’’یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود‘‘

شکیل فاروقی  منگل 3 ستمبر 2019
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

اگست کا مہینہ بڑا مبارک ہے کہ اس کی 14تاریخ کو قائد اعظم محمد علی جناح کی بے مثل ولولہ انگیز قیادت میں علامہ اقبال کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا اور برصغیر کے مسلمانوں کی بے شمار و بے دریغ قربانیوں اور اللہ تعالیٰ کے بے پایاں خصوصی فضل وکرم کے نتیجے میں پاکستان کی صورت میں وہ عظیم اور انوکھا ملک معرض وجود میں آیا ،جہاں وہ قطعی آزادانہ طور پر اپنی زندگی اپنی مرضی کے بغیر گزار سکیں۔ بے شک آزادی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ بقول شاعر:

ملے خشک روٹی جو آزاد رہ کر

تو وہ خوف و ذلت کے حلوے سے بہتر

بھارت کے 65 کروڑ اور مقبوضہ کشمیر کے 94 فیصد اکثریت کے حامل مسلمان آج جن سنگین حالات سے نبرد آزما اور پنجہ کشہیں ان سے دو قومی نظریے کی اہمیت وصداقت پر مہر ثبوت ثبت ہوگئی ہے۔ بھارت کی انتہا پسند مودی سرکارکے 5 اگست کے غیرآئینی اور غیر انسانی اقدام نے نہ صرف سیکولر ازم کے غبارے کی ساری ہوا نکال دی ہے بلکہ اس حقیقت کو بھی پایہ ثبوت تک پہنچادیا ہے کہ اگر خدانخواستہ پاکستان معرض وجود میں نہ آیا ہوتا تو بھارتی اورکشمیری مسلمانوں کی طرح باقی مسلمانوں کی مٹی بھی اسی طرح پلید ہوتی اور ان پر بھی عرصہ حیات تنگ ہوچکا ہوتا اور وہ بھی آج تعصب کی چکی میں بری طرح پھس پس کر بزبان بھگت کبیر رو رو کر یہی دہائی دے رہے ہوتے:

چلتی چاکی دیکھ کے دِیا کبیرہ روئے

دو پاٹن کے بیچ میں ثابت بچا نہ کوئے

’’وَرن آشرم دھرم‘‘ کے نام سے موسوم ہندو معاشرہ ذات پات کی بنیاد پر برہمن، دلتیہ، (ک) شتری کھتری اور شودر نامی چار بڑی ذاتوں یا طبقوں میں منقسم ہے جن کے درمیان قطبین کا فاصلہ حائل ہے۔ ان کے درمیان چھوت چھات کا عالم یہ ہے کہ آپس میں شادی بیاہ توکجا یہ ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کرکھانا بھی نہیں کھا سکتے۔ ان کے رسم و رواج اور عقائد بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں، حتیٰ کہ دیوی دیوتا بھی جدا جدا ہیں۔ ان کے پسماندہ طبقات کو ان کی معاشی زبوں حالی کی وجہ سے ’’ دلیت ‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے جس کے لغوی معنی ہیں ’’پسماندہ‘‘۔ غور طلب بات یہ ہے کہ جب ’’ہندو توا ‘‘ کے پیروکاروں کے مابین بھید بھاؤکی اتنی گہری اور بڑی خلیج حائل ہے تو پھر بھلا انھیں دوسرے مذاہب بالخصوص مسلمانوں کا وجود کیونکر گوارا ہوسکتا ہے جن کے نہ صرف عقائد و نظریات بلکہ رسم و رواج اور اقدار بھی بالکل مختلف ہیں۔ بس یہی بات دو قومی نظریے کی اساس ہے جس کی بنیاد پر وطن عزیز پاکستان معرض وجود میں آیا ہے جس کا بھارت ازلی دشمن ہے۔

بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی نے جس کی بدولت نریندر مودی بھارت کے پردھان منتری کے منصب تک پہنچے ہیں، ہندوؤں کی انتہا پسند دہشت گرد تنظیم ’’ راشٹریہ سوئم سنگھ ‘‘ کی ناپاک کوکھ سے جنم لیا ہے جو عرف عام میں آر ایس ایس کے نام سے مشہور ہے۔ اس مسلم دشمن تنظیم کی بنیاد مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہندو بھیڑیے ڈاکٹر کے۔ بی ہیگواڑ نے 27 ستمبر 1925 کو بھارت کے صوبے سی پی کے مرکز شیوناگ پور میں رکھی تھی جو منتروں کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ بقول شاعر

ناگیوں کے منتروں نے دانت کھٹے کردیے

آر ایس ایس کا قیام اطالوی ڈکٹیٹر مسولینی کے فسطائی نظریے سے متاثر ہوکر عمل میں آیا جب کہ جرمنی کا ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر اس کا ہیرو قرار پایا۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف متحد اور مشتعل کرنا اور انھیں باقاعدہ عسکری تربیت دینا ہے تاکہ وہ اپنے حریف کا بزور اسلحہ صفایا کرسکیں۔

آر ایس ایس کے کارکنان کی فوجی تربیت کے لیے سفید قمیص اور خاکی ہاف پینٹ پر مشتمل ایک مخصوص وردی بھی وضع کی گئی۔ ہم نے آر ایس ایس کے عسکریت پسندوں کو روزانہ صبح کے وقت پارکوں اور کھلے میدانوں میں باقاعدگی کے ساتھ عسکری تربیت حاصل کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ 1947 کے مسلم کش فسادات میں سکھ بلوائیوں کے ساتھ مل کر برصغیر کے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے اور ہماری مقدس و محترم ماؤں بہنوں اور بہو بیٹیوں کی عصمتیں لوٹنے میں بھی یہی درندہ صفت تنظیم ملوث بلکہ پیش تھی۔ بھارت میں ہونے والے تمام مسلم کش فسادات کے پس پشت آر ایس ایس ہی کا ہاتھ ہوتا ہے اور مقبوضہ کشمیر میں آج جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کی بھی  سب سے زیادہ ذمے دار یہی شدت پسند عسکری تنظیم ہے جس کی بھارتی حکمران جماعت محض آلہ کار ہے۔

ڈاکٹر ہیگواڑ کے واصل جہنم ہونے کے بعد آر ایس ایس کی کمان ’’کریلا اوپر سے نیم چڑھا‘‘ والی کہاوت کے مصداق مسلمانوں کے خون کے پیاسے عفریت گروگول والکر نے سنبھالی۔ اس کے علاوہ ساورکر، مونچے اور بال گنگادھر تلک جیسے دیگر مسلم کش شدت پسند ہندو بھی آر ایس ایس کو پروان چڑھانے والوں کی فہرست میں نمایاں طور پر شامل ہیں۔ اس فہرست کے علاوہ ایک اور نام ڈاکٹر شیاما پرشاد مکرجی کا بھی ہے جو آر ایس ایس کی آبیاری کرنے والوں میں کافی سرگرم اور پیش پیش رہے۔

اس کے بعد والوں میں ایل کے ایڈوانی ، بال ٹھاکرے اور آنجہانی پردھان منتری اٹل بہاری کے نام شامل ہیں۔ سچ پوچھیے تو آر ایس ایس کسی سیاسی جماعت کا محض نام نہیں بلکہ مسلم کش سوچ اور فکرکا نام ہے جس کا مقصد محض برصغیر ہی نہیں بلکہ صفحہ ہستی سے ہی مسلمانوں اور اسلام کے نام کو مٹا دینا ہے۔ لہٰذا ہندوستان اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی نسل کشی کی مہم میں پیش پیش بی جے پی کے سرغنہ پردھان منتری نریندر مودی کی مہمان نواز اور عزت افزائی کرنے والے مسلم ریاستوں کے حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور غیرت ملی کے تقاضوں کا لحاظ کرنا چاہیے اور یہ ہرگز نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمیں اپنے اپنے اعمال کا جواب دینا ہگا۔

آر ایس ایس اور بی جے پی ہی نہیں بلکہ سیکولر ازم کی دعویدار اقتدار سے محروم بھارت کی دوسری سب سے بڑی سیاسی جماعت انڈین نیشنل کانگریس نے بھی ولبھ بھائی پٹیل اور گووند ولبھ پنت جیسے انتہا پسند ہندو لیڈر شامل رہے ہیں جنھیں اگر آر ایس ایس کا ایجنٹ اورگماشتہ کہا جائے تو شاید کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ یہ وہی ولبھ بھائی پٹیل ہیں کہ جن کی وزارت داخلہ کے دور میں جوناگڑھ، مانگروول اور حیدرآباد (دکن) جیسی مسلم ریاستوں پر ہندوستان نے فوج کشی کرکے غاصبانہ قبضہ کیا تھا اور جس روش پر چلتے ہوئے بی جے پی کی حکومت نے بھارت کے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو منسوخ کرکے ابھی حال ہی میں گزشتہ 5اگست کو اپنا تسلط مقبوضہ کشمیر پر مستحکم کیا ہے۔

آر ایس ایس کے سرگرم ترین اور بنیادی رکن ہونے کی حیثیت سے مودی کی اسلام اور مسلمان دشمنی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ 2002 میں جب موصوف بھارتی ریاست گجرات کے چیت منسٹر تھے تو ایودھیا کی تاریخی بابری مسجد کی شہادت کا عظیم سانحہ پیش آیا اور جب اس المناک واقعے کے بعد زائرین کی ایک ٹرین ایودھیا جا رہی تھی تو ایک گھناؤنی سازش کے تحت آر ایس ایس کے غنڈوں نے اسے نذرآتش کردیا۔ اس سانحے میں 57 زائرین جل کر خاکستر ہوگئے جس میں اتفاق سے کچھ ہندو بھی شامل تھے جو اسی ٹرین سے سفر کر رہے تھے۔

اس بات کو بہانہ بناکر مودی کی زیر نگرانی گجرات میں جنونی ہندوؤں نے مسلمانوں کی قتل و غارت گری کی انتہا کردی اور سیکڑوں مسلم خواتین کی عصمتیں لوٹ لیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف گجرات شہر کی سڑکوں پر 200 سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کیا گیا جب کہ ایک لاکھ سے زائد مسلمان بے گھر کردیے گئے۔

یاد رہے کہ گجرات اسمبلی کے ایک رکن احسان جعفری جنھوں نے مودی کے خلاف الیکشن لڑنے کی جسارت کی تھی انھوں نے گجرات کے مسلمانوں کو قتل عام سے بچانے کے لیے اپنے گھر میں پناہ دی۔ آر ایس ایس اور بی جے پی کے بلوائیوں نے ان کے گھر کا محاصرہ کرلیا لیکن درندہ صفت سفاک بلوائیوں نے پہلے تو احسان جعفری کے ہاتھوں اور ٹانگوں کو سرعام کاٹ کر پھینکا اور پھر ان کے اعضا بریدہ جسم کو سڑک پر گھسیٹا جس کے بعد ان کی شہادت ہوگئی۔

ستم بالا ستم یہ کہ جب اس سانحے پر چیف منسٹر مودی سے ان کا ردعمل طلب کیا گیا تو انھوں نے اظہار افسوس کرنے کے بجائے انتہائی ڈھٹائی سے یہ کہا کہ جب ایکشن ہوگا تو اس کا ردعمل بھی ہوگا۔ گویا الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ مسلمانوں کا یہی قاتل آج بھارت کا وزیر اعظم ہے۔ وہ اپنے اس منصب سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور ان کی کھلے عام نسل کشی کر رہا ہے اور اس سے صرف نظر کرتے ہوئے مسلم ممالک کے سربراہان اس سے باز پرس کرنے اور اس کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے اسے اعزازات سے نواز رہے ہیں۔ علامہ اقبال نے ٹھیک ہی کہا تھا:

یہ ہیں مسلماں‘ جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔