غلطیاں کیجیے مگر سیکھیے بھی تو

راضیہ سید  بدھ 4 ستمبر 2019
غلطیاں سب سے ہوتی ہیں، لیکن اپنی غلطیوں سے سیکھیے بھی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

غلطیاں سب سے ہوتی ہیں، لیکن اپنی غلطیوں سے سیکھیے بھی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

زندگی میں غلطی کی گنجائش رکھنا بالکل اسی طرح اہم ہے جس طرح پیسہ کمانے کےلیے نوکری کی تلاش، کامیابی کے لیے محنت اور رشتوں کو بہتر بنانے کےلیے محبت اور ایثار۔

ہم میں سے ہر کوئی غلطی کرتا ہے لیکن وہ شخص اور بھی زیادہ غلطی کرتا ہے جو زندگی میں غلطیوں کی گنجائش نہیں رکھتا۔ جو کبھی اس حقیقت کو قبول نہیں کرتا کہ وہ نامکمل ہے یا اس کے اندر بھی خامیاں ہوسکتی ہیں۔ جو لوگ ہر معاملے میں کاملیت پسندی کا ہدف حاصل کرنا چاہتے ہیں، وہ نہ صرف خود اذیتی میں مبتلا ہوتے ہیں بلکہ کسی بھی غلطی کے رونما ہوجانے پر دوسروں کو بھی اپنی وجہ سے خفت میں مبتلا کردیتے ہیں۔

کیونکہ نہ صرف وہ دوسروں سے بلکہ خود سے بھی بہت زیادہ توقعات یا امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں۔ یہی سوچتے رہتے ہیں کہ مجھ سے ایسا ہوا کیوں؟ اور میرا فلاں دوست ایسا کیسے کرسکتا ہے۔ جبکہ حقائق اس کے برعکس ہوتے ہیں، جیسے آپ نامکمل ہیں اس طرح آپ کے رشتوں میں بھی تو خامیاں ہوسکتی ہیں۔

روزمرہ زندگی میں ہمیں ضرور اپنی کامیابی کےلیے ہدف مقرر کرنے چاہئیں، لیکن وہ حرف آخر نہیں ہونے چاہئیں کہ بس یہ نہ ہوا تو ہم مر ہی جائیں گے یا زندگی ہم پر بوجھ بن جائے گی۔ ایسا ہرگز نہیں۔ تاہم غلطی ہونے کا ڈر ہمیشہ ہمارے ذہن میں ہونا چاہیے، ورنہ ہم ہر چیز کو بہت ہی غیر اہم گردانتے ہوئے اپنی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھ سکتے اور بار بار اسی کو دہرا کر اپنا ہی نقصان کرلیں گے۔

سب سے پہلے یہ سمجھیے کہ غلطی کی نوعیت کیا ہے؟ اور کیا یہ واقعہ قدرتی ہے یا کسی نے جان بوجھ کر کیا ہے؟ ہم سڑکوں پر لڑتے جھگڑتے ہیں۔ جب دو گاڑیوں کا حادثہ ہوتا ہے تو ہم آپے سے باہر ہوکر ہاتھاپائی تک آجاتے ہیں کہ مقابل نے جان بوجھ کر ہماری گاڑی کا نقصان کیا ہے۔ جبکہ اصل میں ایسا نہیں ہوتا۔ آپ اس وقت بھی بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کیا یہ سامنے والے نے جان بوجھ کر کیا ہے یا یہ سچ کہہ رہا ہے؟ لیکن ہم اس غلطی کو کبھی معاف نہیں کرتے اور سڑک پر تماشا بنانے میں ایک پل نہیں لگاتے۔

لیکن دوسری طرف ایک شخص نے کسی پر گولی چلا کر اس کا قتل کردیا تو اس کو ہم لائٹ نہیں لے سکتے، کیونکہ یہ ایک ایسی غلطی ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ جانی نقصان ہے اور اس قاتل نے وہ جان بوجھ کر کیا ہے۔ اتفاقیہ گولی نہیں لگی بلکہ اس میں اس کی بری نیت کا دخل ہے۔ یہ غلطی بالکل سدھاری نہیں جاسکتی اور اس کی سزا بھی ملنی چاہیے، ورنہ پورا معاشرہ بدعنوانی کی طرف راغب ہوگا۔

اب اس پر آجاتے ہیں کہ غلطیوں کا تدارک کیسے کیا جاسکتا ہے؟ سب سے پہلے تو یہ ذہن میں رکھیے کہ غلطی ہر انسان سے ہوگی کیونکہ مکمل ذات صرف اللہ تعالی کی ہے۔ دوسری بات کسی بھی غلطی کو لے کر بیٹھ نہیں جانا اور اس پر روتے نہیں رہنا، کیونکہ ماضی میں جینا آپ کو ذہنی مریض بنادے گا۔ آپ کو دنیا کے ساتھ چلنا ہے تو اپنی غلطیوں سے سیکھیں اور اس طرح کی غلطی دوبارہ نہ کریں جو آپ پہلے کرچکے ہیں۔ اگر آپ نے ایک ہی نوعیت کی غلطی سے کچھ نہیں سیکھا تو پھر آپ مہا بے وقوف ہی ہیں۔

چلیے آج کے دور کی مثال لیتے ہیں۔ فیس بک اور دیگر سوشل میڈیاز، جہاں پر کی گئی معمولی سی غلطی، چند دن کی دوستی آپ کی نیک نامی کو داؤ پر لگاسکتی ہے۔ رشتے بنانے کے چکر میں آپ موجودہ حقیقی رشتوں سے بھی دور ہوتے ہیں۔ عشق، محبت کے چکر میں اپنی زندگی کے اصل مقصد پر بھی آپ کی توجہ مرکوز نہیں رہتی اور ظاہر ہے کہ دن رات بریک اپ ہوتے ہیں۔

اس غلطی سے یہ سیکھنا چاہیے کہ سوشل میڈیا کی دنیا زیادہ تر جھوٹ ہے۔ خبریں ہیں تو وہ سسنسنی خیز۔ عشق ہے تو وہ طوفانی۔ محبت کا تو خیر کوئی وجود ہی نہیں۔ چند ایک اچھے لوگوں کے سوا اچھا کیا ہے؟ تو اب آئندہ اس پلیٹ فارم کو اچھے طریقے سے استعمال کرنا یقیناً آپ کو کامیابی کی طرف لے جائے گا، جبکہ انہی غلطیوں پر ہٹ دھرمی سے ڈٹے رہنا پھر سوائے ذلت او رسوائی کے کچھ نہیں دے گا۔

جو شخص زندگی کے اس سفر میں جتنی غلطیاں کرے گا وہ اتنا ہی سمجھ دار ہوگا۔ اب ایسے ہی تو نہیں کہتے کہ ہم نے اپنے بال دھوپ میں سفید نہیں کیے۔ یعنی غلطیاں کرکے ہمیں اتنا تجربہ حاصل ہوا ہے۔ کئی فیصلے ایسے ہیں جن پر غور و فکر کرنا ہوگا۔ جیسے شادی یا کیریئر کا فیصلہ، کیونکہ یہ کوئی لباس خریدنے کا معاملہ نہیں، بلکہ اس کا تعلق آپ کی تمام عمر اور زندگی سے ہے۔ خاص طور پر جب آپ کسی بھی رشتے کے ساتھ مخلص ہیں۔ اسی طرح کیریئر کا انتخاب بھی بہت اہم ہے۔ بعض مرتبہ انسان کو لو پروفائل میں کام کرنا ہوتا ہے پیسے کےلیے۔ اس لیے اپنے شوق کے ساتھ اپنی معاشی ضروریات کو بھی اہمیت دیں۔

ہمیشہ مثبت سوچیے کہ اگر کوئی بھی غلطی ہوگئی ہے تو وہ اتنی بڑی نہیں کہ وہ آپ کی زندگی کو ہی خدانخواستہ ختم کردے۔ اپنی خطاؤں سے سیکھیے۔ سمجھدار بنیے لیکن خدارا انھیں روگ مت بنائیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

راضیہ سید

راضیہ سید

بلاگر نے جامعہ پنجاب کے شعبہ سیاسیات سے ایم اے کیا ہوا ہے اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور پروڈیوسر، رپورٹر اور محقق وابستہ ہیں۔ بلاگز کے علاوہ افسانے بھی لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔