چپس اور فرائز کھانے سے نوجوان بینائی سے محروم ہوگیا

میگزین رپورٹ  جمعرات 5 ستمبر 2019
طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کھانے کے معاملے میں نخرے کرنا آپ کی صحت کیلئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ فوٹو: فائل

طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کھانے کے معاملے میں نخرے کرنا آپ کی صحت کیلئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ فوٹو: فائل

ایک 17 سالہ نوجوان کی بینائی جانے کے بعد طبی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ کھانے کے معاملے میں نخرے کرنا آپ کی صحت کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

برطانیہ کے شہر برسٹل میں اس نوجوان کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں نے بتایا کہ لڑکا صرف آلو کے چپس اور کرسپس پر زندہ تھا اور اس کی آنکھیں تقریباً مکمل طور پر ناکارہ ہو چکی تھیں۔

یہ لڑکا پرائمری سکول سے فارغ ہونے کے بعد سے صرف فیرنچ فرائز، پرنگلز، ڈبل روٹی یا ایک آدھ ساسیج کھایا کرتا تھا۔ بیشتر ٹیسٹس اور طبی تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ اس لڑکے میں وٹامن کی شدید کمی ہے اور اس کا جسم موزوں خوراک کی کمی کی وجہ سے شدید متاثر ہوا ہے۔

٭کھانے میں نخرے

اس 17 سالہ نوجوان کی شناخت ظاہر نہیں کی جا سکتی لیکن اطلاعات کے مطابق وہ 14 برس کی عمر میں پہلی بار تھکن اور بدن ٹوٹنے کی شکایت کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس آیا تھا۔ اس وقت ان میں وٹامن بی 12 کی کمی کی تشخیص ہوئی اور ان کو خصوصی خوراک کے سپلیمنٹ لینے کا کہا گیا تاہم انھوں نے نہ تو اس نسخے پر عمل کیا اور نہ ہی پرہیز کیا۔

میڈیکل جریدے اینلز آف انٹرنل میڈیسن کی رپورٹ کے مطابق تین سال بعد انھیں برسٹل کے آنکھوں کے ہسپتال لے جایا گیا گیا کیونکہ وہ اپنی بینائی کھوتے جا رہے تھے۔ ہسپتال میں ان کا علاج کرنے والی ڈاکٹر ڈینیز اٹن نے بتایا: ’اس کی خوراک روزانہ لازمی طور پر مقامی فش اینڈ چپس شاپ سے آتی تھی۔ وہ پرنگلز جیسے کرسپس وغیرہ بھی کھاتا تھا جبکہ بعض اوقات وہ سفید بریڈ کا ٹکڑا یا کبھی کبھار گوشت کا ٹکڑا کھا لیا کرتا تھا۔ حقیقی طور پر وہ کبھی پھل یا سبزیاں نہیں کھاتا تھا۔‘

اس لڑکے نے اس کی وجہ بعض کھانوں کے رنگ و ذائقے سے اپنی بیزاری بتائی اور کہا کہ کرسپس اور چپس ہی ایسے کھانے تھے ’جسے کھانے کی رغبت ہوتی تھی۔‘

ڈاکٹر اٹن اور ان کے ساتھیوں نے بار بار جانچ میں نوجوان میں وٹامن بی 12 کی کمی پائی۔ اس کے ساتھ ان میں دیگر اہم وٹامنز اور مادنیات کی کمی پائی جن میں کانسہ، سلینیئم، اور وٹامن ڈی شامل تھے۔

تشویش ناک نتائج

یہ لڑکا نہ تو عمر اور قد کے لحاظ سے کم وزن تھا نہ ہی اس کا وزن زیادہ تھا، لیکن وہ پھر بھی خوراک کی شدید کمی کا شکار تھا۔ ’اس کی ہڈیوں میں مادنیات کی کمی ہو گئی تھی جو کہ اس عمر کے بچے کے لیے تشویش ناک بات تھی۔‘

بینائی کے حوالے سے وہ نابینا ہونے کے معیار پر پورا اترتا تھا۔ ڈاکٹر اٹن نے کہا: ’ان کی بصارت کے ٹھیک درمیان میں سیاہ دھبے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ ڈرائیو نہیں کر سکتے اور انھیں پڑھنے، ٹی وی دیکھنے، چہروں کا فرق معلوم کرنے میں سخت دشواری ہے۔ وہ اپنے آپ چل ضرور سکتے ہیں کیونکہ ان کو صرف پتلیوں کے کنارے سے نظر آتا ہے۔‘

اس نوجوان کو nutritional optic neuropathy  کی بیماری لاحق ہے اور اگر اس کی تشخیص جلد ہو جائے تو اس کا علاج ممکن ہے۔ لیکن اگر اسے پنپنے دیا جائے تو بصارت کے عصب یا پٹھے مر جاتے ہیں یا ہمیشہ کے لیے ناکارہ ہو جائیں گے۔

ڈاکٹر اٹن کا کہنا ہے کہ اچھی بات یہ ہے کہ اس قسم کے معاملات شاذ و نادر ہی پیش آتے ہیں لیکن انھوں نے والدین کو اپنے بچوں کی ’یہ کھانے اور وہ نہ کھانے‘ کی عادت پر ہوشیار رہنے اور ڈاکٹر سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔

جن والدین کو اس بارے میں تشویش رہتی ہے ان کے لیے ڈاکٹر اٹن کا مشورہ یہ ہے کہ ’چنندہ غذا کھانے کے معاملے میں زیادہ متفکر نہ ہوں بلکہ ہر کھانے کے وقت میں ایک دو نئی چیزیں متعارف کرائیں۔‘

انھوں نے کہا کہ متعدد وٹامن کی گولیاں کھانے میں کمی کو پورا کر سکتی ہیں لیکن صحت مند کھانے کا متبادل نہیں ہو سکتیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’بہتر تو یہی ہے کہ متوازن غذا کے ذریعے مختلف وٹامنز حاصل کیے جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی خاص وٹامن کی زیادتی بھی خطرناک ہو سکتی ہے جس میں وٹامن اے بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر ایٹن کا کہنا ہے کہ صرف سبزی خوروں کو بھی وٹامن بی 12 کی کمی کا خطرہ ہے جو کہ بینائی سے متعلق پیچیدگی پیدا کر سکتے ہیں کیونکہ ان کے کھانے میں گوشت نہیں ہوتے۔ انھوں نے کہا کہ اپنی غذا میں وٹامن بی 12 شامل کرنے کے لیے غذائیت سے پر خمیر شامل کریں۔

سبزی خوروں کے لیے وٹامن بی 12 کے ذرائع:

وٹامن بی 12 سے بھرپور ناشتے کے اناج

وٹامن بی 12 سے بھرپور شکر سے پاک سویا مشروبات

مارمائٹ جیسے خمیر کی کشیدہ چیزیں جس میں وٹامن بی 12 کا اضافہ کیا گیا ہو۔

برطانوی ڈائیٹک ایسو سی ایشن کی ترجمان اور ماہر غذا ریبیکا میک مینامن کا کہنا ہے کہ کئی وجوہات کی بنا پر محدود غذا کا استعمال ہوتا ہے جس میں کھانے کے نظام میں خرابی، ایلرجی، خود خیالی وغیرہ شامل ہیں اور اس کے لیے مخصوص جانچ کی ضرورت ہے۔

خیال رہے کہ سنہ 2016 سے برطانیہ کی حکومت نے اکتوبر اور مارچ کے دوران تمام لوگوں کو وٹامن ڈی کے متبادل لینے کا مشورہ دیا ہے جو کہ روزانہ دس مائکروگرام ہوتا ہے کیونکہ اس دوران وہاں کے لوگوں کو کھانے سے وافر مقدار میں وٹامن ڈی حاصل نہیں ہو پاتا ہے۔ ’سپلیمنٹ کے طور پر ملٹی وٹامن گولیاں پانچ سال تک کے تمام بچوں کے لیے تجویز کی گئی ہیں۔‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔