ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت

ظہیر اختر بیدری  پير 2 ستمبر 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

انسان کے سر پر اشرف المخلوقات کا تاج سجایا گیا ہے، لیکن انسان اشرف المخلوقات کے بجائے ذلت المخلوقات بن کر رہ گیا ہے۔ انسانوں کی معلوم تاریخ انسان کے ہاتھوں انسان کے قتل سے بھری ہوئی ہے۔ انفرادی قتل و غارت کے علاوہ جنگوں میں انسان کے ہاتھوں انسان کے بہیمانہ قتل و غارت انسانیت کے نام پر ایک کلنک بنی ہوئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا کے غریب عوام جنگیں لڑتے ہیں۔۔۔۔ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں بلکہ غریب عوام ہر دور میں جنگوں کا ایندھن بنتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جنگیں ہمیشہ عوام کے نام پر ہی لڑی جاتی رہی ہیں، جنگوں کے فیصلے عوام نہیں خواص کرتے ہیں ماضی میں جنگوں کے فیصلے بادشاہ، راجے، مہاراجے کرتے تھے۔

جب سے دنیا میں جمہوریت کا آغاز ہوا ہے جنگوں کے فیصلے عوام نہیں، عوام کے منتخب نمایندے کرتے ہیں۔ عوام انتخابات کے ذریعے اپنے نمایندے منتخب کرتے ہیں اور انتخابات میں  لڑنے والے اپنا ایک انتخابی منشور عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ دنیا کے کسی جمہوری ملک کے منشور میں جنگ لڑنے کا ذکر نہیں ہوتا جب کسی انتخابی منشور میں جنگ لڑنے کا ذکر نہیں ہوتا تو پھر جنگیں کیوں لڑی جاتی ہیں؟

دنیا دانشوروں سے بھری ہوئی ہے اور دانشور انسانیت کے خلاف کسی اقدام کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں،کہا جاتا ہے دنیا میں خاص طور پر جمہوری دنیا میں دانشور قوموں کی نظریاتی رہبری کرتے ہیں اور دنیا کو دانشوروں کی نظریاتی رہبری کی ضرورت ہوتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا عالم یہ ہے کہ اب دانشوروں پر مشتمل تھنک ٹینک بنا لیے گئے ہیں۔ یہ تھنک ٹینک بھاری رقمیں لے کر دنیا کو دانشورانہ مشورے دیتے ہیں۔ دنیا کی بھلائی اگر تھنک ٹینکوں کے مشوروں پرکی جائے تو دنیا کا وہی حشر ہوگا جو ہو رہا ہے۔ مغربی ملکوں میں تو تھنک ٹینک حجاموں کی دکانوں کی طرح عام ہیں۔

قتل و غارت خواہ انفرادی سطح پر ہو یا جنگوں کی سطح پر اس میں چھوٹے ہتھیاروں سے لے کر ایٹم بم تک استعمال ہوتے ہیں۔ کیا ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت پر پابندی لگا دی جائے اور ہتھیار تیار کرنے والوں اور اس کی تجارت کرنے والوں کو سزائے موت دی جائے تو نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ یہ کام کاروبار کرنے والے تھنک ٹینک نہیں کر سکتے کیونکہ وہ معاوضہ لے کر یہ کارخیر کرتے ہیں۔ دنیا کے ہر ملک میں دنیا کی بھلائی چاہنے والے دانشور موجود ہیں اگر یہ 1933ء میں ہونے والی پیرس کانفرنس کی طرز پر جنگوں اور ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت کے خلاف آواز اٹھائیں تو یقینا اس کے مثبت اثرات ہوں گے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ ذمے داری ادا کون کرے گا۔

آج برصغیر کے آسمان پر بھی جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں یہ حق وانصاف کی جنگ نہیں بلکہ طاقتور اورکمزور کی جنگ ہے، اگر طاقت کا نام انصاف ہے تو دنیا میں ایسی انارکی پھیلے گی کہ حق و انصاف کی بات کرنے والا قابل گردن زنی قرار پائے گا۔ اس حوالے سے کشمیر کے ڈیڑھ کروڑ عوام 70 سال سے اپنے جمہوری حق یعنی حق خود ارادی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں لیکن ان کی آواز کو طاقت کے ذریعے مسلسل دبایا جا رہا ہے۔ بھارت کے مذہبی انتہا پسند وزیر اعظم نے ایک ایسا قدم اٹھایا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ ختم ہوکر رہ گیا ہے بعض اقدامات اس کے نتائج پر نظر ڈالے بغیر اٹھائے جاتے ہیں اور نتیجہ تباہی ہی ہوتا ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھارت کے جنگی جنون اور کشمیری عوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف ایک زبردست مہم چلائی ہے اور ساری دنیا کو ان مظالم کے حوالے سے کشمیری عوام کی حمایت کے لیے آمادہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے،ایسے موقع پر چند عرب حکمرانوں کی طرف سے ملک کے قیمتی ایوارڈز دے کر مودی جیسے مذہبی انتہا پسند شخص کی حمایت ایک بدترین جرم سے کم نہیں، مودی کو ایوارڈ دینا ایک سفاک مجرم کو ایوارڈ دینے سے کم نہیں جس کے ہاتھ گجرات کے مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور وزیر اعظم ہونے کے ناتے کشمیر کے 70 لاکھ بے گناہ کشمیریوں کا قتل بھی مودی کے سر ہی آتا ہے۔

عرب حکمرانوں نے اس نازک موقع پر مودی کی حمایت کر کے کشمیریوں کی پیٹھ میں خنجر اتارنے کی جو کوشش کی ہے وہ بذات خود ایک مجرمانہ حرکت ہے۔ عرب حکمران عوام کے حق خود ارادی سے واقف نہیں کیونکہ ان کی شرع میں انسان کی آزادی کی کوئی وقعت ہی نہیں ہے۔

دنیا کے 90 فیصد انسانوں کو تو انسان ہی نہیں سمجھا جاتا ان کے گلے میں جمہوریت کا طوق ڈال کر انھیں ملکوں کا مالک بنا دیا گیا ہے لیکن ان 90 فیصد عوام سے بادشاہ بننے کا پروانہ (ووٹ) تو کسی نہ کسی طرح حاصل کر لیا جاتا ہے لیکن ملکوں اور قوموں کی قسمت کے فیصلوں میں ان کا کوئی دخل نہیں ہوتا ، جمہوریت کا مطلب ہر اہم قومی مسئلے پر عوام کی رائے لینا ہوتا ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم مودی نے کشمیرکو بھارت میں شامل کرنے کا غیر جمہوری فیصلہ تو کر لیا لیکن برصغیر پر پڑنے والے منفی اثرات کی انھیں کوئی پرواہ نہیں۔

پرانے زمانے کے حکما کا طریقہ علاج کتنا ہی قابل اعتراض سہی ان کا طرز تشخیص اپنے دور کے حوالے سے بڑا سودمند سمجھا جاتا ہے۔ حکیم لوگ بیماری کی جڑ کو پکڑتے ہیں اور اسی کی بنیاد پر اپنے علاج کی عمارت تعمیر کرتے ہیں۔ بلاشبہ آج کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں ماضی کا طریقہ علاج ناقابل استعمال ہے لیکن ان حکما کا طریقہ تشخیص بہت کارآمد رہا ہے، آج کی دنیا کے سارے مسائل لڑائی جھگڑوں اور جنگوں سے شروع ہوتے ہیں اور انھی پر ختم ہوتے ہیں۔ ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت پر پابندی لگانے سے جنگوں کی بات ختم ہو جائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔