یا رب وہ نہ سمجھے ہیں‘ نہ سمجھیں گے مری بات

شاہد سردار  اتوار 1 ستمبر 2019

اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ کل تک کراچی کے حق ملکیت پر جھگڑنے والوں نے کراچی کو لاوارث چھوڑ دیا ہے۔ سندھ حکومت برسوں سے سندھ پر حکمرانی کر رہی ہے لیکن شہری اور دیہی دونوں علاقوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ سہولتیں، آسانیاں دور دور تک نہیں، پریشانی، زیادتی، حقوق سے محرومی چاروں طرف عفریت کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ پورا سندھ اورکراچی حد درجہ گندگی اور غلاظت سے بھرا پڑا ہے۔

بارشوں نے، عیدالاضحی کے جانوروں کی آلائشوں نے پورے شہر پورے صوبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں، مکھیوں مچھروں کی یلغار ہوگئی ہے اورگردوپیش کی ہرجگہ تعفن زدہ ہوگئی ہے اور متعلقہ ادارے اس کی سدھار کے حوالے سے ناکام ہوچکے ہیں۔ ہمارے ارباب اختیار تو ویسے بھی ہمیشہ سے سرکاری یا قومی خزانہ صاف کرنے کے حوالے سے بہت ماہر و مستعد رہے ہیں لیکن ملک یا صوبوں کا گند یا کوڑا کرکٹ اٹھانا کبھی ان کا مطمع نظر نہیں رہا ہے۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سندھ اور بالخصوص کراچی کی جو درگت بنائی گئی ہے، اس میں ’’زرداری اینڈ کمپنی‘‘ کا بہت بڑا ہاتھ ہے اور اسی وجہ سے آج وہ قانون کے ہاتھوں میں ہیں لیکن پیپلز پارٹی کو نوید ہوکہ زرداری کی گرفتاری سے ان کی پارٹی کو ہی فائدہ پہنچے گا، وہ پارٹی جو سندھ تک محدود ہوکر رہ گئی تھی وہ بھی اے ٹی ایم مشینوں تک۔ سپریم کورٹ نے اسی لیے کہا ہے کہ اگر سندھ حکومت نہیں چل سکتی تو چھوڑ دیں کیونکہ انھوں نے عزت اور ضمیر سبھی کچھ بیچ دیا ہے، سندھ کا ہر ادارہ صرف اور صرف اپنے مفادات کا دفاع کر رہا ہے، پورا شہر قطری خطوط پر رکا ہوا ہے اگر شہر میں 7 ریکٹر کا زلزلہ آگیا تو ایک کروڑ آبادی ختم ہوجائے گی۔‘‘

کراچی یا میگاسٹی کے وہ پرانے اور سنہری دن کوئی کیسے بھول سکتا ہے جب پارک اور پلے گراؤنڈز کے ساتھ تقریباً ہر علاقے کے مکینوں کو پانی کی سپلائی باقاعدگی سے ہوتی تھی۔ مفاد پرستوں اور لٹیروں نے مسند اقتدار سنبھال کر شہر اور علاقوں کو خون کی ندیوں میں بدل دیا، اس ساری مشق میں نقصان محض سندھ کراچی کے عوام کا ہوا اور اب تک ہو رہا ہے جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

آزمائش و ابتلا کی گھڑیوں میں ہی قوموں کا اصل امتحان ہوتا ہے، جہاں ہرکسی کو آگے بڑھ کر دوسروں کا بھی بوجھ ڈھونا ہوتا ہے۔ روشنیوں کے شہر کراچی کو 70 فیصد ریونیو وفاق کو دینے کے باوجود تاریکیوں اور مایوسیوں کا سامنا ہے۔ درست سمت میں کہتے ہیں ایک قدم کافی دور تک جاتا ہے، لیکن نہ وفاق اور نہ کسی صوبائی حکومت کے سربراہ نے ایسی سمت کا تعین کیا قدم اٹھانا تو بہت دور رہا۔

کون نہیں جانتا کسے نہیں معلوم کہ کسی بھی ملک کی ترقی وخوشحالی کی کسوٹی صحت مند دیہی کونسلیں اور بلدیاتی ادارے ہوا کرتے ہیں اور بلدیاتی اداروں کو جمہوری نرسریاں کہتے ہیں۔ قیام پاکستان کے 72 برسوں میں سب سے زیادہ ہمارے ہاں تجربات بلدیاتی اداروں پر ہی کیے گئے۔ وفاق اور صوبائی سطح کی نظام حکومت پر بھی بحیثیت قوم ہم متفق نہیں رہے ہیں۔ ہمارے ہاں بلدیاتی ادارے طویل ادوار تک معطل بھی رہے اور ان کی بحالی کے زمانے میں سیاسی مداخلت نے انھیں کامیابی سے چلنے نہیں دیا۔

تعمیروترقی کے فنڈز زیادہ تر غیر ذمے دار افراد کے حوالے کرکے آنکھیں بند کرلینے کے یہ نتائج ہیں کہ اس ترقی یافتہ دور میں شہری و دیہی سطح پر ہر طرف پینے کے صاف پانی، صحت وصفائی،گلیوں، سڑکوں، سیوریج کے ترقیاتی کاموں، ڈسپنسریوں، سرکاری اسکولوں، کھیل کے میدانوں، مارکیٹوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولتوں کا فقدان ہے۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ غیر جمہوری حکومتوں میں بلدیاتی انتخابات زیادہ ہوئے جب کہ جمہوری حکومتوں نے کوشش کی کہ بلدیاتی انتخابات نہ ہوں۔ حالانکہ جمہوریت کا بنیادی تقاضا ہی یہی ہے کہ اختیارات زیادہ سے زیادہ نچلی سطح پر تقسیم کرکے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ با اختیار بنایا جائے تاکہ اس کا فائدہ عام لوگوں کو پہنچے، اور ان کا عرصہ حیات تنگ نہ ہو۔

دنیا بھر میں شہروں کی روزانہ کی بنیاد پر صفائی کا کام ہوتا ہے، تعمیر ومرمت کا کام بھی ہمہ وقت ہوتا ہے۔ یورپ میں اپنے شہروں کو خوبصورت ترین اور صاف ستھرا بنانے کا جنون سترہویں صدی میں پیدا ہوا تھا جس میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا رہا۔ ہم نے مغرب سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے لیے جمہوری نظام مستعار لے لیا لیکن ہم نے ان کا سب سے خوبصورت اور موثر مقامی حکومتوں کے جمہوری نظام کو کبھی نہیں اپنایا۔ یورپ کے کئی ممالک میں مقامی حکومتوں کا نظام قائم ہے۔

مقامی حکومتوں کو سب سے زیادہ مالیاتی اور انتظامی خود مختاری حاصل ہے، لیکن کس قدر دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ کراچی جیسے تین کروڑ آبادی والے شہر کے بارے میں فیصلوں کا اختیار مقامی حکومت کے پاس نہیں ہے۔ اس شہر کے بلڈنگ کنٹرول، منصوبہ بندی و ترقی، پانی اور نکاسی آب کے ادارے صوبائی حکومت چلاتی ہے۔ اب حالات یہ ہیں کہ کراچی شہر قابل انتظام نہیں رہا۔ انفرااسٹرکچرکے بغیر بلند عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دے دی گئی، شہر کی ترقی و منصوبہ بندی میں مقامی حکومتوں سے مشاورت نہیں کی جاتی۔ شہرکا ماسٹر پلان شہر کے منتخب نمایندوں سے دور رکھا گیا۔

اس وقت ہم اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں داخل ہو رہے ہیں اور مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے میں بھی بہت تاخیر ہم کرچکے ہیں، اب مزید تاخیر سے ہمارے شہر مزید تباہ ہوں گے اور دنیا کے مزید گندے شہر بنتے جائیں گے اور یہاں صحت و صفائی، ٹرانسپورٹ، ماحولیات اور امن و امان کے حوالے سے مزید خرابیاں پیدا ہوں گی بالخصوص تین کروڑ کی آبادی کو اگر کسی بڑے سانحے اور بحران سے بچانا ہے تو کراچی کو خودمختار اور طاقتور مقامی حکومت کا نظام دینا ہوگا۔

کراچی کے علاوہ دوسرے بڑے چھوٹے شہروں سے لے کر دیہی کونسلز تک سب کو مالی اور انتظامی طور پر بااختیار بنائے بغیر نہ ہم بنیادی مسائل سے نبرد آزما ہوسکتے ہیں اور نہ ہی جدید جمہوری ریاست بن سکتے ہیں۔ اب کراچی، لاہور، اسلام آباد، ملتان، فیصل آباد، کوئٹہ، پشاور اور حیدرآباد وغیرہ جیسے بڑے شہروں کو بے اختیار مقامی حکومتوں سے نہیں چلایا جاسکتا جو فنڈز کے لیے صوبائی حکومتوں کی طرف دیکھتے ہیں۔

ملک کے معاشی حب کراچی کو ایک مضبوط، فعال اور منتخب میئر کے ذریعے چلانا وقت کی اولین ضرورت بن گیا ہے۔ شہری منصوبہ بندی والے تمام اداروں کا کنٹرول بلدیہ عظمیٰ کراچی کو دینے سے ہی وطن عزیز کی فلاح ہے۔ تحریک انصاف نے حال ہی میں پنجاب میں نیا بلدیاتی نظام متعارف کرایا ہے اور ملک کی تاریخ میں کم و بیش یہ پانچواں موقع ہے جب بلدیاتی نظام میں تبدیلی لائی گئی ہے، تاہم یہاں یہ بات انتہائی قابل غور ہے کہ کتنے ہی نظام تبدیل کرلیے جائیں، جب تک ان میں رشوت و بدعنوانی اور اقربا پروری کا عنصر موجود ہے مطلوبہ نتائج کا حصول ایک خواب ہی رہے گا۔

ہمارے وطن عزیزکے کرتا دھرتاؤں یا ارباب اختیارکو اس بات کی طرف بھی اپنی توجہ مبذول کرنی چاہیے کہ بہت سی باتیں ازخود کرلی جائیں تو پھر ان کا حصہ بننے میں نہ قباحت ہوتی ہے اور نہ ہی احساس شرمندگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔