نواز من موہن مذاکرات لازمی ہوں گے

نصرت جاوید  جمعـء 27 ستمبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

جموں میں جو واقعہ ہوا میں اس کے بارے میں ہرگز حیران نہیں ہوا۔ دونوں ملکوں میں ایسے بہت سارے گروہ موجود اور متحرک ہیں جو اپنے اپنے ٹھوس مفادات کی وجہ سے اس خطے میں امن نہیں چاہتے۔ ان کی بڑی خواہش ہے کہ بھارت کے وزیر اعظم کی نیویارک میں اپنے پاکستانی ہم منصب سے ملاقات نہ ہو۔ اس ملاقات کو روکنے کے لیے جموں جیسے مزید واقعات بھی رونما ہوسکتے ہیں۔ مگر نواز شریف کی من موہن سنگھ سے ملاقات روکی نہ جاسکے گی۔

یہ ملاقات صرف اس لیے نہیں ہوگی کہ بھارتی وزیر اعظم اس پر بضد ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ نہ صرف بھارت بلکہ امریکا کو بھی اس وقت ان دونوں وزیر اعظموں کے درمیان ملاقات کی سفارتی حوالوں سے بڑی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کو سمجھنے کے لیے اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ من موہن سنگھ ان دنوں صرف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے نہیں گئے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہم ان کا دورۂ واشنگٹن ہے۔ بھارتی وزیر اعظم کی حیثیت میں یہ ان کا آخری دورۂ امریکا ہوگا اور وہ اس دورے کو ’’تاریخی‘‘ بنانا چاہتے ہیں۔

’’تاریخ’’ یا جسے بھارتی میڈیا Legacy کہہ رہا ہے کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے واشنگٹن میں قیام کے دوران بھارتی وزیر اعظم ایک ایسے معاہدے پر دستخط کریں گے جس کے ذریعے امریکا اور جاپان کی دو مشہور کمپنیاں مل کر ان کے ملک کو ایک بہت بڑا ایٹمی پلانٹ بناکر دیں گی۔ کہنے کو یہ پلانٹ بھارت کو بجلی کے بحران کو حل کرنے میں مدد دینے کے نام پر دیا جارہا ہے۔ ایٹمی ٹیکنالوجی مگر ایٹمی ٹیکنالوجی ہوتی ہے۔ یہ ہاتھ آجائے تو اس کا ہر طریقے سے استعمال آپ کا حق بن جاتا ہے۔

ایٹمی پلانٹ کے ساتھ ہی ساتھ من موہن سنگھ امریکا کے ساتھ ایسے بہت سارے معاہدے بھی کریں گے جن کا مقصد 5ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کرنے کے بعد بھارتی فوج کے لیے جدید ترین اسلحہ اور جنگی سامان لیا جائے گا۔ ان معاہدوں پر عملدرآمد کے ذریعے بھارت بتدریج اپنے جنگی سازوسامان کے لیے روس، فرانس اور اسرائیل سے کہیں زیادہ انحصار امریکا پر کرنا شروع ہوجائے گا۔

ایسے’’تاریخی‘‘ معاہدے کرنے کے بعد من موہن سنگھ نواز شریف صاحب سے ملاقات نہ کریں تو دنیا کو یہ پیغام ملے گا جیسے امریکا اور بھارت پاکستان کے خلاف کوئی دفاعی نوعیت کا اکٹھ کرنا چاہ رہے ہیں۔ اسی لیے امریکی وزیر خارجہ نے ذاتی اور ان کے محکمے نے سرکاری طورپر دونوں وزیر اعظموں کی ملاقات کو یقینی بنانے کے لیے کافی متحرک کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کا اصل مسئلہ ہی یہ ہے کہ ان دونوں ملکوں کی حکومتیں خود کو دنیا کی نظر میں ’’اچھا‘‘ ثابت کرنے کے لیے ایک دوسرے سے مذاکرات وغیرہ کرتی ہیں۔ نواز شریف صاحب وہ پہلے پاکستانی حکمران تھے جنہوں نے اپنے دوسرے دورِ حکومت میں بڑی دیانت داری کے ساتھ امن کے لیے ازخود کوششوں کا آغاز کیا۔ ان دنوں کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی جن سنگھ جیسی انتہاء پسند جماعت سے اُبھر کر اپنے سیاسی کیریئر کا اختتام ایک ایسے Statesman کی صورت کرنا چاہتے تھے جس نے برصغیر کے دو ازلی دشمنوں میں دیرپا امن قائم کرادیا۔ کارگل نے مگر دونوں کی اُمیدیں خاک میں ملادیں۔ اس کے بعد ’’مولوی مدن والی‘‘ بات کبھی بن ہی نہ پائی اور نہ آیندہ کچھ دنوں میں اس کی اُمید ہے۔

اپریل 2014 کے بعد من موہن سنگھ بھارت کے وزیر اعظم نہیں رہیں گے۔ ان کی جماعت کا آیندہ انتخابات میں اکثریت حاصل کرنا فی الوقت تو بہت مشکل نظر آرہا ہے۔ کرپشن کہانیوں سے کہیں زیادہ اہم بات اس وقت بھارتی معیشت کی ابتر صورتحال ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار اب وہاں پر مزید سرمایہ نہیں کرنا چاہتے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ کانگریس اگرچہ سوشلزم کو بھلا بیٹھی ہے مگر اب بھی اپنے سرکاری افسروں کو یہ اختیار نہیں دے رہی کہ وہ بڑے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی ’’مشکلات‘‘ کو آسان بنادیں۔ تاریخی طورپر نہرو خاندان کی جماعت خود کو غریب اور بے زمین کسانوں کا ہمدرد ثابت کرنے کی کوششیں کرتی رہتی ہے۔

من موہن سنگھ کی حکومت نے بھی اس ضمن میں کافی اقدامات اٹھائے ہیں جو وہاں کا سرمایہ کار پسند نہیں کرتا۔ بھارتی سرمایہ داروں کا اس وقت سب سے بڑا چہیتا گجرات کا نریندر مودی ہے جس کی شہرت ایک ایسے منتظم کے طورپر پھیل رہی ہے جو اپنے فیصلوں پر ڈٹ جاتا ہے اور ان پر عملدرآمد کرتے ہوئے کسی کی بھی نہیں سنتا۔ بھارتی مسلمان اور اقلیتیں اس سے بجا طورپر خوفزدہ  ہیں۔ مگر ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ اب سیٹھوں کے بنائے رہنمائوں پر انحصار کرنا شروع ہوگئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ نریندر مودی بھارتی وزیر اعظم منتخب ہوجانے کے بعد اس دور کا واجپائی بننا چاہے۔ مگر بھارت کے انتخابات میں ابھی چھ ماہ باقی ہیں اور ان مہینوں میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔