جغرافیائی تقسیم بہرحال نامکمل ہے!

راؤ منظر حیات  پير 2 ستمبر 2019
raomanzar@hotmail.com

[email protected]

چندعلاقے،ریاستیں اورملک ہمیشہ کسی نہ کسی آزمائش میںمبتلا رہتے ہیں۔پتہ نہیں آزمائش کا لفظ درست حالات کی عکاسی کرتاہے۔شائدمشکل میں رہتے ہیں۔بہرحال جو بھی الفاظ استعمال کرلیں یہ خطے کبھی مستحکم نہیں ہوپائے۔ قدرت ہمیشہ ان کاامتحان لیتی رہتی ہے۔

جس زمینی ٹکڑے پرہم سارے سانس لے رہے ہیں یہاں کے معروضی حالات کبھی درست نہیں رہے۔ایساکیوں ہے۔اسکی بہت سی وجوہات ہیں۔مگرایک  بڑی وجہ بالادستی کی وہ سماجی یا حکومتی کشمکش ہے جس سے چھٹکاراحاصل کرنا ناممکن ہوچکا ہے۔ آج کل کشمیر پر بہت بحث ہورہی ہے۔اس میں سے اکثر باتیں جذباتیت ہیں۔تلخ سچ تویہ ہے کہ برصغیرکے دوسرے علاقوں کی طرح کشمیرکبھی امن اورترقی کامرکزنہیں بن پایا۔ شائدکوئی قدرت کی سزاہے ۔ویسے اب توترقی،خوشحالی کے الفاظ سراب ہیں۔ترقی دیکھنی ہے تومغرب کی طرف جائیے۔

وہاں جاکرمعلوم ہوتاہے کہ انسان کیسے انسانوں کی طرح زندہ ہیں۔حکومت کامطلب کیاہے۔بہترین ریاستی نظام کیاہوتاہے۔جب بھی یورپ یاامریکا سے واپس آتاہوں توسوال ذہن میں باربارآتاہے کہ اگروہ انسان ہیں توخدایا ہم کیا ہیں۔اگروہ ملک ہیں توپھرہماراملک کیاہے۔

ویسے اب نہ سوال پوچھنے کودل چاہتاہے نہ جواب مانگنے کو۔مگرسوچ ضرورہے کہ کیاتغیرات زمانہ صرف ہمارے خطے کے لیے وجود میں آئی ہیں۔کشمیرکی تاریخ اورموجودہ حالات کوپرکھیں توانکی حالتِ زاربتانے کے لیے کوئی بھی لفظ سامنے نہیں آتا۔ جبر، وحشت یابربادی۔شائد یہ سب کچھ ملاکرکچھ سمجھ آجائے۔ ایک ہزاربرس پہلے بھی حالات ایسے ہی تھے اوراسکے بعد بھی۔

محترم مہیب الحسن نے کشمیر کی ابتدائی تاریخ پر بھرپور  روشنی ڈالی ہے۔گیارہ سوعیسوی میں وہاں لوہاراخاندان کی حکومت تھی۔مگراس وقت بھی ریاستی جبر موجودتھا۔اسکے بعد رنجانہ نام کے ایک بدھ نے حکومت قائم کی۔ رنجانہ مسلمان ہوگیا۔اسکے ایک وزیرشاہ میرنے بغاوت کرکے کشمیرپراپنی حکومت قائم کرلی۔

چودھویں صدی میں اسلام کشمیرکاسب سے بڑامذہب بن چکاتھا۔اسلام پھیلانے میں شیخ نورالدین نورانی کابہت کردار تھا۔یہ ایک صوفی بزرگ تھے۔نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہندوؤں میں بھی حددرجہ احترام سے دیکھے جاتے تھے۔ ہندو انھیں ’’نندرشی‘‘کہتے تھے۔ مغل سلطنت سے پہلے بھی کشمیر پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔اکبراعظم پہلا بادشاہ تھاجس نے کشمیرکواپنی سلطنت میں باقاعدہ شامل کیا۔ پہلے افغان صوبے کاایک حصہ بنایاگیا۔شاہ جہاں نے مکمل صوبہ کادرجہ دیدیا۔چارصدیوں کی مسلسل حکومت کے بعد، رنجیت سنگھ نے کشمیر پرقبضہ کرلیا۔

سکھوں کادارالحکومت لاہورتھااورانھیں کشمیرسے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔تاریخ کے تناظرمیں دیکھاجائے تومسلمانوں کے خلاف باقاعدہ اقدامات،ہندوؤں نے نہیں بلکہ سکھ فاتحین نے کیے تھے۔ انگریزوں اورسکھوں کی باہمی جنگ کے بعد مہاراجہ گلاب سنگھ نے ’’معاہدہ امرتسر‘‘کے تحت کشمیرمیں اپنی باضابطہ حکومت قائم رکھنے کی اجازت لے لی۔

اس معاہدے میں کشمیر پچھتر لاکھ روپے میں فروخت کیاگیا تھا۔ 1857 کی جنگ آزادی میں ڈوگراحکمرانوں نے ایسٹ انڈیاکمپنی کا ساتھ دیا۔کمپنی بہادرنے وفاداری کے  صلے میں گلاب سنگھ کی حکومت کو مضبوط کر ڈالا۔ہنزہ،نگراورگلگت پہلے ریاست کاحصہ نہیں تھے۔ مگر انگریزوں نے یہ تمام علاقے گلاب سنگھ کے جانشین، رمبیر سنگھ کی حکومت میں شامل کرنے کی اجازت دیدی۔مقامی مسلمانوں کے حالات ڈوگرا حکمرانی میں حددرجہ دگرگوں رہے۔ مسلمانوں کواس دورمیں تقریباً جانوروں کی سطح پر رکھا گیا ۔1930میں مقامی مسلمانوں میں فکری بہتری کے کچھ آثارنظرآنے شروع ہوچکے تھے۔

1947میں کشمیرپرہری سنگھ کی حکومت تھی۔مقامی آبادی میں ستترفیصد مسلمان تھے اوربیس فیصددیگرمذاہب کے افرادتھے۔بہت کم لوگ اس حقیقت کاذکرکرتے ہیں کہ مہاراجہ کے خلاف بغاوت  پونچھ میں شروع ہوئی۔  وجوہات میں ایک توہری سنگھ کے ٹیکس کے نظام کے خلاف نفرت تھی اوردوسرامسلمانوں کی اکثریت پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتی تھی۔مہاراجہ نے ہندوستان اورپاکستان کے ساتھ Standstill agreementکیا۔مطلب تھاکہ ریاستی معاملات کوجوں کاتوں رکھاجائیگا۔پونچھ کی بغاوت میں، موجودہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کے جنگجوبھی شامل ہوگئے اورہری سنگھ مقابلہ کرنے سے قاصررہا۔یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جس کے زیرِاثرہری سنگھ نے بھارتی حکومت کے ساتھ Instrrument of Accessionدستخط کیا۔

معاہدہ جلدی میں ضرورکیاگیا۔مگراس معاہدے کے تمام نکات میں لکھاگیاتھاکہ انڈین حکومت یکطرفہ طورپرکسی قسم کی تبدیلی نہیں کرسکتی۔ معاہدے کے تحت کشمیرکوایک مخصوص حیثیت دی گئی۔اس معاہدہ پرکبھی عمل نہیں ہوا۔ 27اکتوبر 1947کومعاہدہ دستخط ہوئے اوراسی دن بھارت نے کشمیر میں فوج داخل کردی تھی۔مقامی لوگوں کواپناحق رائے دہی کے اظہارکے لیے ایک دن بھی نہیں دیاگیا۔پاکستان نے اس معاہدے کواس بنیادپرتسلیم نہیں کیاکہ مہاراجہ حالات کی وجہ سے بھارتی حکومت کے سامنے بے بس تھا اوراس نے مقامی آبادی سے قطعاًمعلوم نہیں کیاکہ وہ کیاچاہتے ہیں۔

ابتدائی دنوں میں ہندوستان کے وزیراعظم جواہرلال نہرونے وعدہ کیاتھاکہ کشمیرکے معاملات پرمقامی لوگوں کی رائے بذریعہ ووٹ معلوم کی جائیگی۔ہندوستان کے آئین میں نہرونے کشمیرکا’’مخصوص مقام‘‘ برقرار رکھا تھا ۔ مگر بدقسمتی یہ ہے کہ 1947سے لیکرآج تک اس مشکل معاملہ کوپُرامن طریقے سے حل کرنے کی بجائے جنگوں کاسہارالیا گیا۔ پاکستان اور ہندوستان اس وقت تک چارجنگیں لڑچکے ہیں۔ان میں سے ایک بھی فیصلہ کن ثابت نہیں ہوئی۔

کانگریس کیونکہ اس معاملے میں براہِ راست فریق تھی۔اسلیے  اس کا ردِعمل دیگر سیاسی جماعتوں سے مختلف تھا۔ آر ایس ایس نے 1958کے انتخابی منشورمیں کشمیرکی مخصوص حیثیت ختم کرنے پرزوردیاتھا۔اگر آج بھی بی جے پی اورآرایس ایس کے تنظیمی لٹریچرکاجائزہ لیں تویہ بات سامنے آجاتی ہے کہ وہ ہندوستان کے آئین میں کشمیرکودی گئی کسی سہولت کو تسلیم نہیں کرتی۔اس بات کاادراک ہوناچاہیے کہ بی جے پی نے آئین کی شق370کوختم کرنے کاکوئی نیاکام نہیں کیا۔بلکہ یہ عنصرتو پارٹی منشورمیں شامل ہے۔

کشمیر کا بیشتر علاقہ ہندوستان کے پاس ہے۔2011میں ہونے والی مردم شماری کے تحت لداخ سمیت مکمل آبادی ایک کروڑپچیس لاکھ ہے۔جموں میں تقریباًپچپن لاکھ اورکشمیرمیں سترلاکھ لوگ بستے ہیں۔لداخ کی آبادی حددرجہ کم ہے۔آٹھ برس پہلے یہاں صرف تین لاکھ نفوس تھے۔مذہب کے اعتبارسے دیکھاجائے توکشمیرمیں 96 فیصدآبادی مسلمان ہے۔جموں میں یہ ترتیب بدل جاتی ہے ۔وہاں باسٹھ فیصدہندو ہیں اور مسلمان صرف تینتیس فیصدہیں۔لداخ میں مسلمان تقریباً پچاس فیصدہیں۔ کشمیرواحدریاست ہے جہاں 2019اگست تک ایک مقامی آئین تھااور ساتھ ساتھ انکاالگ جھنڈا تھا۔

سرخ رنگ کے اس جھنڈے کے آخرمیں تین سفیدلکیریں تھیں جوکشمیر ، جموں اورلداخ کی ترجمانی کرتی تھیں۔ ریاستی اسمبلی اوراپنی ہائیکورٹ تھی۔آرٹیکل370کے ختم ہونے کے بعدیہ تمام چیزیں معدوم ہوچکی ہیں۔

ایک انتہائی عجیب بات۔آج تک کسی مظاہرہ یاجلوس میں سرخ رنگ کامقامی کشمیری جھنڈادیکھنے کونہیں ملا۔اکثریت پاکستان یاآزادکشمیر کا جھنڈا لہراتے نظرآتے ہیں۔اس وقت صورتحال اس قدرخراب ہے کہ مقبوضہ کشمیرکاکوئی وزیراعلیٰ ہی نہیں ہے۔مرکزسے صدارتی اختیارات کے تحت حکومت کی جا رہی ہے۔جس میں تمام اختیارات گورنرستیاپال ملک کے پاس ہیں۔چیف سیکریٹری بھی دہلی سے تعینات کیا گیا ہے۔ یعنی مقامی انتظامیہ مفلوج کردی گئی ہے۔موجودہ چیف سیکریٹری بی وی آر سبرانیم ہے جس کاواضح جھکاؤ بی جے پی کی طرف ہے۔

یہاں ایک نازک نکتے پرگزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔سوال یہ ہے کہ کیاکشمیری لوگ پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔طالبعلم کی نظرمیں اس کا جواب نفی میں ہے۔کشمیرکے لوگوں کی اکثریت ایک علیحدہ اورخودمختارملک کاقیام چاہتی ہے۔کیایہ نیاملک بن پائیگا۔یااسکی اجازت دی جائیگی۔

اس پرفی الحال وثوق سے بات نہیں کی جا سکتی۔ مگر پاکستان میں اکثریت یہی گردانتی ہے کہ کشمیر پاکستان کا حصہ بن جائیگا۔اس سوال پرکم ازکم ہمارے ملک میں کوئی سنجیدہ بحث نہیں ہوتی۔ہندوستان میں بھی غیرسنجیدگی اور جذباتیت ہے۔ہاں،اب انکے نعروں کے پیچھے معاشی ترقی بہرحالموجودہے۔جوشائد،ہمارے ہاں، ٹھوس بنیادوں پراُستوارنہیں ہوسکی۔مستقبل میں کیاہوگا۔یہ بھی ایک سوال ہے۔مگریہاں توسوالات ہی سوالات ہیں۔ جواب توکسی کے پاس نہیں ہے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔