کراچی سے عدم دلچسپی کیوں؟

محمد سعید آرائیں  پير 2 ستمبر 2019

کراچی ملک کا سب سے بڑا ہی نہیں بلکہ آبادی کے لحاظ سے سب سے متنازعہ شہر بھی ہے جس کی حقیقی آبادی کو سرکاری طور پر چھپائے جانے کی وجہ سے مختلف سیاسی حلقے کراچی کی آبادی کو مختلف قرار دیتے ہیں۔ تمام سیاسی دعوؤں میں یہ تو تسلیم کیا جاتا ہے کہ کراچی کی آبادی دو کروڑ سے بڑھ کر تین کروڑ تک پہنچ چکی ہے مگر حکومت کے محکمہ شماریات نے کبھی کراچی کی درست آبادی ظاہر نہیں کی اور اس کے نزدیک کراچی کی آبادی ایک کروڑ سے تو زیادہ ہوچکی ہے مگر کراچی میں جو قومیں آباد ہیں اگر درست سمجھا جائے تو وہ تین کروڑ سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ کراچی کی حقیقی مردم شماری کے لیے حکومت سے بھی مطالبات ہوتے آ رہے ہیں اور عدالتوں سے بھی رجوع کیا گیا مگر کوئی نتیجہ نہیں نکل رہا۔

قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے کراچی کو ملک کا دارالحکومت قرار دیا تھا مگر بعد میں ایوب حکومت میں اسلام آباد کے نام سے نیا شہر بسایا گیا اور ملک کا دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کردیا گیا جو ہے تو پنجاب میں مگر وہ پنجاب کا حصہ نہیں ہے۔ وفاقی دارالحکومت وفاق کے ماتحت ہے اورکراچی سندھ صوبے کی بحالی کے بعد سے صوبائی دارالحکومت چلا آرہا ہے جب کہ مغربی پاکستان جب صوبہ تھا تو اس کا دارالحکومت لاہور تھا مگر کراچی کی جغرافیائی طور پر جو حیثیت ہے وہ اور کسی شہر کو حاصل نہیں ہے ۔

کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہی نہیں بلکہ شہر قائد کہلانے والا کراچی منی پاکستان بھی ہے جہاں ملک کے چاروں صوبوں ہی کے نہیں بلکہ آزاد کشمیر، قبائلی علاقوں، سابق فاٹا اور گلگت بلتستان ہی نہیں بلکہ برمی، بنگالی اور دیگر ملکوں کے لوگ بھی شروع سے ہی آباد چلے آرہے ہیں مگر بہت سے ملکی اور غیر ملکی کراچی ہی نہیں پاکستان بھی چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ مرحوم پیر صاحب پگاڑو کی رہائش زیادہ ترکراچی میں تھی اور وہ پیر جوگوٹھ خاص موقعوں پر اندرون سندھ دورے پر ہی جایا کرتے تھے اور اکثر مطالبہ کیا کرتے تھے کہ کراچی کو اسلام آباد کی طرح وفاق کا حصہ بنایا جائے جو سندھ کا دارالحکومت ہے۔

پیر پگاڑو مرحوم کی تجویز کی ایم کیو ایم سمیت کسی بھی سیاسی پارٹی نے کبھی تائید نہیں کی البتہ ایم کیو ایم کی طرف سے کبھی کبھی یہ مطالبہ ضرور آتا ہے کہ کراچی کو سندھ کی شہری آبادی پر مشتمل الگ صوبہ بنایا جائے مگر اس مطالبے کی کوئی تائید نہیں کرتا۔ ایسے مطالبے کو سندھ کی تقسیم اور تعصب کا رنگ دے دیا جاتا ہے مگر یہ نہیں سوچا جاتا کہ کراچی سمیت ملک میں جنوبی پنجاب، ہزارہ و دیگر صوبے بنانے کی باتیں کیوں کی جاتی ہیں۔

پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی بات کرتی ہے اور کوشش بھی کرچکی ہے مگر وہ سندھ کی تقسیم کی شدید مخالف مگر پنجاب کی تقسیم چاہتی ہے۔ پی ٹی آئی نے بھی جنوبی پنجاب صوبے کی حمایت کرکے جنوبی پنجاب سے اکثریت حاصل کی تھی مگر اقتدار میں آکر جنوبی پنجاب کو صوبے کی بجائے جنوبی پنجاب نام کے سیکریٹریٹ پر ٹرخانا چاہتی ہے جب کہ وزیر اعظم عمران خان چاہیں تو گلگت بلتستان کی طرح صرف ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے جنوبی پنجاب کو صوبائی حیثیت دے سکتے ہیں اور چاہیں تو کراچی کو بھی سندھ حکومت کے چنگل سے نکال کر وفاق کے زیر انتظام لاکر مرحوم پیر صاحب پگاڑا کی خواہش پوری کرسکتے ہیں مگر ایسا ہوگا نہیں کیونکہ سینئر تجزیہ کاروں کے مطابق کراچی کبھی وفاقی اور سندھ حکومت کی ترجیح نہیں رہا۔

کراچی کی آمدنی سے پورا ملک چل رہا ہے اور مختلف حلقوں کے مطابق کراچی سے وفاق تقریباً 65 فیصد آمدنی حاصل کر رہا ہے اور سندھ حکومت کی آمدنی کا بڑا حصہ بھی سندھ حکومت کراچی سے حاصل کر رہی ہے اور کرپشن کے سب سے زیادہ ذرائع بھی کراچی میں ہیں جن سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہی نہیں بلکہ مختلف ادارے بھی مستفیض ہو رہے ہیں۔

ملک کے موجودہ صدر ڈاکٹر عارف علوی کا تعلق کراچی سے ہے۔ سابق صدور جنرل پرویز مشرف، آصف علی زرداری اور ممنون حسین کا تعلق بھی کراچی سے تھا جن میں پرویز مشرف اور آصف زرداری تو بااختیار صدور تھے مگر افسوس کہ جنرل پرویز مشرف کے سوا کسی نے بھی کراچی کے لیے کچھ نہیں کیا اور جنرل پرویز مشرف کی کراچی کی سٹی حکومت کو اس وقت ضرورت کے مطابق فنڈز دیے گئے جو کرپشن کے باوجود استعمال ہوئے تھے۔ شہر میں ریکارڈ ترقی ہوئی تھی اور کراچی کو دنیا کے 13 میگا ممالک میں شامل کیا گیا تھا اور کراچی صاف ستھرا شہر تھا۔

پیپلز پارٹی کو ہمیشہ شکایت رہی کہ کراچی نے کبھی پیپلز پارٹی کو ووٹ نہیں دیے تھے مگر کیوں نہیں دیے یہ سوچنے کی کبھی کسی نے زحمت نہیں کی۔ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی جائے پیدائش ہی کراچی ہے۔ 2008 میں پی پی برسر اقتدار آئی تھیں تو پی پی رہنماؤں کو یہ یاد آگیا تھا کہ بے نظیر بھٹو سولجر بازار لال بلڈنگ کے قریب واقع اسپتال میں پیدا ہوئی تھیں تو وہاں آکر انھوں نے یادگاری بورڈ لگوا دیا تھا۔

بے نظیر بھٹو ہی نہیں بلکہ ان کے تمام بچے خصوصاً موجودہ چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری کا تعلق کراچی سے ہے مگر بے نظیر کے تینوں بچے بھی اپنی ماں کی طرح اپنی جائے پیدائش کو بھولے ہوئے ہیں اور آج بھی سندھ میں پیپلز پارٹی کی چھٹی حکومت ہے ۔ موجودہ سندھ حکومت کے گیارہ سالوں میں آج کراچی جس بدترین صورتحال میں ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ پیپلز پارٹی کے نزدیک کراچی اس کا شہر اور ووٹ بینک نہیں اس لیے اس نے صرف کراچی کو اپنی کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے کبھی کراچی کو اون نہیں کیا۔

کراچی سے پیدا ہونے والی شہری علاقوں کی دعویدار ایم کیو ایم بھی کراچی کی بدتر صورتحال میں برابر کی شریک ہے ، جن کے متعدد بار حکومتوں میں شامل رہنے کے ادوار میں کراچی کم بنا مگر اس کے عہدیدار مالی طور پر کہاں سے کہاں پہنچے جس کا اعتراف ان کے قائد نے بھی کیا تھا۔

سندھ حکومت اگرکراچی کو ’’ اون ‘‘ نہیں کرتی اور وفاقی حکومت کی ترجیح بھی کراچی نہیں تو پھر ایم کیو ایم کا کراچی صوبے کا مطالبہ ماننے یا پیر پگاڑا مرحوم کی خواہش بھی تسلیم نہ ہو تو کون سا راستہ بچتا ہے اور کراچی کہاں جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔