اب پتہ نہیں کیا کھچڑی پک رہی ہے؟

نصرت جاوید  جمعرات 30 اگست 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

منیر نیازی کو شہر کے لوگ ظالم دِکھاکرتے تھے مگر وہ اپنے مرجانے کا شوق رکھنے کی وجہ سے ان کے قاہرانہ منصوبوں کا شکار بھی ہو جایا کرتے۔ میں ہرگز اس قابل نہیں ہوں کہ طے کر سکوں کہ آصف علی زرداری منیر نیازی کی طرح خود اذیتی کے جنون میں مبتلا ہیں یا نہیں۔ میں نے تو ہمیشہ انھیں بدترین حالات میں بھی مسکراتے اور زندگی سے پیار کرتے ہوئے دیکھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد سے البتہّ وہ بجھ سے گئے ہیں۔ اپنے بہت پرانے اور قریبی دوستوں کے ساتھ بھی بہت دیر بیٹھے رہنے کے بعد اپنی جوانی کے دنوں کی طرح کی فقرے بازی یا کھلنڈراپن کرتے ہیں۔ ہر طرح کے حالات میں خود سری کے ساتھ زندہ رہنے کی کوشش میں ہی موصوف اپنے خلاف دائر کیے ہر مقدمے کا بھرپور طریقے سے دفاع کرتے رہے۔ ورنہ سیاستدانوں کا عام چلن اپنے خلاف دائر مقدمات کو جھوٹا قرار دے کر عدالتی بائیکاٹ ہوا کرتا ہے۔

1996 میں سردار فاروق لغاری نے محترمہ کی دوسری حکومت برطرف کرنے کے بعد آصف زرداری کو لاہور کے گورنر ہائوس سے گرفتار کیا اور اپنے احتساب سیل کو ان کے خلاف کرپشن کے معاملات ڈھونڈ کر مقدمات قائم کرنے پر لگا دیا۔ وہ آصف علی زرداری کے خلاف بنائے مقدمات کی بذاتِ خود تن دہی کے ساتھ پیروی کرتے، مگر امریکنوں نے ان کی بنائی عبوری حکومت کو انتخابات ملتوی کرنے کی اجازت نہ دی۔ انتخابات ہوئے تو نواز شریف دو تہائی اکثریت کے ساتھ وزیر اعظم کے دفتر میں واپس آ گئے۔ اپنے عہدے پر واپس آ جانے کے بعد نواز شریف نے پہلی فرصت میں سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ اور صدر لغاری کی فراغت کا بندوبست کیا۔ ان دونوں سے فراغت پانے کے بعد انھوں نے احتساب سیل کو سیف الرحمن کی من مانیوں کے سپرد کر دیا۔

سیف الرحمن ایک دیوانے آدمی تھے۔ مجھے خدا نے ناول لکھنے کی توفیق دی ہوتی تو میں ایک پورا ناول صرف ان کی ذات کے بارے میں لکھ کر ادبی دنیا میں کوئی مقام بنا سکتا تھا۔ میری بے ہنری سے قطع نظر سیف الرحمن آصف علی زرداری کو عبرت کی مثال بنانے پر تُل گئے۔ ان کے خلاف پے درپے مقدمات قائم کر کے ہائی کورٹ کے ملک قیوم جیسے ججوں کو اپنی پسند کے فیصلے دینے کے لیے ٹیلی فونوں پر حکم چلاتے رہے۔ وہ ٹیلی فون ٹیپ ہوئے اور کسی طرح محترمہ بینظیر بھٹو کے ہاتھ بھی لگ گئے۔ اس پر ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ مگر اسی دوران نواز شریف اور سیف الرحمن بھی فارغ ہوگئے۔ جنرل مشرف آئے تو سیف الرحمن کے بنائے مقدمے وہیں رہے۔ ان مقدمات کی پیروی زیادہ تر راولپنڈی میں قائم احتساب کی نچلی سطح کی عدالت میں ہوا کرتی تھی۔ بیرسٹر اعتزاز احسن کی سطح کے وکلاء ان عدالتوں میں پیش ہونا اپنی توہین سمجھتے تھے۔

یہی وہ موقع تھا جب اس وقت تک کے تقریباََ گمنام وکیل بابر اعوان کی لاٹری نکل آئی۔ وہ آصف علی زرداری کے وکیل بن گئے اور پھر پلٹ کر نہ دیکھا۔ خدا نے بڑا عروج دیا۔ اپنے عروج کی انتہائوں پر صدر زرداری کی سفارشوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ پھر ہر کمال کی طرح ان کا بھی زوال شروع ہوا۔ آج کل کسی کو کھانا کھلائیں تو دوسرے روز اپنے ٹویٹر کے ذریعے اعلان کرتے ہیں کہ گزشتہ رات کا کھانا انھوں نے کس کے ہمراہ کھایا تھا۔

بابر اعوان کی طرح دو اور وکلاء کا نام بھی کسی نہ کسی طرح آصف علی زرداری کے مقدمات کے حوالے سے بہت مشہور ہوا۔ ایک سردار لطیف کھوسہ اور دوسرے فاروق نائیک۔ نائیک صاحب کی شہرت اس معاملہ میں ذرا زیادہ اس لیے بھی ہو گئی ہے کہ انھیں اس این آر او کا خالق تصور کیا جاتا ہے جس نے آصف علی زرداری کو بالآخر صدر تو بنوا دیا مگر ان کی حکومت کو کبھی مستحکم نہ کرپایا۔ ایک وزیر اعظم اس کے زہریلے اثرات کی نذر ہو کر گھر جا چکا، اب دوسرے کی باری ہے۔ فاروق نائیک کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ یوسف رضا گیلانی کے وقت وہ سینیٹ کے چیئرمین ہوا کرتے تھے۔ آج کل وزیر قانون ہیں۔

انھیں اور ان کے چاہنے والوں کو گمان ہے کہ نائیک صاحب کی ذہانت اور معاملہ فہمی کے سبب شاید راجہ پرویز اشرف کا وہ حشر نہ ہو جو یوسف رضا گیلانی کا ہوا تھا۔ برسرِ تذکرہ یہ بھی یاد کر لیتے ہیں کہ نائیک صاحب کے چاہنے والوں کا یہ خیال بھی ہے کہ بابر اعوان کے ’’غلط مشوروں‘‘ کی وجہ سے گیلانی صاحب عدالت کے بالمقابل اشتعال انگیز انداز میں کھڑے ہوگئے۔ رہی سہی کسر اعتزاز احسن نے پوری کر دی۔ مجھے یوسف رضا گیلانی کے مقدمے کے دوران والے وہ دن ابھی تک یاد ہیں جب بہت سارے نوجوان مگر بڑے گھروں سے تعلق رکھنے والے غیر ملکی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل وکلاء رات کی محفلوں میں میرے جیسے نیم جاہل صحافیوں کی موجودگی میں اعتزاز احسن کی ’’عجیب باتوں‘‘ کا مذاق اُڑایا کرتے تھے۔

کافی مذاق اُڑانے کے بعد ان میں سے کچھ کے دل میں چوہدری صاحب کے لیے رحم کے جذبات امڈ آئے۔ ان میں سے کوئی شخص یہ کہہ کر انھیں معاف کر دیتا کہ ’’اعتزاز صاحب یا تو بوڑھے ہو گئے ہیں یاانھیں کوئی عارضہ لگ گیا ہے جو وہ لوگوں سے چھپا رہے ہیں۔‘‘ اعتزاز کے پائے کے وکیل کے ساتھ شہر کے ظالم لوگوں کا یہ رویہ بھی اپنی جگہ ایک ناول لکھے جانے کا حقدار ہے۔

بہر حال آصف علی زرداری اور راجہ پرویز اشرف کو مبارک ہو کہ اب انھیں ایک عقلِ کُل اور معاملہ فہم فاروق نائیک کی صلاحیتیں میسر ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اپنے دھیمے اور عاجزانہ مزاج سے انھوں نے سپریم کورٹ کے ان ججوں میں رحم کے کچھ جذبات پیدا کر دئیے ہیں جو آج کل راجہ پرویز اشرف سے بھی ’’وہی خط‘‘ لکھنے کا تقاضہ کر رہے ہیں۔ ’’درمیانی راستہ‘‘ دریافت ہو جانے کی باتیں ایسے ہی نہیں ہو رہیں۔ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ کاش کہ میں کسی طرح فاروق نائیک صاحب کے ساتھ بیٹھ کر ان کے دل کی بات کسی حد تک جان سکتا۔ مگر اس کے امکانات کم ہیں۔ نائیک ایک ’’صاحب‘‘ آدمی ہیں، لیے دیے رہتے ہیں۔ صرف چند اور وہ بھی بڑے ہی مشہور اخباروں میں لکھنے والے چیدہ چیدہ صحافیوں سے ملا کرتے ہیں۔

میں صحافتی دنیا میں اتنے برس سے جھک مارنے کے باوجود ابھی اس مقام تک نہیں پہنچ پایا۔ یہ تو بس قسمت کی بات تھی کہ مجھے پتہ چل گیا تھا کہ گزشتہ برس نومبر میں جب شدید بیمار ہو کر آصف علی زرداری دوبئی کے ایک اسپتال میں داخل کر دئیے گئے تھے تو فاروق نائیک صاحب سے پہلے ہی روز ان کے دفتر میں کس نے ملاقات کی تھی، جب وہ ایوانِ صدر میں قائم مقام سربراہِ مملکت کے طور پر بیٹھنا شروع ہوئے تھے۔ اس دن کی کہانی میں نے اسی کالم میں فوراََ ہی لکھ دی تھی۔ اسے پڑھ کر زرداری صاحب کو غصہ آ گیا تھا۔ انھوں نے مجھے دبئی سے فون کر کے جھگڑا کیا اور اپنے ’’فاترالعقل‘‘ قرار دے کر صدارت سے فارغ ہو جانے کے امکان کی صورت میں ’’ایسے دستور کو ۔۔۔ میں نہیں مانتا‘‘ والی بات بھی کی تھی۔ اب پتہ نہیں کیا کھچڑی پک رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔