تیمور یہاں بھی آیا،اور اسی نسل کی پانچویں پشت میں جب بابر نے قوت حاصل نہیں کی تھی، تو وہ بھی ا یک مر تبہ اس علاقے میں آیا تھا، پھر 1526 ء میںشہنشاہ ظہیر الدین بابر نے پانی پت کی دوسری جنگ میں ہندوستان کو فتح کر لیا، اس کے بعد اُس کا بیٹا ہمایوں تخت نشین ہوا، تو1540 ء میں وہ شیر شاہ سوری سے شکست کھا کر اسی راستے ایران فرار ہوا، اور ایران میں پناہ حاصل کی تھی، پھر شہنشاہ ہمایوں کی اسی راستے ہندوستان واپسی ہوئی تھی۔

اس کے بعد جب 1761 ء میں احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان میں مرہٹوں کے ظلم کے خلاف پانی پت کی تیسری لڑائی میں مرہٹوں کو شکستِ فاش دی، تو اس جنگ میں احمد شاہ ابدالی کی فوج میں اُس زمانے کے بلوچستان کے مضبوط خان آف قلات، نصیر خان نوری نے اپنے قبائلی لشکر کے ساتھ ابدالی کے شانہ بشانہ حصہ لیا تھا، اور اس جنگ میں فتح کے بعد نصیر خان نوری زیادہ مضبوط اور خود مختار ہو گئے تھے۔ہمایوں کے بیٹے اور شہنشاہ ہند اکبر اعظم کے زمانے سے اس شاہراہ سے برصغیر میں زیادہ آمد ورفت بھی ہونے لگی اور تجارت کو بھی فروغ ملا، اور دوسری مرتبہ جب نصیر خان نوری،احمد شاہ ابدالی کے ساتھ فاتح ٹھہر ے تو ایک بار پھر ایران اور افغانستان کے سرحدی یہ علاقے یعنی ضلع چاغی کی یہ شاہراہ بھی اہم ہوگئی۔

پھر یہ بھی اہم ہے کہ زمانہ قدیم میں جب حجاج کرام خشکی کے راستے حج کرنے جایا کرتے تھے، تو اسی راستے سے حجاز ِ مقدس جایا کرتے تھے، یوں یہاں کے لوگوں کے بارے میں یہ روزِ اوّل سے مشہور ہے، کہ یہ چوری اور ڈاکے کو ندامت کا سبب سمجھتے ہیں اور یہاں آج بھی چوری چکاری کے واقعات نہیں ہوتے، ماضی میں یہ لوگ اس راستے پر حجاج کرام کی بہت مہمان نوازی اور خدمت کرتے تھے، اور مہمان نوازی اور مسافروں کی خدمت اب بھی اس علاقے کی ثقافت میں شامل ہے،  واضح رہے کہ 1974 ء کے بعد، وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں یہاں سے ایک بار پھر بڑی اور ایر کنڈیشن بسوں کے ذریعے سستے نرخوں پر حاجیوں کے قافلے دو تین سال حج کے لیے گئے، برصغیر میں انگریز سمندر کے راستے کالی کٹ کی بندر گاہ سے آئے تھے۔

پھر ممبئی کی بندر گاہ اہم ہوئی لیکن انگریزوں کو یہ معلوم تھا کہ برصغیر کے اکثر فاتحین سنٹرل ایشیا ، افغانستان اور ایران سے آئے تھے، اور جب انگریز 1756 ء میں نواب سراج الدولہ کو شکست دے کر بنگال پر قابض ہوا تھا، توچار سال بعد احمد شاہ ابدالی ہندوستان پر حملہ کرنے والا آخری بادشاہ تھا، یہ اور انگریزوں کی خوش قستمی ،کہ احمد شاہ نے یہاں مستقل حکومت قائم نہیں کی اور رخصت ہو گیا۔

اس لیے انگریزوں کی حکومت جب ہندوستان میں مضبوط ہوئی، تو انہوں نے یہ اسٹرٹیجی اختیار کی کہ وہ ہندوستان کے اندر پانی پت کے میدان میں دفاعی جنگ لڑنے کی بجائے، اسلحے کی برتری کی بنیاد پر اور ہندوستانیوں پر مشتمل بڑی فوج کے ساتھ کیوں نہ خود افغانستان پر حملہ کریں، یوں انہوں نے 1839 ء کی پہلی برٹش افغان وار میں، بلوچستان کے راستے درہ ِبولان اور خوجک سے گزر کر چمن سے ہوتے ہوئے قندھار اور پھر کابل پر حملہ کیا، چونکہ بلوچستان میں کچھ مقامات پر بلوچ قبائل نے انگریزی فوج پر گوریلا طرز کے حملے کئے تھے، اور پھر انگریز دفاعی اعتبار سے بلوچستان کی اہمیت جان چکا تھا، اس لیے اُس نے واپسی پر بلوچستان کے خان آف قلات میر محراب خان سے جنگ کی، اور اُن کی شہادت کے بعد یہاں قبضے کی کوشش کی، مگر اُسے طویل عرصے تک مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، اور آخرکار اندرونی طور پرخود مختاری دیکر انگریز نے معاملات طے کئے۔

اور جہاں کہیں انگریزوں کو کسی علاقے کی زمین کی ضرورت ہوئی، تو اُنہوں نے خان آف قلات سے زمین لیز پر حاصل کی۔ یوں1896 ء میں انگریز سرکار، نے ضلع نوشکی اور چاغی کا علاقہ نوہزارروپے سالانہ کرائے پر حاصل کیا، اور اُس وقت یہ ایک ڈسٹرکٹ چاغی بنایا گیا تھا، اُس وقت انگریزوں نے ایران کے ساتھ سرحدیں بھی طے کیں، انگریزوں نے نہ صرف یہاں اس سڑک کی حالت بہترکی، بلکہ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ عظیم کے زمانوں میں ڈسٹرکٹ چاغی کی اہمیت کو سمجھتے ہو ئے، یہاں ریلوئے لائن بھی بچھائی، یہاں پر ہفتہ وار پیسنجر ٹرینیں چلتی رہیں، مگر یہاں سڑک کی اہمت کم نہیں ہوئی، اور جب تیز رفتار موٹر گاڑیاں، ٹرک اور ٹرالر چلنے لگے تو یہ شاہراہ اور اہمیت اختیار کر گئی ۔

آزادی کے بعد بلوچستان میںاس شاہراہ کو اس لیے بھی اہمیت دی گئی،کہ ایران ہمارا وہ ہمسایہ اور پہلا ملک ہے، جس نے 14 اگست 1947 ء کو قیام پاکستان کے ساتھ ہی پاکستان کو تسلیم کیا تھا، یوں آزادی کے فوراً  بعد جس ملک سے ہمارے تجارتی اقتصادی تعلقات قائم ہوئے وہ ملک ایران ہی تھا ہے۔

ساٹھ کی دہائی میں پاکستان،ایران اور ترکی کے تعلقات بہت مضبوط ہوگئے تھے، یوں ان تینوں ملکوں کے درمیان علاقائی تعاون برائے ترقی کے نام سے ایک تنظیم قائم ہوئی جسے RCD,-Reginal Coopration Organization کہا گیا، آر سی ڈی کے قیام کے بعد اور اُس کے بعد ایک طویل عرصے تک، نیشنل ہائی وے 40 لکپاس تفتان آر سی ڈی شاہراہ کہلائی اور بعض پرانے لوگ اس شاہراہ کو آج بھی آر سی ڈی شاہراہ ہی کہتے ہیں، 1964 ء سے1977 ء تک اس شاہراہ پر جو اُس وقت آر سی ڈی شاہراہ کہلاتی تھی تجارتی سرگرمیاں بہت بڑھ گئیں۔

اس زمانے میں پاکستانی پھل، چاول، کپڑا، دریاں اور چادریںبڑی مقدر میں ایران جاتی تھیں، اورپھر 1981 ء میں جب سابق سوویت یونین نے افغانستا ن میں اپنی فوجیں داخل کر دیں تو ایک بار پھر اس شاہراہ کی اسٹرٹیجک اہمیت بڑھ گئی کہ اُ س وقت ترکمانستان سابق سوویت یونین کا حصہ تھا، اور افغانستان جہاں روسی فوجیں موجود تھیں، یہاں سے افغانستان کے صرف سو کلومیٹر کے فاصلے کے بعد سوویت یونین کا علاقہ شروع ہو جاتا تھا، یوں اُس زمانے میں پاکستان نے یہاں اپنی دفاعی لائن کو مضبوط کیا تھا، اور وقت کے ساتھ ساتھ اس شاہراہ کی اہمیت میں اضافہ ہی ہوتا رہا، واضح رہے کہ یہی راستہ مختصر انداز میں پورے جنوبی ایشیا کو مغربی یورپ کو ملاتا ہے۔

یہی شاہراہ یعنی ’’پرانی ،، آر سی ڈی سڑک ایران سے ہوتی ترکی میں داخل ہوتی ہے اور ترکی کا ایک حصہ یورپ میں واقع ہے جہاں آسٹریا،جرمنی، فرانس اور پھر برطانیہ تک اسی شاہراہ سے ہوتے ہوئے جاتے ہیں، اور اب جب سے پاکستان میں قومی شاہراہوںکی ذمہ داری نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے پاس آئی ہے تو اس شاہراہ کا معیار بھی ماضی کے مقا بلے میں بہت بہتر ہو گیا ہے، واضح رہے کہ آر سی ڈی تنظیم 1979 ء میں ٹوٹ گئی اور اس کی جگہ آنے والے دنوںمیں ECO-Economic Coopration Organization ایکو یعنی اقتصادی تعاون کی تنظیم نے لے لی، جس میں پاکستان، ایران اور ترکی کے ساتھ سرد جنگ کے خاتمے پر پہلے افغانستان نے شمولیت اختیار کی، پھر سوویت یونین کے ٹوٹنے پر، سنٹرل ایشیا کے مسلم ملکوں کے آزاد ہو نے کے ساتھ ہی، آذربائئجان، قازقستان،کرغزستان ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان  بھی شامل ہو گئے۔

یوں انداز ہ کیا جا سکتا ہے کہ اب اس تنظیم کے اعتبار سے مستقبل قریب میں نیشنل ہائی وے 40’’ کوئٹہ لکپاس تا تفتان ‘‘  مزید کتنی اہمیت اختیار کر جائے گی، اس وقت بھی یہ ایک ایسی مصرف شاہراہ ہے ، جس پر پاکستان سے روزانہ ہزاروں افراد سفر کرتے ہیں کچھ وہ ہیں، جو ملک کے دوسرے علاقوں سے تجارت کی غرض سے پاک ایران سرحد تک آتے جاتے ہیں، یعنی تفتان تک مال پہنچایا اور دوسری جانب سے ایرانی تاجر اندرون ایران سے سرحد کے دوسری جانب مال وصولی کر لیتے ہیں۔ مقامی بلوچوں کی ایک بڑی تعداد وہ بھی ہے جو سرحد کے دونوں طرف آباد ہے۔

اِن کو یہاں عام حالات میں پاکستان اور ایران سے عموماً عام اجازت نامے پر سرحد کے دونوں جانب محدود تعداد یا مقدار میں بغیر ٹیکس یا کسٹم ڈیوٹی کے سامان لانے لے جانے اور سرحد کے دونوں طرف اپنے رشتہ دارو ں سے ملنے کی اجازت ہوتی ہے، لیکن اگر ہنگامی صورتحال ہو یا سکیورٹی کے معاملات ہوں تو یہ سہولت ملتوی ہو جاتی ہے، نیشنل ہائی وے 40 اس اعتبا ر سے بھی بہت اہم ہے کہ یہاں سے سالانہ بہت بڑی  تعداد میں زائرین ایران اور عراق زیارتوں کے لیے جاتے ہیں، جن کے لیے وفاقی حکو مت کے علاوہ بلوچستان کی صوبائی حکومت بھی خصوصی انتظامات کرتی ہے، اور اِ ن کی بسیں اور کوچز کاروان کی صورت میں تفتان تک پہنچاتی ہے، اسی طرح مغربی ملکو ں کے سیاح اور پاکستانی اور ایرانی بھی عام طور پر اس شاہراہ پر سفر کرتے ہیں۔

اگر چہ موسم گرما میں یہاں خصوصاً ضلع چاغی میں موسم دن میں بہت گرم ہوتا ہے ، مگر اب چونکہ اس قومی شاہراہ پر چلنے والی بسیں اور کو چز ائیر کنڈیشنڈ اور تیز رفتار ہیں اس لیے یہ 605 کلومیٹر کا سفر دس سے بارہ گھنٹوں میں کٹ جاتا ہے، اور یہ کوچز اور بسیں عموماً راستے میں نوشکی، دالبندین ، نوکنڈی اور پھر تفتان پر رکتی ہیں۔

راستے میں اِن مقامات پر ہوٹل اور ریستوران ہیں جہاں کھانے پینے کا انتظام مناسب نرخوں پر ہیں ۔ بلوچستان بھر میں اگرچہ قومی شاہراہیں دورویہ نہیں ہیں جن کی وجہ سے حادثات زیادہ ہوتے ہیں ، مگر یہاں ڈرائیوروں کی کچھ روایات بہت اچھی ہیں، یہاں خواتین کا بہت احترام کیا  جاتا ہے، یہاں ڈرائیوروں کی اکثریت بھی چونکہ نمازی ہے اس لیے ہر نماز کے وقت ڈرائیور بس روک دیتا ہے اور عموماً باجماعت نماز ہو جاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔