خبردار! اینٹی بائیوٹک ادویات آنت کے کینسر کا سبب بن سکتی ہیں

امن کیانی  جمعرات 5 ستمبر 2019
اینٹی بائیوٹک ادویات کے بلاضرورت اور زیادہ استعمال کے سبب عالمی سطح پر انسانی صحت کو شدیدخطرات لاحق ہیں

اینٹی بائیوٹک ادویات کے بلاضرورت اور زیادہ استعمال کے سبب عالمی سطح پر انسانی صحت کو شدیدخطرات لاحق ہیں

اینٹی بائیوٹکس وہ دوائیں ہوتی ہیں جو بیکٹیریا کے باعث ہونے والے انفیکشن کو ختم کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہیں تاہم ہمارے ہاں بغیر ڈاکٹری نسخے کے اینٹی بائیوٹکس بیچی اورخریدی جاتی ہیں۔

ہمارے ہاں کچھ مریض معمولی انفیکشن کے علاج کے لیے زبردستی ڈاکٹرز سے اینٹی بائیوٹکس دینے کوکہتے ہیں۔ کبھی ڈاکٹرز  بھی  مریض  کا مزاج  سمجھتے  ہوئے ضرورت نہ ہونے کے باوجود اینٹی بائیوٹکس  دے دیتے  ہیں۔مریض ایک  ہفتے  کی  بجائے دو سے تین دن میں  ٹھیک  بھی  ہو جاتا ہے مگر بعد میں اس کے جو نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں۔

اس کی مریض کو سمجھ نہیں ہوتی اور  ڈاکٹر کو پرواہ نہیں ہوتی۔ جہاں مریض جلد’’شفا‘‘ حاصل کرنے کے لئے ڈاکٹروں سے اینٹی بائیوٹکس کا مطالبہ کرتے ہیں وہاں کمرشل ازم کے شکار ڈاکٹر بھی ’’مرض‘‘ کو دبانے کے لئے اینٹی بائیوٹکس کا خواہ مخواہ استعمال کراتے ہیں، شاید وہ چاہتے ہیں کہ ایک مرض دبے اور دس امراض پیداہوں تاکہ ان کا کاروبار دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرے۔

حال ہی میں سامنے آ نے والی ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بعض اینٹی بائیوٹکس متعدد بار یا زیادہ دیر تک استعمال کرنے سے بڑی آنت کے کینسر کا خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جیسے جیسے اینٹی بائیوٹک کے استعمال میں اضافہ ہورہا ہے، بڑی آنت کے کینسر کی تشخیص میں مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔خاص طور پر  یہ خطرہ ان اینٹی بائیوٹک ادویات سے منسلک ہے جو انیروبک بیکٹیریا کو ہلاک کرتی ہیں۔ جس میں عام طور پر پینسلن اور سیفالوسپورن اور کیفلیکس جیسی منشیات شامل ہیں۔ تاہم بڑی آنت کے کینسر کے ایک ماہر کے مطابق اس تعلق کی وجوہات ابھی تک واضح نہیں ہیں۔ ابھی تک یہ ظاہر نہیں ہوا کہ کیا بڑی آنت کا کینسر اینٹی بائیوٹکس کے براہ راست اثر کا نتیجہ ہوتاہے۔

نیو یارک شہر میں واقع ’میموریل سلوان کیٹرنگ کینسر سنٹر‘ کے کولن کینسر سرجن  ڈاکٹر ایمانوئل پاپو کا کہنا ہے کہ ’’ہم نہیں جانتے کہ اس تحقیق میں شریک لوگوں(مریضوں) نے اینٹی بائیوٹک ادویات پر مشتمل نسخے کیوں حاصل کیے تھے؟‘‘ انھیں یہ بات نمایاں طور پر نظرآئی کہ بڑی آنت کے کینسر کا  یہ خطرہ ان لوگوں میں سب سے زیادہ  تھا جو طویل عرصہ تک اینٹی بائیوٹکس ادویات استعمال کرتے تھے۔

انھوں نے30 سے 60 دن یا اس سے زیادہ دنوں تک یہ ادویات استعمال کیں۔  انہوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ محققین کو لوگوں کے کھانے اور ورزش کی عادات کے بارے میں کوئی معلومات نہ تھیں، حالانکہ یہ معلومات حاصل کرنا اس لئے ضروری تھا کہ ان کا تعلق کولون کینسر کے خطرات سے جڑا ہوتاہے۔

پاپو کا کہناتھا:’’اس وقت بھی بہت سے جواب طلب سوالات ہیں ،یہ تصدیق کرنے کے لئے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ بڑی آنت کا کینسر واقعی اینٹی بائیوٹک ادویات کے سبب ہورہاہے؟

اور یہ کہ اینٹی بائیوٹکس ادویات کولن کینسر کیسے پیدا کرتی ہیں؟‘‘ سینئر محقق ڈاکٹر سنتھیا سیئرز کے مطابق ،جہاں تک تھیوری کی بات ہے،  یہ  گٹ مائکروبیوم پر اثر انداز ہوتی ہیں۔گٹ مائکروبیوم سے مراد بیکٹیریا اور دیگر جرثوموں کا وسیع ذخیرہ ہے جو قدرتی طور پر بڑی آنت کو آباد کرتا ہے۔ حالیہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ وہاں موجود جرثوموں کا توازن صحت پر وسیع اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

سیئرز کے مطابق ، یہ ممکن ہے کہ گٹ مائکروبیوم میں رکاوٹ کینسر کو فروغ دینے کی صلاحیت کے ساتھ بیکٹیریا کی نشوونما میں معاون بن سکتی ہو۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بعض بیکٹیریا ، جیسے ای کولی ، بعض معاملات میں بڑی آنت کے کینسر میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔

پاپو کی طرح ، سیئرز کا بھی کہناتھا کہ اس کی تحقیق بھی اسباب اور اثرات کو ثابت نہیںکرسکی۔ انھوں نے اینٹی بائیوٹک کے مناسب استعمال کی بات کی ہے ۔ بالٹیمور میں جانز ہاپکنز یونیورسٹی میں طب کے پروفیسر سیئرس کا کہنا ہے کہ ’’اینٹی بائیوٹک ادویا ت کا حد سے زیادہ استعمال ایک مسئلہ ہے، اس حوالے سے مریض اور ڈاکٹر دونوں کو تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔‘‘ اس کا مطلب ہے کہ عام سردی جیسے وائرل انفیکشن کے لئے اینٹی بائیوٹکس نہ لی جائیں۔

(اینٹی بائیوٹکس بیکٹیریا کو نشانہ بناتے ہیں ، وائرس کو نہیں ، سیئرز نے اس بات کی نشان دہی کی ہے ) اور اگر لینا پڑیں تو اینٹی بائیوٹک علاج کے طویل استعمال سے پرہیز کرنا چاہئے۔

اینٹی بائیوٹک ادویات اور کولون کینسر کے باہمی تعلق سے متعلقہ رپورٹ166,000  افراد کا جائزہ لینے کے بعد تیار کی گئی۔ یہ افراد زیادہ تر درمیانی عمر کے تھے یا پھر ایسے بوڑھے جو پرائمری کیئر پر تھے۔ ان کا جائزہ 1989ء سے 2012 ء کی درمیانی مدت میں لیاگیا۔

قریباً 29 ہزار افراد کو آنت یا  ریکٹل کینسر(کسی نہ کسی سطح) کی تشخیص ہوئی تھی۔ ان مریضوں میں سے ہر ایک کا موازنہ پانچ سے زائد افراد سے کیاگیا جو کینسر سے محفوظ تھے۔

تحقیق کرنے والوں کواوسطاً  نتائج سے پتہ چلا کہ جن مریضوں نے اینٹی بائیوٹک ایک سال تک استعمال کیں ، وہ بڑی آنت کے کینسر کے خطرہ سے کسی قدر زیادہ قریب پائے گئے۔ جن مریضوں نے نسخے میں دی گئی اینٹی بائیوٹک ادویات کی نسبت دو ہفتوں تک زیادہ اینٹی بائیوٹکس لی تھیں، ان میں یہ خطرہ  نو فیصد زیادہ تھا۔ جو لوگ 60 دن سے زیادہ اینٹی بائیوٹک ادویات استعمال کرتے رہے ، انھیں 17 فیصد زیادہ خطرات درپیش تھے۔

تحقیق کرنے والوں نے بڑی آنت کے کینسر کے لئے کچھ معروف خطرناک عوامل کا ذکر بھی کیا مثلاً موٹاپا ، ذیابیطس اور تمباکو نوشی۔ اس کے برعکس  اینٹی بائیوٹک کے استعمال سے مقعدکے کینسر کے خطرات کم دیکھے گئے، ایسا کیوں؟ فی الحال ماہرین سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ تاہم  سیئرز نے کہا ’’ یہ اس حقیقت کی عکاسی کرسکتا ہے کہ بڑی آنت اور مقعد کے کینسر ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ پاپو کا کہناہے کہ اینٹی بائیوٹک ادویات کا استعمال سوچ سمجھ کے کرناچاہئے۔ظاہر ہے کہ استعمال کم ہوگا تو خطرات بھی کم ہوں گے۔ انھیں صرف ناگزیر طبی ضرورت کے تحت ہی استعمال کرناچاہئے ۔

اینٹی بائیوٹک ادویات کے سبب آنت کے کینسر کے خطرے کو کم کرنے  کے لئے مندرجہ ذیل ہدایات پر عمل ازحد ضروری ہے: باقاعدگی سے ورزش کرنا ، صحت مند وزن برقرار رکھنا ، سگریٹ نوشی نہ کرنا ، کم سے کم شراب نوشی۔ پھل، سبزیوں اور فائبر سے بھرپور غذا کھانا۔

دوسری طرف اقوام متحدہ کا ’ادارہ عالمی صحت‘ بھی اینٹی بائیوٹک ادویات  سے  متعلق خبردار کرتاہے۔ اس کے مطابق عالمی صحت کے لئے سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ جب اینٹی بائیوٹیک ادویات کی ضرورت نہ ہو تو ان کے استعمال کا نقصان یہ ہوتاہے کہ ان کی بیماریوں کے خلاف مزاحمت کمزور پڑجاتی ہے۔ اینٹی بائیوٹک کے زیادہ استعمال سے بیکٹریا   ان ادویات کے خلاف مزاحمت کرسکتاہے۔اس کا مطلب ہے کہ ان کا  علاج مزید  موثر ثابت نہیں ہوسکے گا۔

جب بیکٹریا اینٹی بائیوٹک عام انفیکشن کے خلاف کھڑا ہوجاتا ہے تو اس کا کچھ نہیں بگاڑا جاسکتا۔ ایسے میں یہ انفیکشنز کسی بھی ملک میں کسی بھی عمر کے کسی فرد کو متاثر کرسکتے ہیں۔ نتیجتاً اینٹی بائیوٹک کے خلاف مزاحمت کرنے والی ان بیماریوں کے سبب ہسپتالوں میں مریضوں کا قیام طویل ہوجاتاہے، یوں انھیں  زیادہ طبی اخراجات کرنا پڑتے ہیں اور اموات بھی زیادہ ہوسکتی ہیں۔

اس تناظر میں ضروری ہے کہ اینٹی بائیوٹک ادویات قابل ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر نہ لی جائیں۔ اچھے ڈاکٹرز کبھی فوراًً ایسی ادویات دینے کا نہیں سوچتے کیونکہ انھیں ان کے نقصانات کا بخوبی اندازہ ہوتاہے۔اس لئے آپ بھی سمجھ داری سے کام لیں۔ اینٹی بائیوٹکس سے حد درجہ دور رہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔