طالبان کا سفارت خانہ اور عمران خان

اسلم خان  جمعـء 27 ستمبر 2013
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

میدان سیاست کے اناڑی کھلاڑی صاف گو تو ہوسکتے ہیں لیکن دانش مند نہیں! جناب عمران خاں قیام امن کی رنگین پتنگ لوٹنے کے لیے پاکستانی طالبان کا سیاسی دفتر پشاور یا اسلام آباد میں کھولنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اس کے لیے خوبصورت دلیلیں تراش رہے ہیں۔اگر افغان طالبان سے مذاکرات کے لیے امریکا، دوحہ قطر میں طالبان کا سیاسی دفتر کھلوا سکتا ہے تو پھر ’ہم‘ اپنے طالبان کو اس ’آئینی حق‘ سے کیسے محروم کرسکتے ہیں۔ وہ یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ اگر دُنیا کی واحد سپر پاور امریکا، قطر میں مذاکرات کے لیے دفتر کھلوا سکتی ہے تو پاکستان ایسا کیوں نہیں کر سکتا۔

جناب عمران خان اتنے سادہ تو نہیں! نہ کسی بھی معقول شخص کو ایسا سادہ لوح ہونا چاہیے جب کہ کار سیاست میں تو ایسی سادگی کی ذرا برابر گنجائش نہیں ہوتی۔ تہذیبوں کے تصادم کے اس مرحلے کو سطحی انداز میں دیکھنا کہاں کی دانش مندی یا دانائی ہے۔ ویسے بھی افغان طالبان کی قانونی حکومت کو امریکا اور اس کے اتحادیوں نے طاقت کے بل بوتے پر ختم کیا تھا۔ افغان طالبان اپنے ملک کی آزادی کے لیے جارح افواج سے نبرد آزما ہیں، امریکی 2014ء میں انخلاء مکمل ہونے سے پہلے افغان طالبان سے ایسا معاہدہ کرنا چاہتے ہیں جس سے ان کے مفادات کا تحفظ ہو سکے جب کہ آفرین ہے حامد کرزئی پر کہ اس نے بھی امریکی جال میں پھنسنے سے انکار کر کے دوحہ مذاکرات کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔

پاکستانی طالبان کا اُن کے افغان ساتھیوں کے ساتھ تقابل کیسے کیا جا سکتا ہے کیونکہ انھوں نے تو اپنے ہی ملک میں نافذالعمل دستور کے خلاف بغاوت کر کے اپنی مسلح افواج کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے جس کا نشانہ نہتے، بے بس اور لاچار عوام بن رہے ہیں،  ویسے بھی پاکستانی طالبان کی صفوں میں بھانت بھانت کے گروپ شامل ہو چکے ہیں۔ سوات اور وزیرستان میں مذاکرات کے ذریعے امن کے قیام کی خواہش ناتمام رہی، ہمارے خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی طالبان نے اپنے اوہام اور ناپختہ تصورات پر مبنی ’اسلام ‘ نافذ کرنے کی کوشش کی۔ عدل و انصاف کے نام پر مقامی کمانڈروں نے زندگی اجیرن کر دی اور سب سے بڑھ کر تہذیب و تمدن سے جڑی روایات سے انحراف کر کے سماجی ارتقا کا پہیہ الٹا چلانے کی بچگانہ حرکت کی۔ طالبان تو مسلمہ پختون روایات اور قبائلی سماج سے بغاوت کر کے معرض وجود میں آئے تھے، ہمارے ’گریٹ خان‘ اس سادہ سی حقیقت کو سمجھ نہیں پا رہے کہ طالبان اور صدیوں سے رائج قبائلی رسم و رواج یکسر دو مختلف حقائق ہیں جو باہم متضاد اور متصادم ہیں۔ قبائلی علاقوں میں جرگے تو شاید ایمان، قرآن پر کارروائی کرتے ہوں گے لیکن تمام فیصلے صدیوں قدیم رسم و رواج کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں جن کا عین اسلام پر ہونا ضروری نہیں ہوتا۔

آزاد قبائل میں امن و امان کے جناب عمران خان بڑے شیدائی رہے ہیں کیونکہ کسی کی جان لینا قبائلی زندگی میں انتہائی اقدام سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے بسا اوقات قبیلے آتش انتقام کی تسکین کے لیے صدیوں خون کی ہولی کھیلتے رہتے ہیں جس کا سلسلہ نسل در نسل چلتا ہے اور آنے والی نسلوں کو بھی اس کا خراج ادا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ہمارے پیارے پاکستانی طالبان نے موت کو بازیچہ اطفال بنا کر رکھ دیا ہے۔ طالبان اس طرح کے تمام رُسوم و رواج کی قید سے آزاد ہیں۔ ہمارے امن پسند قبائلی تو صدیوں سے ایک محدود دائرے میں پر امن زندگی گذار رہے تھے۔ محسود ہوں یا وزیر عدم مداخلت کے سنہری اُصول پر عمل پیرا ہوتے تھے۔

بین الااقوامی اُمور کے تجزیہ نگار ندیم سعید  عمران خان کی سوچ کا بڑی خوبصورتی سے نفسیاتی تجزیہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں:

’ساٹھ سالہ‘ عمران خان ایک ایسے نوجوان کی مانند ہیں جس نے ساری زندگی شہر میں گزاری ہو لیکن اس کے ڈانڈے کسی نہ کسی طرح دیہی یا قبائلی سماج سے ملتے ہوں تو وہ اپنے ساتھیوں اور ملنے والوں کو مرعوب کرنے کے لیے اپنے اس پس منظر کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔ قارئین میں سے بہت سوں کا واسطہ کبھی نہ کبھی ایسے ’نو قبائلیوں‘ سے پڑا ہو گا جو قبائلی یا دیہی زندگی گزارے بغیر اس کی رومانویت کا محض اس لیے شکار نظر آتے ہیں کہ ان کے آبائو اجداد کبھی اس طرز معاشرت کا حصہ تھے۔

پہاڑ، ندی نالے، پر پیچ راستے، مختلف پیراہن، بندوق مردوں کا زیور، انا، پولیس اور عدالت کی عدم موجودگی اور جرگہ، شہروں میں رہنے والوں اور ان میں سے بھی خوشحال لوگوں کے لیے یہ سب کسی اور دنیا کی نشانیاں ہیں۔ عمران خان عہد جوانی میں اس بارے میں انگریزی میں ایک یا دو باتصویر کتابیں بھی شایع کر چکے ہیں۔ لیکن طالبان رومانوی تصور کے حامل وہ قبائلی نہیں ہیں جو اپنے مہمان کی دل و جان سے عزت کرتے ہیں، یہ تو سیاحوں کی شکل میں دنیا جہان سے آئے مہمانوں کو بھی قتل کرنے سے باز نہیں آتے۔ یہ وہ قبائلی ہیں جن کی ’افغان جہاد‘ سے پہلے قبائلی سماج میں کوئی حیثیت نہیں تھی۔ یہ ایک طرف افغانستان میں جنگ میں مصروف عمل تھے تو دوسری طرف قبائلی عمائدین کو قتل کر کے اپنی جگہ بنا رہے تھے۔

پاکستانی طالبان کرزئی انتظامیہ کے تیار کردہ افغان آئین کو پاکستانی آئین سے زیادہ اسلامی رُجحانات کا حامل سمجھتے ہیں۔ امریکا یا افغان حکومت سمیت کسی نے بھی افغان طالبان پر غیر مسلح ہونے، جنگ بندی کرنے اور افغان آئین کو تسلیم کرنے کی پیشگی شرائط عائد نہیں کیں۔ بلکہ افغان طالبان کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے دوحہ، قطر میں امارات اسلامیہ افغانستان کا رابطہ دفتر کھول کر جامع مذاکرات کے لیے سیاسی ماحول فراہم کیا گیا تو آپ کس طرح پاکستانی طالبان سے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے سے پہلے حکومت پاکستان کی آئینی اور قانونی حیثیت کو تسلیم کرنے یا ہتھیار پھینکنے کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے حکومت پاکستان سے مجوزہ مذاکرات حالت جنگ میں ہوں گے، کسی جنگ بندی کے بغیر ۔۔۔ فریقین کی جنگی کارروائیاں، ڈرون حملے اور ایک دوسرے کا تعاقب جاری رہے گا،  ویسے ان مذاکرات کا مستقبل غیر یقینی ہے کیونکہ ماضی میں بار ہا ایسا ہو چکا ہے کہ امریکی دبائو پر مقامی سطح پر ہونے والے مذاکرات ختم کر کے جنگ کے نئے مرحلے کی راہ ہموار کر دی جاتی ہے۔ تحریک طالبان پاکستان نے سنجیدہ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے جب کہ غیر سنجیدہ کھیل تماشے کو ہمیشہ کے لیے رد کر دیا ہے۔ مقامی طالبان نے الزام عائد کیا گیا ہے کہ طالبان کے ترجمان مسلم خاں اور ان کے چار ساتھیوں کو مذاکرات کا دھوکا دے کر گرفتار کیا گیا۔

اب حکومت پاکستان کو مذاکرات سے پہلے اظہار خیر سگالی کے لیے قیدیوں کی رہائی، شہدا کے لواحقین کو معاوضے اور تباہ ہونے والی جائیدادوں کا معاوضہ ادا کرنا ہو گا۔ یہ بنیادی مطالبات صرف مذاکرات کے آغاز کے لیے ہیں جب کہ مذاکرات کی میز پر ہم نفاذ شریعت سے متعلق اپنے اصل مطالبات پیش کریں گے۔ آج حکومت پاکستان جہاد کی فیوض برکات سے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے اور ہم سے بات کرنے پر مجبور ہے یہ صرف جہاد کی بدولت ممکن ہوا ہے۔ پاکستانی طالبان کو مذاکرات سے پہلے مکمل آزادی کی ضمانت دی جائے اسلام آباد اور پشاور میں سیاسی دفاتر کھولنے اور ذرایع ابلاغ سے رابطوں کی مکمل آزادی دی جائے۔

ہمارے زوال پذیر معاشرے میں عمران خان جیسے خوش فہموں کی کمی نہیں۔ طالبان کا دفتر کھولنے کے بارے میں دلیل تراشنے والے بھی استدلال کے انبار لگائے جا رہے ہیں کہ ہمیں اپنے قلب و ذہن کو کھول کر طالبان سے مذاکراتی عمل کے لیے سہولتیں فراہم کرنا چاہیں، اگر اس خطے میں جنگ کے الائو بھڑکانے والا امریکا اپنی پسپائی کی راہیں آسان کرنے کے لیے افغان طالبان سے قطر میں مذاکرات کر رہا ہے تو ہمیں کیا تکلیف ہے، رہے عمران خان تو انھیں خلق خدا نے امن لانے کے لیے ووٹ دیے ہیں جس کے لیے وہ کوشاں ہیں جو لوگ طالبان سے مذاکرات نہیں چاہتے انھیں پاک فوج کے شانہ بشانہ طالبان سے جنگ کی تیاری کرنا پڑے گی۔

آئرلینڈ میں قیام امن کے لیے آئرش ری پبلک آرمی کو مذاکرات سے پہلی دی جانے والی مراعات کا ذکر بھی کیا جا رہا ہے کہ انگریز شہ دماغوں نے تحمل و بردباری سے ان جنگ بازوں کو دھیرے دھیرے مذاکرات کی میز تک لایا تھا،  وہ تمام مراعات دی تھیں جن کا مطالبہ جناب عمران خان کر رہے ہیں۔ یہ بڑا پر خطر اور حساس معاملہ ہے کیونکہ ہمیں طالبان کی اصل وجہ تخلیق کا بخوبی علم ہے لیکن ہمیں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا ہو گا کہ طالبان کو میدان جنگ میں شکست دینا ممکن نہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ کوئی میدان جنگ موجود ہی نہیں۔ یہاں تو سایوں سے لڑائی کا عجب منظر درپیش ہے، اس لیے اگر ہم جنگ جیت نہیں سکتے تو بھی مذاکرات ہی واحد راستہ ہیں لیکن کن شرائط پر اس کا فیصلہ ہمارے شہ دماغوں نے کرنا ہے جو کسی حل طلب مسئلے کے ایک سے زیادہ پہلوئوں پر سوچنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔اور ہمیں یہ پیچیدہ مسئلہ درپیش ہے کہ اگر پاکستانی طالبان کو رابطہ دفتر کھولنے کی اجازت دے دی جائے تو وہ اس کا کیا نام رکھیں گے ؟

سفارت خانہ، امارات اسلامیہ وزیرستان یا سفارت خانہ، امارات اسلامیہ مملکت خراسانیقین رکھیے کہ ہمارے حکمت کاروں کو بالکل علم نہیں ہو گا کہ مملکت خراسان کس چڑیا کا نام ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔