رابرٹ سنڈیمن کے بارے میں کچھ مزید باتیں

نصرت جاوید  جمعـء 27 ستمبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

کیپٹن رابرٹ سنڈیمن کے بارے میں ایک کالم لکھ کر میں تو مصیبت میں پڑ گیا۔ مقصد اس کالم کا آپ لوگوں کو بس یاد دلانا تھا کہ انگریزی دور کے اس افسر نے بلوچستان میں ایک ایسا نظام متعارف کرایا تھا جس کے منفی اثرات ہم اب تک بھگت رہے ہیں۔ میں نے اپنی دانست میں بڑے شاعرانہ انداز میں یہ بتانے کی کوشش بھی کی تھی کہ اس کا اصل منصوبہ انگریزوں کے غلام علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو کسی جدید ریاست کے ’’شہری‘‘ نہیں بلکہ ایک سامراجی طاقت کی ’’رعایا‘‘ بنائے رکھنا تھا۔ شاید دانشور لگنے کی کوشش میں اپنی یہ بات سمجھا نہ سکا۔ شکوہ بھرے فون بلوچستان میں رہنے والے چند پشتون قوم پرستوں کی طرف سے آنا شروع ہو گئے۔ انھیں گلہ تھا کہ میں نے ’’فورٹ سنڈیمن‘‘ کے بارے میں لکھتے ہوئے یہ وضاحت کیوں نہ کی کہ وہاں ’’پشتون‘‘ رہتے ہیں بلوچ نہیں۔

میں اس کے سوا کچھ عرض نہ کر سکا کہ اپنے کالم کے آغاز میں ہی میں نے اعتراف کیا تھا کہ میں اس شہر میں کبھی نہیں گیا جسے ایک زمانے میں ’’فورٹ سنڈیمن‘‘ کہا جاتا تھا۔ ویسے بھی میرا مقصد اس شہر کی تاریخ اور اس کی موجودہ نسلی اور ثقافتی شناخت کو بیان نہیں کرنا تھا۔ اصل سوال تو یہ اٹھانا تھا کہ ’’حکومت‘‘ کیا ہوتی ہے اور آج کل کے پاکستان میں حکمرانی کے جو ڈھانچے ہیں کیا اسی فکر کی نمایندگی نہیں کرتے جو رابرٹ سنڈیمن جیسے انگریز سامراجی افسروں نے متعارف کرائی تھی ۔ شاید ہم ایسے سوالات کرنا پسند ہی نہیں کرتے ان کے جوابات ڈھونڈنا تو بہت دور کی بات ہے۔ میں ذاتی طور پر البتہ یہ سوالات کرتے رہنے پر خود کو مجبور محسوس کرتا ہوں۔ اسی لیے آج سنڈیمن کے بارے میں ذرا تفصیل سے بات کرنے کا خواہش مند بھی ہوں۔

1860ء کی دہائی کے آخری سالوں میں ڈیرہ غازی خان بھجوائے جانے سے پہلے یہ افسر ان دنوں کے ضلع پشاور کا اسسٹنٹ کمشنر ہوا کرتا تھا۔ اپنی اس حیثیت میں اس نے 1863ء کی اس تاریخی فوجی مہم میں بھی حصہ لیا تھا جو وادی سوات میں ’’شورش کو کچلنے‘‘ کے نام پر برپا ہوئی تھی۔ پختون قبائل کے ساتھ معاملات نبٹانے کے انتظامی تجربے کی وجہ سے اسے ’’جرگہ‘‘ کی اہمیت کا اندازہ ہوا اور اس کا سامراجی ذہن اس نتیجہ پر پہنچا کہ ہمارے برطانوی آقا اس ادارے کو اپنے مقصد کے لیے بڑی آسانی سے استعمال کر سکتے ہیں۔ اپنی اس سوچ کا عملی مظاہرہ اسے پشاور میں تعیناتی کے دوران پوری طرح نہ مل سکا۔ البتہ جب اسے ڈپٹی کمشنر بنا کر ڈی جی خان بھیجا گیا تو اس ضلع کو بلوچ قبائل کی ’’یلغاروں‘‘ سے بچانے کے لیے اس نے اپنی سوچ کے مطابق انتظامی امور کے حوالے سے بہت ساری نئی باتیں متعارف کرائیں۔

جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں، برطانیہ کی طرف سے ان دنوں بلوچستان کے معاملات سندھ کا کمشنر دیکھا کرتا تھا۔ اسے سنڈیمن کی طرف سے ’’بلوچ معاملات‘‘ میں مداخلت پسند نہ آئی۔ اس نے جب بہت واویلا مچایا تو لارڈ لٹن (Lytton) نے باقاعدہ چٹھی کے ذریعے سنڈیمن کو یاد دلایا: ’’تمہیں یہ بات اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے کہ قلات سماجی حوالوں سے اس وقت اسی طرح کے حالات سے گزر رہا ہے جو 13 ویں صدی کے یورپ میں نظر آیا کرتے تھے۔ یہ علاقہ (ریاست قلات) ان دنوں قبائلی معاشرے سے جاگیردارانہ معاشرے کی طرف ترقی کر رہا ہے۔ اس ترقی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم خان آف قلات کے حقِ حکمرانی کو مزید مستحکم اور طاقتور بنائیں۔ ایسا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بتدریج قبائلی سرداروں کی قوت کو کمزور کیا جائے۔ یہ بات ہرگز ہمارے مفاد میں نہیں کہ اس علاقے کی قدیم روایات کے نام پر ہم جن چیزوں کو تم سرداروں کے تاریخی حقوق کہتے ہو ان کا تحفظ کرنا شروع ہو جائیں۔ ‘‘

سنڈیمن مگر اپنی بات پر اڑا رہا۔ اس نے بلوچستان کے سرداروں کو ’’بلوچی‘‘ اور ’’بروہی‘‘ بنیادوں پر تقسیم کرنے کے بعد قبائلی سرداروں کے ساتھ علیحدہ علیحدہ انداز میں معاملات طے کرتے ہوئے بالآخر خان آف قلات کو بھی اس امر پر مجبور کر دیا کہ وہ ان کے ساتھ ’’شاہی جرگے‘‘ کے ذریعے ’’عزت و وقار کے ساتھ‘‘ اپنے معاملات طے کرے۔ شاید مجھے یہ اضافہ کرنے کی ضرورت نہیں کہ ’’شاہی جرگے‘‘ کی تشکیل اور فیصلہ سازی کے حوالے سے اصل اختیارات سنڈیمن نے خود ہتھیا لیے۔ حتیٰ کہ 1876ء میں اس نے مستونگ معاہدہ کرایا جس کی کئی مشقیں آج بھی ’’قدیم روایات‘‘ کی صورت سراواں اور جھالاواں کے سردار اپنا حق سمجھتے ہیں۔

لندن میں بیٹھے سنڈیمن کے سینئر اس کے حربوں سے اتنا متاثر ہوئے کہ انھوں نے ان کو Sandeman System کہنا شروع کر دیا۔ بالآخر اسی نظام کو جنوبی افریقہ اور کینیا میں رائج کرنے کی ضرورت بھی محسوس ہوئی۔ یہ تو تاریخی باتیں ہیں۔ صدر بش کے آخری دنوں میں جب 2008ء کے شروع میں امریکا کو احساس ہوا کہ وہ افغانستان میں اربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد بھی اس ملک میں کوئی نظام قائم کرنے میں ناکام رہا ہے تو ڈیوڈ پیٹریاس جیسے ’’دانشور جرنیل‘‘ کی ضرورت پڑی۔ اس نے اس بات پر زور دیا کہ محض فوجی قوت پر انحصار کے بجائے قابض افواج کو افغانوں کے ’’دل اور دماغ جیتنے‘‘ کی کوشش کرنا چاہیے۔ “Winning  Hearts and Minds” کی یہ اصطلاح میں یہ بتاتا چلوں سب سے پہلے سنڈیمن نے ہی 1870ء میں ایجاد کی تھی۔

سنڈیمن کی بنیادی سوچ یہ تھی کہ برطانیہ جیسی سامراجی قوتوں کو قبائل میں بٹے معاشروں کو ’’مہذب‘‘ بنانے پر اپنے وسائل ضایع نہیں کرنا چاہئیں۔ وہ 1870ء کے بلوچستان اور آج کے FATA میں اس طرح کی بھاری سرمایہ کاری کے سخت خلاف تھا جس کے ذریعے آج کے سندھ اور پنجاب میں ریلوے اور نہروں کا عظیم الشان جال بچھایا گیا تھا۔ ریلوے اور نہروں کی بدولت جب ان علاقوں میں تھوڑی ترقی، جدت اور خوش حالی آئی تو سامراجی آقائوں نے پولیس اور عدالتی نظام کے ذریعے ’’امن اور انصاف‘‘ قائم رکھا۔ مگر ان ہی چیزوں کی بدولت ان علاقوں کے ’’دیسی‘‘ لوگوں کو جدید ریاست کے ’’شہریوں‘‘ والے حقوق کا احساس بھی ہوا۔ ان کے مکمل حصول کی جدوجہد نے ہمیں بالآخر 1947ء دیا۔

سنڈیمن 1860ء کی دہائی کے آخری سالوں سے ہی ’’رعایا‘‘ کو ’’شہری‘‘ بنانے کے امکانات کو روکنا چاہتا تھا۔ باقی جگہ اس کا بس نہیں چلا۔ مگر بلوچستان کے حوالے سے اسے کھل کر کھیلنے کے تاریخی مواقع ملے۔ اس نے لندن والوں کو قائل کر دیا کہ قبائل میں بکھرے بلوچستان کے ’’قدیم رواج اور روایتوں‘‘ کو برقرار رکھا جائے۔ اگر یہ قبائل اپنے علاقوں تک اپنے رواج کے تحت زندگی گزارنے پر تیار ہوں تو ان کی حوصلہ شکنی کے بجائے حوصلہ افزائی کی جائے۔ بہتر ہے کہ ان کے قبائلی سردار ’’لیویز‘‘ کے ذریعے انھیں قابو میں رکھیں چونکہ یہ ’’لیویز‘‘ بلوچستان کے راستوں سے برطانوی افواج اور اشیائے صرف کی آمد و رفت کی حفاظت کرنے کی بھی ذمے دار تھیں اسی لیے ان کو برقرار رکھنے کے لیے سرکاری خزانے سے قبائلی سرداروں کو باقاعدہ رقوم فراہم کی جاتیں۔ ان ’’لیویز‘‘ کے مکمل کنٹرول کو یقینی بنانے کے لیے سنڈیمن نے بلوچستان کے سارے علاقوں میں برطانوی پولیس کا نظام بھی نہیں آنے دیا اور صورتحال ان دنوں بھی کوئی زیادہ مختلف نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔