کوچۂ سخن

عارف عزیز  اتوار 1 ستمبر 2019
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے فوٹو: فائل

کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے فوٹو: فائل

غزل


زندگی کیوں نہ تجھے وجد میں لاؤں واپس
چاک پر کوزہ رکھوں، خاک بناؤں واپس
تھا ترا حکم سو جنت سے زمیں پر آیا
ہو چکا تیرا تماشا تو مَیں جاؤں واپس؟
دل میں اک غیر مناسب سی تمنا جاگی
تجھ کو ناراض کروں، روز مناؤں واپس
وہ مرا نام نہ لے صرف پکارے تو سہی
کچھ بہانہ تو ملے دوڑ کے آؤں واپس
وقت کا ہاتھ پکڑنے کی شرارت کر کے
اپنے ماضی کی طرف بھاگتا جاؤں واپس
دیکھ میں گردشِ ایام اٹھا لایا ہوں
اب بتا کون سے لمحے کو بلاؤں واپس
یہ زمیں گھومتی رہتی ہے فقط ایک ہی سمت
تو جو کہہ دے تو اسے آج گھماؤں واپس
(نذر حسین ناز۔ اسلام آباد)

۔۔۔
غزل


کیا یہ مقتول کی اولاد کی توہین نہیں؟
ایک بھی شخص بھرے شہر میں غمگین نہیں
اجنبی سوچ کے آنا مری مٹی کی طرف
کرۂ ارض کا ہر ملک فلسطین نہیں
دوستی وجہِ اذیت بھی ہوا کرتی ہے
جیسے میں تیرے لیے باعثِ تسکین نہیں
میں نے دن رات کو ہر رنگ میں ڈھلتے دیکھا
کوئی رُخ وقت کی تصویر کا رنگین نہیں
روز لگتے ہیں بھلے مجھ کو ہزاروں چہرے
دل کی تکلیف کا باعث کوئی دو تین نہیں
کچھ تغیر میں اگر ہے تو دکھا آنکھوں کو
زندگی میں ترے دن رات کا شوقین نہیں
(علی شیران، شورکوٹ، جھنگ)

۔۔۔
غزل


جو رات دن اپنا سَر کھپانے میں لگ گئے ہیں
یہ لوگ غزلوں کے کارخانے میں لگ گئے ہیں
عجیب ہے نا؟ ہیں سارے شیشے کے جسم والے
جو اپنے پتھر کے گھر بنانے میں لگ گئے ہیں
مجھے یقیں ہے کہ درد ان کا حساب لے گا
وہ چند لمحے جو مسکرانے میں لگ گئے ہیں
یہ دل کی باتوں پہ کان دھرنے کا وقت کب تھا
ہم اس کی باتوں پہ کس زمانے میں لگ گئے ہیں
وہ حوصلوں کی جو سَر پہ رکھ کے تھے لائے گٹھڑی
وہ سارے تیری گلی تک آنے میں لگ گئے ہیں
(عزم الحسنین عزمی۔ ڈوڈے، گجرات)

۔۔۔
غزل


درد کی بھٹی میں جھونکے عنوان گئے
نام گیا، تخلیق گئی، دیوان گئے
تم کس آگ میں جلنے پر آمادہ ہو
راز سلیقوں سے رکھنے پر مان گئے
شام سویرے چاک گریباں پھرتے ہو
پیوند لگنے کی ضد میں دامان گئے
کون اندھیروں سے لڑتا ہے، ہاں میں ہوں
شب کے مارے، نام لیا، پہچان گئے
کس کس کے ہاتھوں برباد ہوئے ہم تم
کس کس پر اپنے آنسو قربان گئے
تلخ سے اپنے لہجے پر شرمندہ ہوں
کیا کرتا، حد سے آگے ارمان گئے
شام ڈھلے باقیؔ اک حشر سا برپا ہے
لٹ گئی بستی، گھر اجڑے، سامان گئے
(وجاہت باقی۔ اسلام آباد)

۔۔۔
غزل


جس طرح خواب میں بنی تصویر
تم ہو میرے لیے وہی تصویر
وقتِ آخر تلک تجھے دیکھا
مرنے والے کے پاس تھی تصویر
آنکھ اشکوں سے بھر گئی میری
اور ہنستے ہی لی گئی تصویر
زندگی کی مثال ایسی ہے
جیسے البم میں دکھ بھری تصویر
تم مرے خواب میں چلے آئے
بند آنکھوں سے دیکھ لی تصویر
(شہزاد مہدی۔ اسکردو، گلگت بلتستان)

۔۔۔
غزل


تازہ آب و ہوا کرے کوئی
اس گھٹن سے جدا کرے کوئی
کوئی چُھو لے مرا یہ خاکی بدن
میرے دل کو ہرا کرے کوئی
آپ کے بن گزارنی ہو گی
زندگی کی دعا کرے کوئی
دل بھی لگتا نہیں لگانے سے
اس اداسی میں کیا کرے کوئی
اپنے اندر الجھ گیا ہوں میں
مجھ کو آ کر رہا کرے کوئی
آسماں کو جو چھونے والا تھا
اس کا جا کر پتہ کرے کوئی
(ساجد رضا۔ احمد پور سیال)

۔۔۔
غزل


مکانِ دل میں کوئی بھی مکیں نہیں میرے دوست
ٹھہر کے دیکھ تجھے گر یقیں نہیں میرے دوست
میں اس لیے بھی تیری خیر مانگتا ہوں بہت
تمام شہر میں تجھ سا حسیں نہیں میرے دوست
یہ رفتگان کہیں اور ہی مقیم ہوئے
تلاش کر لے یہ زیرِ زمیں نہیں میرے دوست
وہ کس لیے میرے بارے میں رائے دیتا ہے
جب اس کا ذکر ادب میں کہیں نہیں میرے دوست
جو سچ کے نور سے روشن دکھائی دیتی ہے
مری جبیں ہے یہ تیری جبیں نہیں میرے دوست
(طارق جاوید۔ کبیر والا)

۔۔۔
غزل
اداسی کا فسانہ شام تک ہے
ہمیں گھر لوٹ جانا شام تک ہے
تمہیں بھی یاد آئے گا بہت یہ
مرا ملنا ملانا شام تک ہے
بڑی ویراں فضاء ہے بعد تیرے
جگر سے خوں بہانا شام تک ہے
مری یہ زندگی کچھ پل کی ہے اب
مرا پلکیں بچھانا شام تک ہے
لگانا تم مجھے اپنے گلے سے
ہمیں تیرا ستانا شام تک ہے
(مہوش مہر۔ کراچی)

۔۔۔
غزل


دشتِ ہجراں میں ہوں اب کون نکالے مجھ کو
یہ بھی کہنے سے رہا دل کو بچا لے مجھ کو
میں نے کیا کیا نہ ترے واسطے چاہا لیکن
کر دیا تو نے زمانے کے حوالے مجھ کو
دھنستا جاتا ہے بدن ہجر کی دلدل میں مرا
چاہتا ہوں کہ کوئی آ کے نکالے مجھ کو
یہ ترے ہجر نے کی مجھ پہ عنایت کیسی!
کس نظر دیکھتے ہیں دیکھنے والے مجھ کو
جب تُو جاتا ہے تو بتلاؤں کہ کیا ہوتا ہے؟
چبھنے لگتے ہیں جہاں بھر کے اجالے مجھ کو
اک وہی تھا کہ جسے میری طلب تھی احسن
اب تو وہ بھی نہ رہا کون سنبھالے مجھ کو!
(احسن علی۔ منڈی بہاء الدین)

۔۔۔
’’ناکامی‘‘
دل ٹوٹ گیا!
چلو جوڑتے ہیں۔۔۔
ہم کوشش کرنے بیٹھ گئے
ہر بار مگر جب یہ کوشش
کچھ اچھا کرنے کی چاہت
ناکام ہوئی
اچھا نہ ہُوا کچھ بھی ہم سے
الٹا ہمیں سب نے دوش دیا
تب ہم نے بھی یہ سوچ لیا
دل ٹوٹے، بکھرے کچھ بھی ہو
چپ رہ کے تماشا دیکھیں گے
کچھ بھی نہ لبوں سے بولیں گے
بس اپنے بارے سوچیں گے!
(حرا یاسر۔ کراچی)

۔۔۔
غزل


وہ ہم سفر ہے مگر ساتھ دے نہیں سکتا
وہ ساتھ دے تو کوئی مات دے نہیں سکتا
وہ میرے ساتھ کھڑا تھا بلندیوں پہ مگر
میں گِر رہا ہوں مجھے ہاتھ دے نہیں سکتا
میں دان کر دوں زمیں آسمان سب تم کو
مگر انا کی تو خیرات دے نہیں سکتا
وہ بادشاہ ہے اسے تخت سے لگاؤ ہے
وہ دشمنوں کو کوئی گھات دے نہیں سکتا
میں ایک شاعر میرے اشعار اِک اثاثہ ہیں
میں مر تو سکتا ہوں خیالات دے نہیں سکتا
(محمد عاصم نقوی۔ سرگودھا)

۔۔۔
غزل


سکوتِ مرگ طاری کیوں!
یہ ہر سُو بے قراری کیوں
نہیں مجھ میں مجھے رہنا
تو پھر بے اختیاری کیوں
فقط تم ہی تو ہو اس میں
مگر یہ دل ہے بھاری کیوں
فنا ہونا ہے گر سب کو
تماشا ہے یہ جاری کیوں
خدا پر گر یقیں ہے تو
ہے ہمت تم نے ہاری کیوں
(ارباز ندیم بازی۔ کڈہالہ، آزاد کشمیر)

۔۔۔
غزل


نہیں ہے کوئی گل، صحرا ہے مجھ میں
مجھے تُو نے کہاں دیکھا ہے مجھ میں
جو پہلے تھا وہی اب بھی ہوں پیارے
لباسِ دل کہاں بدلا ہے مجھ میں
کرو نہ بات اب مجھ سے وفا کی
کہ درد و غم کی اک دنیا ہے مجھ میں
بس اک جاں ہے، سو وہ بھی جاں کہاں ہے
تجھے کیا دوں، بچا ہی کیا ہے مجھ میں
جسے اعجاز کہتی تھی، نہیں وہ
مگر کوئی اسی جیسا ہے مجھ میں
(اعجاز کشمیری۔ چین)

۔۔۔
غزل


کیسی ژالہ باری ہے، وقت ملا تو دیکھیں گے
حوروں میں جو ناری ہے، وقت ملا تو دیکھیں گے
گر وہ لکھنے بیٹھے تو لفظوں سے خوش بو آئے
کیسی یہ فن کاری ہے، وقت ملا تو دیکھیں گے
میرا حال سنا جس دَم، نامہ بر سے یوں بولے
عشق کی یہ بیماری ہے، وقت ملا تو دیکھیں گے
یار کے پہلو سے اٹھنا کون گوارا کرتا ہے
یہ جو دنیا داری ہے، وقت ملا تو دیکھیں گے
دنیا کے جنجال سبھی سچے ہیں ارباب مگر
عشق کی آج خماری ہے، وقت ملا تو دیکھیں گے
(ارباب اقبال بریار۔ احاطہ دیوی دیال، گوجرانوالا)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔