پولیس کا فرض، صرف خوف

شاہد کاظمی  جمعـء 6 ستمبر 2019
لوگوں میں پولیس کے حوالے سے ایک خوف کی فضا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

لوگوں میں پولیس کے حوالے سے ایک خوف کی فضا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

معاشرہ ترقی کرتا ہے جب انصاف کا بول بالا ہو۔ جب قانون کی نظر میں سب برابر ہوجائیں۔ جب عدالتیں وقت پر فیصلے کرنا شروع کردیں۔ لیکن شومئی قسمت کہ وطن عزیز میں اس وقت ان تینوں معاملات میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ انصاف آپ کی دہلیز پر ایک نعرہ تو ہے لیکن اس نعرے کی عملی سطح پر افادیت منتقل کرنے میں شائد ابھی کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں، کیوں کہ انصاف کی راہ میں سہولت سے زیادہ ہمارے ہاں روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔

قانون کی نظر میں سب برابر ہیں، یہ آپ کو اخبارات و تقاریر میں سننے کو تو بکثرت ملتا ہے لیکن حقیقی معنوں میں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ قانون طبقاتی تقسیم کے درمیان گھن چکر بنا ہوا ہے۔ عدالتیں وقت پر فیصلے کریں، اس بات کی یقین دہانی بھی ہمیں بسا اوقات کروائی جاتی ہے۔ لیکن ایسا ہونا نہ جانے کیوں ممکن نہیں ہوپا رہا اور ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ملزمان لقمہ اجل بننے کے بعد بے قصور ثابت ہوئے۔ نسلیں گزر جاتی ہیں کیسوں کے فیصلے نہیں ہوتے۔ بطور مجموعی یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ قانون و انصاف کی راہدرایوں میں راوی فی الحال چین کی صورتحال نہیں لکھ رہا۔

ریاست جن اُمور کی ذمے دار ہوتی ہے ان میں سے کوئی ایک ذمے داری بھی ایسی نہیں جس پر کہا جاسکے کہ وہ پوری طرح ادا ہوپا رہی ہے۔ اور افسوس کا پہلو یہ ہے کہ ریاست اس جانب مکمل توجہ بھی نہیں دے رہی۔ معاشرے میں امن عامہ کی صورت حال بحال رکھنا ہو، لوگوں کی جان و مال کی حفاظت کی ذمے داری ہو، جرائم پر قابو پانا اور مجرموں کو سزا کے مراحل تک پہنچانا ہو، ہر موقع پر پولیس کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ معاشرے کے افراد اور پولیس کے درمیان ہم آہنگی تو دور کی بات، رابطہ تک مشکل سے ناممکن کا سفر طے کررہا ہے۔ اور فیصلہ ساز حیران کن طور پر اس مسئلے کی جانب توجہ دینے سے گریزاں ہیں۔

ہم ایک صلاح الدین کو رو رہے ہیں۔ یہاں تو نہ جانے کتنے صلاح الدین معاشرتی بے حسی کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں۔ نقیب اللہ محسود ہو یا سانحہ ماڈل ٹاؤن، سانحہ ساہیوال ہو یا صلاح الدین کیس، دعویٰ ہمیشہ سننے کو ملتا ہے کہ اس سانحے کو ٹیسٹ کیس بنالیا جائے گا۔ لیکن نہ جانے یہ ٹیسٹ کیس کا نتیجہ کب آئے گا کہ جس سے پولیس کے رویوں میں بہتری سامنے نظر آنا شروع ہوجائے گی۔

آپ تھانے کی عمارت پر، قیدیوں کو لانے لے جانے والی گاڑی پر، پولیس گشت کی پک اپ پر اکثر ایک جملہ پڑھتے ہوں گے ’’نفرت جرم سے، مجرم سے نہیں‘‘۔ لیکن صلاح الدین کے معاملے میں ایسا کیوں نہیں ہوسکا؟

ہمارے معاشرے میں جرائم کی ایک بہت بڑی شرح رپورٹ نہیں ہوپاتی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پولیسنگ کا نظام تو چوکی سسٹم کے تحت گلی محلوں، گاؤں دیہات تک پہنچ رکھتا ہے، تو پھر ایسا کیوں ہے۔ لوگوں میں پولیس کے حوالے سے ایک خوف کی فضا ہے، جس کی وجہ سے وہ حق پر ہوتے ہوئے بھی پولیس کے پاس جانے سے کتراتے ہیں۔ صلاح الدین کی ٹوٹی ہڈیاں، اور ٹانکے لگے بدن کو ایک لمحہ سوچیے، کیا کوئی ذی عقل و شعور اپنے جائز کام کےلیے بھی پولیس کے پاس جانے کا سوچ بھی سکتا ہے؟

ایک بودی سی دلیل دی جاتی ہے کہ سب پولیس والے ایسے نہیں۔ اس جملے میں تھوڑی سی تبدیلی کرلینی چاہیے کہ اکثریت پولیس والوں کی ایسی ہی ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ برا ہونے یا کرپٹ ہونے کا ٹھپہ اپنے خاندان سے لگوا کر آئے ہیں، بلکہ ان کو یہ بوسیدہ نظام خراب کررہا ہے۔ قمیض شلوار پہنے ایک شخص گلی سے گزر رہا ہو، وہ پولیس کا بڑے سے بڑا عہدیدار ہو، اس کی چال میں ایک الگ معاشرتی پہلو ہوگا۔ لیکن وردی پہنتے ہی نہ صرف اس کا رویہ بدل جاتا ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو حاکم تصور کرنے لگتا ہے۔

گورے کا دیا ہوا پولیس سسٹم ابھی تک ہماری جان نہیں چھوڑ رہا۔ اصلاحات کے نام پر بہت پاپڑ بیلے گئے لیکن حقیقی معنوں میں اصلاح نہیں آسکی۔ اور لوگ خوف کی ایسی تنگ گلی میں چلے گئے کہ پولیس پر سے اُن کا اعتماد اٹھ گیا۔

پولیس کے نظام میں بنیادی خامی ’اوئے‘ سے ’آپ‘ تک ہے۔ پولیس کا جوان یہ سوچنے کے بجائے کہ وہ عوام کا نوکر ہے، یہ سمجھنا شروع کردیتا ہے کہ اس میں ایسے سرخاب کے پر لگے ہیں کہ وہ عوام سے اعلیٰ و ارفع ہوگیا ہے۔ یہ سوچ جب تک ان کے ذہنوں سے کھرچ کر نہیں نکالی جائے گی، صلاح الدین جیسے سادہ لوح افراد اس نظام کی بھینٹ چڑھتے رہیں گے۔

صلاح الدین نے اس نظام کو زبان چڑائی تھی۔ وہ چڑا رہا تھا اس نظام کو کہ تم تبدیل کیوں نہیں ہورہے۔ اس نے اس نظام سے سوال کیا تھا کہ تم نے اتنی خرابی کہاں سے سیکھی؟ یہ عام افراد کی سانسیں چھیننے اور بڑے مجرموں سے پہلوتہی کرنا تم نے کہاں سے سیکھا؟ اس کے سوال میں کچھ ایسا نہیں تھا کہ اس کی زبان بند کردی جاتی۔ لیکن یہ نظام شاید وطن عزیز کو ایسے چمٹا ہوا ہے کہ اسے یہ سوال گوارا نہیں ہوا۔ اس نے صلاح الدین کو سبق سکھانا تھا، اور سبق سکھا دیا۔ نظام کو شاید سوال کرنا پسند نہیں۔ اسی لیے اس نے حدِ ادب کا نعرہ لگاتے ہوئے زباں بندی کے احکامات صادر فرما دیے۔ نعرہ زباں زدِ عام میں تھوڑی سی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ’’پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی‘‘ کے بجائے ہونا چاہیے ’’پولیس کا ہے فرض، صرف خوف‘‘۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شاہد کاظمی

شاہد کاظمی

بلاگر کی وابستگی روزنامہ نئی بات، اوصاف سے رہی ہے۔ آج کل روزنامہ ایشیئن نیوز اور روزنامہ طاقت کے علاوہ، جناح و آزادی کے لیے بھی کالم لکھتے ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ بلاگر سے ان کے فیس بک پیج www.facebook.com/100lafz پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔