وزارت اعلیٰ ‘مراد علی شاہ کا سیاسی قلعہ

مزمل سہروردی  ہفتہ 31 اگست 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

سندھ میں کھیل شروع ہے۔ ایک طرف سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے نیب کے خوف سے ضمانت قبل از گرفتاری کروانے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ اگر نیب نے ان کو گرفتار کرنا ہے تو کر لے۔ لیکن وہ ضمانت نہیں کروائیں گے۔ دوسری طرف مشکل یہ ہے کہ اگر مراد علی شاہ کو بطور سندھ کے وزیر اعلیٰ گرفتار کر لیا جائے تو سندھ کا نظام کیسے چلے گا۔ اس سے پہلے کراچی کے میئر وسیم اختر کو گرفتار کیا گیا تھا تو ایم کیو ایم نے انھیں میئر برقرار رکھا تھا۔ سوال پیدا ہو گیا تھا کہ میئر جیل سے کیسے کام کر سکتا ہے۔ جیل سے ان سے فائلیں کیسے دستخط کروائی جائیں۔ تا ہم ایم کیو ایم بضد تھی کہ وہ جیل سے میئر ہیں اور میئر رہیں گے۔ اسی تناظر میں اب پیپلز پارٹی کی بھی یہی حکمت عملی ہے کہ مراد علی شاہ جیل سے بھی وزیر اعلیٰ رہیں گے۔

سوال یہ ہے کہ ایک طرف تو آئین و قانون میں ایسی کوئی رکاوٹ نہیں ہے کہ منتخب وزیر اعلیٰ کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ ایک معمولی پولیس ملازم بھی وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم کو گرفتار کر سکتا ہے۔ اس لیے وزیر اعلیٰ سندھ کی نیب سے گرفتاری میں کوئی آئینی و قانونی رکاوٹ نہیں ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں گرفتاری میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے وہاں ایسا بھی نہیں ہے کہ گرفتاری کے بعد وہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہو جائیں گے۔ وزیر اعلیٰ وزیر اعظم حتیٰ کے وزیر بھی گرفتاری کے بعد اپنے عہدوں پر برقرار رہ سکتے ہیں۔ یہی آئینی سقم اس وقت مراد علی شاہ کی گرفتاری میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ورنہ نیب کی حراست میں ہی کابینہ کے اجلاس ہونگے۔ نیب کی حراست میں ہی فائلیں دستخط ہونگی، نیب کی حراست میں ہی اہم سرکاری اجلاس ہونگے، نیب کی حراست میں ہی سارے کام ہونگے اور صوبہ کی حکومت چلے گی۔ نیب کیا تفتیش کرے گا۔ یہ گرفتاری تو ایک مذاق بن جائے گی۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو اگر مراد علی شاہ کی گرفتاری ناگزیر ہے تو انھیں پہلے وزارت اعلیٰ سے ہٹایا جائے۔ آسان راستہ تو یہ ہے کہ سندھ میں گورنر راج لگا دیا جائے تاہم اس ضمن میں حکومت کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ گورنر راج کی پارلیمنٹ سے توثیق ایک نا ممکن کام ہے۔ حکومت کے اتحادی ہی اس کی توثیق نہیں کریں گے۔ پھر سینیٹ میں اپوزیشن کی اکثریت ہے۔ اس لیے آئینی مجبوریوں کی وجہ سے آج تک گورنر راج نہیں لگایا گیا۔ ورنہ تحریک انصاف تو پہلے دن گورنر راج لگانے کے موڈ میں تھی۔ تاہم آئین ان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کے لیے ایک راستہ یہ بھی ہے کہ مراد علی شاہ کو عدالت سے نا اہل قرار دلوا دیا جائے۔ دوست بتاتے ہیں کہ اس پر کام ہو رہا ہے۔ لیکن یہ بھی فوری ممکن نہیں ہے۔ عدالتیں ایسے کسی موڈ میں نہیں ہیں کہ کوئی بھی کام راتوں رات کر دیں۔ اس ضمن میں اگر کام شروع بھی کیا جائے تو وقت لگے گا۔ اور وقت ہی تو نہیں ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ماضی میں دہری شہریت کے حوالے سے غلط بیانی کا ایک کیس موجود ہے۔ لیکن اس گھڑے مردے کو کتنا زندہ کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے اس طرف بھی ابھی تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ تاہم اس کی بازگشت موجود ہے۔ شائد یہ آخری آپشن ہو گا۔ جب سب آپشن ناکام ہو جائیں گے تواس پر کام شروع ہوگا۔

اس وقت سندھ میں مراد علی شاہ کے خلاف عدم اعتماد کو لانے پر کام ہو رہا ہے۔ عدم اعتماد لانے کے لیے پیپلز پارٹی کے اندر ایک فارورڈ بلاک کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔ شنید یہ ہے کہ پی پی پی سندھ میں بغاوت نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ اطلاعات تو یہی ہیں کہ اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی اس فارورڈ بلاک کے لیے سرگرم ہیں۔ یہ درست ہے کہ وہ نیب کی گرفت میں ہیں۔ لیکن وہ مراد علی شاہ کو ہٹانے کے لیے سرگرم ہیں۔ آغا سراج درانی کی پی پی پی کے اراکین سندھ اسمبلی سے ملاقاتیں سامنے آئی ہیں جن میں انھوں نے فارورڈ بلاک بنانے اور مراد علی شا ہ کو ہٹانے کی باتیں کی ہیں۔

خبریں تو یہ بھی ہیں کہ سندھ میں پی پی پی کے 35سے زائد ارکان اس وقت نیب کے ریڈار پر ہیں۔ یہ ارکان بھی مراد علی شاہ کو ہٹانے کے لیے کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تا ہم ان سب کو بھی بغاوت کے لیے ایک پلیٹ فارم درکار ہے۔ تاہم نمبر گیم بتا رہی ہے کہ سندھ میں اپوزیشن اتحاد کو پی پی پی کی حکومت کو ہٹانے کے لیے 17ووٹ درکار ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر مراد علی شاہ کے خلاف عدم اعتماد کامیاب بھی ہو جاتی ہے تب بھی سندھ میں ایک آئینی بحران پیدا ہو جائے گا۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد اس طرح عدم اعتماد میں پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے کی ممانعت ہے۔

اس لیے جو ارکان بھی مراد علی شاہ کے خلاف ووٹ دیں گے پی پی پی ان کی نا اہلی کے ریفرنس اسپیکر سندھ اسمبلی کو بھجوائے گی۔ تا ہم اگر اسپیکر سندھ اسمبلی اس کھیل میں شریک ہو نگے تو وہ ان ریفرنس کو روک سکتے ہیں۔ اور کھیل کو لمبا کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر بیس سے زائد ارکان کو فلور کراسنگ کے قانون کے تحت نا اہل بھی قرار دے دیا جائے تو سندھ میں نئے انتخابات کا جواز پیدا ہو جائے گا۔ شاید سارے کھیل کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ کسی طرح سندھ میں نئے انتخابات کی راہ ہموار کی جائے۔ لیکن کیا صرف ایک صوبائی اسمبلی کے انتخابات ممکن ہیں۔ آئینی و قانونی طور پر شاید اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔لیکن سیاسی طور پر یہ کتنا ممکن ہے۔ یہ ایک الگ سوال ہے۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ عدم اعتماد کامیاب ہو جائے گی۔ اپوزیشن ایک فارورڈ بلاک کی مدد سے اپنا وزیر اعلیٰ لے آئے گی۔ یہ وزیر اعلیٰ تحریک انصاف سے ہوگا جی ڈی اے سے ہوگا یا ایم کیو ایم سے ہوگا۔ یہ کمزور حکومت سندھ میں کیا تبدیلی لا سکے گی۔ کیا ایسی حکومت مراد علی شاہ کی حکومت سے بھی کمزور نہیں ہو گی۔ کیا ایسی حکومت نیک نامی دینے کے بجائے بد نامی نہیں دے گی۔ لوگ ارباب رحیم کو دوبارہ لانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن یہ سب ممکن نظر نہیں آرہا۔

مرا د علی شاہ کے پاس سندھ اسمبلی کو توڑنے کا آپشن موجود ہے۔ لیکن شاید وہ یہ آپشن استعمال کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ پی پی پی کو ڈر ہے کہ اگر سندھ میں دوبارہ انتخابات ہوئے تو دوبارہ انتخاب جیتنا مشکل ہو جائے گا۔پی پی پی کو علم ہے کہ دوبارہ اتنی سیٹیں نہیں ملیں گے۔اس لیے مراد علی شاہ کسی بھی حالت میں سندھ اسمبلی کو توڑنے کے لیے تیار نہیں ہونگے ۔

بظا ہر مراد علی شاہ ایک قلعہ میں ہیں۔ ان کی گرفتاری ایک بہت مشکل کام ہے۔ ان کو علم ہے کہ جب تک وہ وزیر اعلیٰ ہیں تب تک انھیں گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ پیپلز پارٹی کو بھی علم ہے کہ ان کے بعد شاید دوبارہ پی پی پی کو اپنا وزیر اعلیٰ لانے کا موقع نہیں ملے گا۔ تاہم سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے۔ ماضی میں بھی اسٹبلشمنٹ سے تعلقات ٹھیک کرنے کے لیے پی پی پی نے قائم علی شاہ کو تبدیل کیا تھا۔ تب قائم علی شاہ

کی تبدیلی اور مراد علی شاہ کے وزیر اعلیٰ بننے سے تعلقات ٹھیک ہو گئے تھے۔ کیا آج دوبارہ پی پی پی ایسے کسی آپشن کو استعمال کر سکتی ہے۔ یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔ تاہم فی الحال مراد علی شاہ کو ہٹانا تب تک ممکن نہیں جب تک پی پی پی خود نہ چاہے۔ سارے اسکرپٹ دیوانے کے خواب ہیں۔ اور ان کو ممکن کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔