ڈینگی بخار پھر سر اُٹھا رہا ہے!

اس مہلک بیماری سے بچاؤ کی کوئی دوا ہے نہ ہی کوئی ٹیکہ، صرف حفاظتی تدابیر سے محفوظ رہاجاسکتا ہے فوٹو : فائل

اس مہلک بیماری سے بچاؤ کی کوئی دوا ہے نہ ہی کوئی ٹیکہ، صرف حفاظتی تدابیر سے محفوظ رہاجاسکتا ہے فوٹو : فائل

پاکستان میں ڈینگی بخار پھر سر اُٹھا رہا ہے۔ اگست 2019ء میں کراچی، اسلام آباد اور راولپنڈی میں ڈینگی کے سینکڑوں کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔

سال 2017ء میں خیبرپختونخوا کے 800 سے زیادہ افراد ڈینگی سے متاثر ہوئے اور ان میں سے 30 افراد جان سے ہاتھ دھوبیٹھے تھے۔ 2014ء میں سوات میں ڈینگی بخار نے تباہی مچائی اور ہزاروں لوگوں کو متاثر کیا جن میں سے کئی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ 2010-11ء میں ڈینگی بخار کرنے والے مچھر نے پنجاب میں عموماً اور لاہور میں خصوصاً تباہی مچائی۔ 25000 سے زیادہ لوگ بیماری کا شکار ہوئے جن میں سے350 جان کی بازی ہار گئے۔

اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب نے دل جمعی سے ڈینگی کے خلاف مہم چلائی۔ سری لنکا اور انڈونیشیا سے ڈاکٹروں کی خصوصی ٹیمیں لاہور آئیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب اس حد تک ڈینگی کے خلاف منہمک تھے کہ انہیں اس وقت ’’ڈینگی برادران‘‘ کا طعنہ دیا گیا۔

اقوام متحدہ کے ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال پانچ کروڑ سے زائد افراد ڈینگی بخار کا شکار ہوتے ہیں اور سالانہ بیس ہزار سے زائد افراد اس کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں، دنیا کے ایک سو کے قریب ممالک میں ڈینگی وائرس پھیلانے والے اڑتیس اقسام کے مچھر ہیں، ان میں سے صرف ایک قسم کا مچھر پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ ڈینگیبخارسے بچاؤ کی کوئی دوا ہے نہ ہی کوئی ٹیکہ، اسے صرف حفاظتی تدابیر سے روکا جا سکتا ہے۔

پاکستان سمیت ایشیا میں ڈینگی بخار کا خطرہ بڑھ رہا ہے، ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ ایشیا میں ڈینگی کے بڑھتے ہوئے کیسوں کی وجہ درجہ حرارت میں اضافہ، کئی علاقوں میں شدید بارشیں، سیلاب اور بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ عالمی ادارہ برائے صحت نے متنبہ کیا ہے کہ اگر حکومتوں نے ضروری اقدامات نہ کیے تو ڈینگی بخار سے دنیا کی تقریباً ڈھائی ارب آبادی کو خطرہ لاحق ہے۔ ان سب اعداد و شمار کے باوجود ڈینگی بخار خطرناک اور جان لیوا امراض کے زمرے میں نہیں آتا۔ احتیاطی تدابیر اختیار کر کے اس پہ قابو پایا جا سکتا ہے۔

ڈینگی وائرس سے بننے والا مچھر

ڈینگی بخار کا باعث بننے والا خطرناک مچھر بہت نفیس اور صفائی پسند ہے۔ یہ گندے جوہڑوں میں نہیں بلکہ بارش کے صاف پانی، گھریلو واٹر ٹینک کے آس پاس، صاف پانی کے بھرے ہوئے برتنوں، گھڑوں اور گل دانوں، گملوں وغیرہ میں رہنا پسند کرتاہے۔

گھر میں جہاں بھی صاف پانی کھلا پڑا ہو وہ ڈینگی پھیلانے والے مچھر کی آماجگاہ ہوگا۔ یہ مچھر انسان پر طلوع آفتاب یا غروب آفتاب کے وقت حملہ آور ہوتے ہیں۔ اس بخار کا علم تین سے سات دن کے اندر ہوتا ہے۔عام سے نزلہ و بخار کے ساتھ شروع ہونے والا بخار شدید سر درد، پٹھوں میں درد اور جسم کے جوڑ جوڑ کو جکڑ کر انسان کو بالکل بے بس کر دیتا ہے۔ اسی وجہ سے اس بخار کو ہڈی توڑ بخار بھی کہا جاتا ہے۔ جسم کے اوپری حصوں پر سرخ نشان ظاہر ہوتے ہیں۔

نوعیت شدید ہو جائے تو ناک اور منہ سے خون بھی جاری ہو جاتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق یہ مخصوص حالات میں پیدا ہونے والا انتہائی خطرناک معتدی وائرس بخار ہے جو کہ ایک خاص قسم کے مچھر Aedes Aegypti کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔

ابتدائی علامات:

-1        تیز بخاژ

-2        سر میں شدید درد

-3        آنکھوں کے ڈھیلے میں شدید درد

-4        پورے جسم کی ہڈیوں، پٹھوں اور جوڑوں میں شدید درد۔

-5        متلی، قے اور بھوک میں کمی۔

بیماری کے حملے کے دوران میں مریض شاک میں جا سکتا ہے جس سے بلڈ پریشر کم اور  پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں۔ جسم کے اندرونی اور بیرونی حصوں پر باریک سرخ دانے ابھرتے جاتے ہیں۔ ڈینگی وائرس کا شکار ہونے والے افراد پر اگر یہ وائرس دوبارہ حملہ آور ہو تو جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ بیماری Aedes Aegypti قسم کے مچھر کے کاٹنے سے انسانوں میں منتقل ہوتی ہے۔ اس قسم کے مچھر انسان کے قریب قریب شہروں میں ہی رہتے ہیں۔ کچھ مچھر ایسے ہوتے ہیں جن کی افزائش تالابوں اور جوہڑوں میں ہوتی ہے جبکہ کچھ گھروں کے اندر بھی افزائش کر لیتے ہیں۔ ایڈی قسم کے مچھروں سے تین براعظموں میں یعنی ایشیاء، افریقہ اور امریکہ میں یہ وبا پھیلی تھی۔ پاکستان میں 1994ء میں پہلی مرتبہ اس سے متاثرہ مریض دیکھے گئے۔

شدید حملہ:

ڈینگی کی بیماری کی ابتدائی علامات میں بخار، کمزوری پسینہ آنا اور بلڈ پریشر کم ہو نا شامل ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ جسم کے سارے نظاموں پر اثر کرتا ہے۔ خون کی باریک نالیاں جنہیں ہم Capillaries کہتے ہیں وہ پھٹنا شروع ہو جاتی ہیں جسم کے جس حصہ پر یہ دھبے نمایاں ہوں وہ حصہ نمایاں ہوتا ہے۔ جب یہ بیماری دماغ اور حرام مغز پر حملہ کرتی ہے تو مریض کی موت بھی ہو سکتی ہے لیکن زیادہ تر مریض ایک یا ڈیڑھ دن میں بہتر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

بہتری نہ ہونے کی صورت میں بخار، سر درد، پٹھوں، جوڑوں میں درد، بھوک کم لگنا، الٹی آنا، پسینہ زیادہ آنا، جسم ٹھنڈا ہو جانا جیسی علامات ہوتی ہیں۔ مریض کا بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے تو نبض آہستہ آہستہ اور کمزور ہو جاتی ہے۔ جسم پر دھبے پڑ جاتے ہیں اور جگر بڑھ جاتا ہے۔ جب بیماری دماغ اور حرام مغز پر حملہ کرتی ہے تو فالج بے ہوشی، لقوہ جیسی علامات ہوتی ہیں یا تو مریض کے جسم کا کوئی حصہ کام کرنا چھوڑ دیتا ہے یا وہ بے ہوش ہو جاتا ہے۔ اس بیماری کی تشخیص کے لیے خون کے ٹیسٹ اور ایکسرے کیے جاتے ہیں۔ دماغ اور حرام مغز میں پہنچنے والی بیماری کی تشخیص سی ٹی CT اور ایم آر آئی MRI سکین سے کی جاتی ہے۔

پہلی سٹیج میں جب وائرس حملہ آور ہوتا ہے تو مندرجہ ذیل علامات ظاہر ہوتی ہیں:

-1        بخار تیزی سے چڑھتا ہے۔

-2        شدید سردرد، جسم اور جوڑوں میں دردیں ہوتی ہیں۔ کمر میں بھی درد ہوتی ہے۔

-3        چہرہ سرخ ہو جاتا ہے اور یہ سرخی جسم کے باقی حصہ میں بھی پھیل جاتی ہے۔

-4        آنکھیں بھی سرخ ہو جاتی ہیں روشنی اچھی نہیں لگتی اور پانی بہتا ہے۔ آنکھوں کی حرکت سے بھی ان میں درد پیدا ہوتی ہے۔

-5        گردن میں گلٹیاں بھی نمودار ہوسکتی ہیں۔

-6        گردن میں اکڑاؤ آ جاتا ہے۔

-7        نیند نہیں آتی۔

یہ مرحلہ بہت سخت ہوتا ہے اور مریض کی حالت قابل رحم ہو جاتی ہے جس کی وجہ شدت کا بخار اور درد ہے۔ تین سے چار دنوں میں بخار میں کمی آ جاتی ہے اور مریض کی حالت سنبھلنے لگتی ہے۔ اس مرض کا بچاؤ صرف اور صرف ڈینگی مچھر سے بچاؤ میں ہی ہے۔ جہاں جہاں یہ مچھر پیدا ہو وہاں اس کے لیے مچھر مار دواؤں کا استعمال کثرت سے کرنا چاہیے۔ مارکیٹ میں ایسے تیل بھی ہیں جو جسم اور ہاتھوں کے کھلے حصے پر لگانے سے مچھر نہیں کاٹتا۔

مشرقی طب کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بیماری کا دوسرا نام Dengue Hemorrhagic Fever ہے یعنی وہ بخار جس میں جسم سے خون بھی بہتا ہے جس کا معروف نام ڈینگی ہے۔ جب یہ مچھر ایک بیمار شدہ مریض کو کاٹ کر کسی صحت مند شخص کو کاٹتا ہے تو یہ بیماری پھیل سکتی ہے۔ یہ بیماری عام طور پر دنیا میں گرم مرطوب علاقوں میں ہوتی ہے اس بیماری کا پھیلاؤ ملیریا کی طرح ہے۔ بیماری زیادہ تر افریقہ، انڈونیشیا، تھائی لینڈ اور انڈیا میں مغربی بنگال کے علاقے میں ہوتی ہے۔

اس بیماری کی وجہ سے خون کے جو Platelets ذرات ہیں، بہت کم ہو جاتے ہیں اور اس کی وجہ سے جسم کے کئی حصوں میں خون بہہ سکتا ہے اور جلد کے نیچے خون جم جاتا ہے۔ عام طور پر یہ بیماری چھ یا سات دن تک رہتی ہے اور کئی دفعہ ایک جان لیوا بیماری کی شکل یعنی Dengue Shock Syndrom اختیار کر لیتی ہے۔

علاج:

اس بیماری کا علاج مندرجہ ذیل طریقوں سے کیا جا سکتا ہے:

-1 Supportive Therapy دی جاتی ہے۔

-2بیماری کے دوران مکمل آرام کیا جائے۔ پینے والی اشیاء صاف پانی، مشروبات فریش فروٹ جوس سوپ کااستعمال زیادہ سے زیادہ کیا جائے۔ تازہ پھلوں اور سبزیوں کے سوپ کا استعمال بھی مریض کی توانائی بحال کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔

-3اگر مریض زیادہ کھا پی نہ سکے تو پھر Platelets کی Drip لگانا بہت ضروری ہے۔ Platelets کی Drip بلڈ بینک سے حاصل کی جا سکتی ہے

-4پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ اس مچھر سے Aedes Aegypti کو پھلنے پھولنے سے مکمل طور پر روکا جائے۔ سب سے اہم بات ایسی جگہوں پر اسپرے ہے جہاں مچھر پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح سے جہاں بھی پانی کھڑا ہو جائے وہاں پانی کو کھڑا نہ ہونے دیا جائے۔ جہاں ایسا ممکن نہ ہو وہاں فوراً اسپرے کیا جائے۔ گھروں میں مچھر کے بچاؤ کی تدابیر کرانی چاہئیں جن میں مچھر دانی یعنی Mosquite net کا استعمال بہت ضروری ہے۔

ڈینگی بخار بیماری اور علاج

-1 شہد:

یہ ڈینگی بخارکے لیے بہترین علاج ہے۔ ایک چمچ شہد ایک کپ نیم گرم پانی میں ملا کر صبح نہار منہ جبکہ دوپہر اور  رات کھانے سے ایک گھنٹہ قبل استعمال کرنا چاہیے۔ پروپولس (رائل جیلی) جو کہ شہد کی مکھی کے چھتے سے نکلتا ہے، طاقتور اینٹی وائرل ہے۔ یورپ میں یہ عام دستیاب ہے لیکن وطن عزیز میں ہم اسے شہد نکالے چھتے سے حاصل کر سکتے ہیں۔ اس چھتے کے تین تین گرام کے پیس کاٹ لیں اور ایک ٹکڑا صبح دوسرا شام اور رات دن میں چار مرتبہ چبا کر رس چوس لیں، پروپولس کی مطلوبہ مقدار حاصل ہو جائے گی۔ اس سے قوت مدافعت میں زبردست اضافہ ہو جاتا ہے جس سے ڈینگی وائرس زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

-2 پپیتے کے پتے:

پپیتے کے پتے بھی اس مرض کا شافی علاج ہیں۔ پپیتے کے دو تازہ پتے یا ان کا رس صبح شام پینے میںPlatelets حیران کن طور پر چند گھنٹوں میں بڑھ جاتے ہیں۔

-3 کالی مرچ کلونجی چرائتہ افسنیتن:

کالی مرچ، کلونجی، چرائتہ، افسنتین میں سے ہر ایک دس گرام لے کر باریک پیس لیں۔ تینوں کو اچھی طرح ملا لیں اور ایک گرام دن میں تین مرتبہ صبح، دوپہر، شام اجوائن و پودینے کے قہوے کے ساتھ ڈینگی بخار کے مریض استعمال کریں۔

-4 وٹامن:

ڈینگی فیور سے متاثرہ افراد وٹامن کے، وٹامن بی اور وٹامن سی سے بھرپور خوراک کا استعمال کریں۔

-5 سبزیاں اور چاول:

چاول مونگ کی دال کھچڑی، شلجم، چقندر، گاجر، گوبھی، کریلا، انار، سنگترہ، مسمی میٹھا اور امرود اس میں مفید غذا ہے۔

ڈینگی بخار کا موثر علاج … شربت پپیتہ

ڈینگی وائرس پھیلانے والا مادہ مچھر بڑا نفاست پسند ہے اور صاف پانی میں رہتا ہے۔ طلوع آفتاب کے وقت اور شام کو غروب آفتاب کے وقت حملہ آور ہوتا ہے۔ زیادہ بڑے گھروں میں رہنے والوں کو متاثر کرتا ہے۔ عالمی اداررہ صحت (WHO) کے مطابق سالانہ 50 ملین افراد اس سے متاثر ہوتے ہیں اور ان میں ہر سال 20 ہزار سے زائد لوگ اِس کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ڈینگی وائرس کی روک تھام کے لیے ابھی کوئی ویکسین دریافت نہیں ہوئی اس لیے سائنس دان سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے بڑی پیش رفت نارتھ کیرولیناسٹیٹ یونیورسٹی نے کی ہے جس میں خاص بیکٹیریا Wolbateria Bacterium کو مادہ مچھر کے جسم میں داخل کیا جائے گا جس سے وہ وائرس آگے منتقل کرنے کے قابل نہیں رہے گی۔

مقامی طور پربھی ڈینگی کے علاج کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ اس سلسلے میں کسٹمز ہیلتھ کیئر سوسائٹی کے تحت چلنے والا فلاحی ہسپتال میں ’’پپیتہ‘‘ کے پتوں کا جوس نکال کر اس میں چند دوسری مفید جڑی بوٹیاں شامل کر کے ’’شربت پپیتہ‘‘ تیار کیا گیا ہے۔ پپیتہ کے پتے ڈینگی کا بخار ختم کرنے، جسم میں مدافعت پیدا کرنے اور بیماری کی حالت میں خون کی ’’پلیٹلٹس کی مقدار‘‘ نارمل رکھنے میں بے حد کارآمد ہیں۔

قدرت نے ’’پپیتہ‘‘ کے پتوں میں بے پناہ صلاحیت رکھی ہے، ڈینگی سے بچاؤ اور علاج کے لیے اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں مچھر دانیوں کو پپیتہ کے پتوں میں بھگو کر تیار کیا جاتا ہے کیونکہ اس کے پتے بیماری سے بچاؤ اور علاج کے ساتھ مچھروں کو دور بھگاتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق جن گھروں کے لانوں میں پپیتہ کے درخت لگے ہوئے ہیں، ڈینگی پھیلانے والے مچھر وہاں سے دور بھاگتے ہیں۔

مزید برآں مچھروں سے بچاؤ کے لیے پپیتہ کے پتوں سے تیار کردہ Repellents بھی بنائے گئے ہیں۔ پپیتہ کے پتوں میں ایک انزائم ’’پاپین‘‘ پایا جاتا ہے۔ جس میں 212 امائنو ایسڈ ہوتے ہیں۔ یہ انزائم جسم میں داخل ہو کر ڈینگی وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز پیدا کرتا ہے جس سے وائرس کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ وائرس کے ختم ہونے سے خون میں پلیٹلٹس کی مقدار بھی نارمل ہو جاتی ہے۔ امائنو ایسڈ کے علاوہ پپیتہ کے پتوں میں وٹامن اے، سی، ای، کے، بی کمپلیکس اور بی 17 بھی پایا جاتا ہے۔

ان پتوں میں موجود فائٹو کیمیکل جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط کرتا ہے۔ جسم میں مدافعتی نظام مضبوط ہونے کے باعث جسم میں داخل ہونے والا وائرس زیادہ پیچیدگیاں نہیں پھیلا سکتا۔ اس کے علاوہ تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ ’’پپیتہ‘‘ کے پتوں میں موجود ’’پاپین‘‘ میں اینٹی وائرل خصوصیات موجود ہیں۔ علاوہ ازیں ’’پاپین‘‘ کا استعمال دوسری بیماریوں جوڑوں کے درد، السر، جسم میں سوجن اور کینسر کی بیماریوں میں بھی مفید ہوتا ہے۔

پپیتہ کے پتوں میں شامل امائنو ایسڈ، معدنیات اور دوسرے قدرتی اجزاء جسم میں قوت پیدا کرتے ہیں اور مدافعتی نظام کو مضبوط کرتے ہیں۔ اس میں شامل وٹامن چہرے کی جھریوں کو بھی کم کرتے ہیں۔ پپیتہ کے پتوں میں موجود فائٹو کیمیکل خون میں شامل ہو کر نہ صرف جسم کے مدافعاتی نظام کو مضبوط کرتے ہیں بلکہ خون میں اِن کے شامل ہونے سے ایسے کیمیائی اجزاء اینٹی باڈیز پیدا ہوتی ہے جو ڈینگی وائرس پر حملہ کر کے اُس کو غیر موثر بنا دیتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔