کشمیر پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا

ایڈیٹوریل  جمعـء 6 ستمبر 2019
فوج کے ترجمان نے ایک حقیقت بیان کی کہ پاکستان سفارتی کوششوں سے کشمیر پر دنیا کے ضمیر کو جگا رہا ہے۔ فوٹو:ریڈیو پاکستان

فوج کے ترجمان نے ایک حقیقت بیان کی کہ پاکستان سفارتی کوششوں سے کشمیر پر دنیا کے ضمیر کو جگا رہا ہے۔ فوٹو:ریڈیو پاکستان

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے موجودہ حالات خطے کے امن کے لیے بڑا خطرہ ہیں، بھارت خطے میں نئی جنگ کے بیج بو رہا ہے، کشمیر پر کوئی سودے بازی یا سمجھوتہ نہیں ہو گا، آخری گولی، آخری سپاہی، آخری سانس تک کشمیریوں کے لیے لڑیں گے، ہماری جدوجہد صرف پانچ اگست کے اقدامات کی واپسی تک محدود نہیں، تنازعات کے حل کے لیے جب تمام آپشنز ناکام ہوجائیں تو جنگ ناگزیر اور مجبوری بن جاتی ہے۔

معیشت اتنی بھی کمزور نہیں کہ جنگ نہ لڑ سکیں، جنگ غیرت اور عزت کے لیے لڑی جاتی ہے، پیسے کے لیے نہیں، خالی ہاتھ لڑنا پڑا تو خالی ہاتھ لڑیں گے۔ یہاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے بھارت کی جانب سے ایٹمی ہتھیار پہلے استعمال کرنے کی دھمکیوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پہلے کے بعد دوسرا بھی آتا ہے اور بھارت یاد رکھے پاکستان کے پاس سیکنڈ اسٹرائیک صلاحیت ہے۔

کشمیر کی تشویش ناک صورت حال،انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور خطے کو لاحق بھارت کے جنگی جنون کے ہمہ جہتی خطرات کے معروضی اور زمینی حقائق کے سیاق وسباق میں پاک فوج نے پاکستان کی ایٹمی جنگ میں پہل کاری پر واضح اور دوٹوک پیغام دنیا کو دے دیا۔

ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غفور نے ایک غیر مبہم انداز میں بھارت کے پالیسی سازوں، جنگجویانہ بیان بازی اور بڑھکوں میں مصروف وزرا اور میڈیا پنڈتوں کو بتادیا ہے کہ حملہ بھارت کرے یا اسرائیل، جواب دیں گے،بھارت ’’ نو فرسٹ یوز‘‘ کی پالیسی بدلتے ہے تو بدل لے،ہمارے پاس سیکنڈ اسٹرائیک کی صلاحیت ہے ،کشمیر کے لیے کسی بھی انتہا تک جائیں گے۔

چاہے کوئی قیمت ادا کرنی پڑے، پاکستان نے یہ بھی بتادیا کہ خطے میں عالمی طاقتوں کے مقاصد پاکستان کو نظر انداز کرکے پورے نہیں ہوسکتے۔ عسکری قیادت نے بھارت کے جنگی غرور اور کشمیر پر غاصبانہ قبضے کے مکروہ عزائم کے پیش نظر مودی حکومت کے تکبر کا جواب صائب عسکری لب ولہجے اور غیر متزلزل سپاہیانہ طرز کلام میں دیا ہے ، اس میں مصلحت آمیز ڈپلومیسی نہیں، خطے کی عسکری جدلیات کی اخذکردہ روشنی اور قومی امنگوں سے ہم آہنگ پاک فوج کے ڈاکٹرائن کی رہنمائی میں طے کردہ وہ اصول ہیں جن میں ملک کی جغرافیائی وحدت ، آزادی ، قومی سلامتی ،عوام کے مستقبل کے خواب اور دشمنوں کے مذموم عزائم سے نمٹنے کے حوصلوں کی للکار شامل ہے، اور اس میں کوئی چیز گول مول لگی لپٹی نہیں ہے۔

فوج کے ترجمان نے ایک حقیقت بیان کی کہ پاکستان سفارتی کوششوں سے کشمیر پر دنیا کے ضمیر کو جگا رہا ہے، ہم نہیں چاہتے کہ علاقائی اور عالمی امن خطرے میں پڑے اس لیے عالمی طاقتیں اپنا کردار ادا کریں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے پاکستان کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کی باتوں کو مسترد کردیا اور اسے ففتھ جنریشن وار کا حملہ قرار دیا اور کہا اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے پروپیگنڈے کا مقصد کڑے وقت میں قوم کو تقسیم کر کے کمزور کرنا ہے۔

ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ہمارے خطے میں عالمی طاقتوں کے مفادات ہیں،  بھارت میں ہٹلر کے پیروکار نریندر مودی کی حکومت ہے، ہمارا خطہ طاقت کی عالمی کشمکش کا مرکز ہے، بھارت کو پتہ ہے کہ پاک فوج مغربی سرحد سے فارغ ہو رہی ہے، اس لیے وہ خطے میں نئی جنگ کا بیج بو رہا ہے، بھارت چاہتا ہے کوئی ایسا کام کریں پاکستان بھرپور جواب نہ دے سکے۔

مودی حکومت نہرو کے نظریے سے منہ موڑ چکی ہے اور نازی نظریے پر قائم ہے، یہ وہی نظریہ ہے جس نے گاندھی اور گجرات میں مسلمانوں کو قتل کیا، بھارت میں مسلم اور دیگر اقلیتیں ہندو انتہا پسندی کی سوچ کی شکار ہیں، پاکستان نے پچھلے بیس سال میں دہشت گردی کے ناسور کو ختم کیا، اس دوران بھارت نے ہماری توجہ ہٹانے کے لیے مشرقی سرحد پر بلااشتعال کارروائیاں کیں۔

کشمیریوں کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ ہماری سانسیں ان کے ساتھ چلتی ہیں، بھارت کو27 فروری یاد رہنا چاہیے، اسٹرٹیجک صلاحیت ڈیٹرنس کے لیے ہوتی ہے اس پر ہر بندہ بات نہیں کرسکتا، نہ ہی یہ پالیسی پریس کانفرنسوں اور سیاسی جلسوں میں بتائی جاتی ہے۔

آرمی چیف جنرل قمر باجوہ مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہتے تھے، یہ تمام باتیں من گھڑت ہیں کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے 125 جرنیلوں کی پرموشن رکی ہے، یہ سب یوٹیوب کی آوازیں ہیں، ایسا کچھ نہیں ہے، ایک کے بدلے ایک ہی پرموشن ہوتی ہے،ہم ایک پیشہ ور فورس ہیں۔

پاک ایران سرحد کے حساس علاقے میں بھی باڑ نصب کرنے کا اصولی فیصلہ ہو چکا ہے۔سفارتی سطح پر پاکستان کشمیر کا معاملہ 50 سال بعد سلامتی کونسل میں لے کر گیا جو بڑی کامیابی ہے۔ بھارت حکومت کی خواہش ہے کہ وہ کچھ اس طرح دباؤ بڑھائے کہ مقبوضہ کشمیر میں لوگ مشتعل ہوں جسے وہ دہشتگردی کا نام دے۔ پاکستان اب دھوکے میں نہیں آئے گا کیونکہ کشمیر میں اس طرح کی کارروائی کا پاکستان متحمل نہیں ہوسکتا۔ پریس کانفرنس کے بعد صحافیوں سے مزید گفتگو کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ اسامہ بن لادن کے حوالے سے امریکا کو پہلی لیڈ پاکستان نے فراہم کی تھی۔

ٹیلیفون کال کو ٹریس کر کے امریکا سے تفصیلی انٹیلیجنس شیئرنگ کی، لیکن امریکا نے مشترکہ آپریشن کے بجائے خود اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کیا۔ عمران خان نے امریکا میں اسی تناظر میں ہی بات کی، جتنی کشمیریوں نے تکالیف اٹھائیں ان سے دوگنا بھارت کو اٹھانا پڑیں گی۔

خطے کی تزویراتی ڈائنامکس اس امر کا تقاضہ کرتی ہیں کہ قوم کو سیاسی و عسکری پیج پر یک دل ویک زبان دیکھنے کی متمنی علاقائی طاقتیں بھارتی جنگجویانہ خیالات ،بیانات اور اقدامات کے بین السطور میں زمینی حقائق کی جستجو بھی کریں، دیکھیں کہ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ کیا کہتے ہیں، ان کی پہلی دھمکی ایٹمی جنگ میں پہل نہ کرنے کی اسٹرٹیجی میں مناسب موقع کی تلاش سے مشروط تھی۔

ان کے ڈھکے چھپے عزائم آزاد کشمیر کے بارے میں میڈیا میں الم نشرح ہوچکے، ان کاکہنا ہے کہ پاکستان سے بات چیت اب آزاد کشمیر پر ہوگی، بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت کشمیر کا محاصرہ کرتے ، الم ناک انسانی صورتحال پیدا کرتے ہوئے لاکھوں کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کرچکے ہیں، مگر ان کے لبوں پر زہر خند و معنی خیز تبسم اورتشدد سے گریز کے مضحکہ خیز ترانے ہیں، وہ اپنے تازہ انٹرویوز میں فرماتے ہیں کہ بھارت کو violence کی ضرورت نہیں اس سے کشمیریوں کا نقصان ہوگا ،بھارتی سٹیبلشمنٹ کا تو کچھ نہ بگڑے گا۔ تاہم سوالات کے جواب میں وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو ہم سے جو چاہیے ہم کرنے کو تیار ہیں ، وہ امن چاہتا ہے ، امن کی بات کریں گے۔

محدود جنگ چاہتا ہے ، اس کے لیے بھی تیار ہیں، ایٹمی جنگ؟ چلیے ہم تیارہیں۔ خدا کاشکر ہے کہ ہمارے دو برادر ملک کے وزرائے خارجہ پاکستان کو کشمیر پر مایوس نہیں کریں گے،چیلنجز سے نمٹنے میں مدد کریں گے۔سعودی اور اماراتی وزرائے خارجہ کی ملاقات خوش آیند ہے۔ یہ کیا دوغلا طرز عمل اور کس قسم کی عسکری اخلاقیات کا عمل ہے کہ ایک خود دار قوم کو ظلم کی چکی میںپیس کر جنرل بپن راوت امن،صلح اور جنگ و بربادی کی باتیں کرتے ہیں۔

انھوں نے امن کے پیرائےpeaceful gestureکی بات کی، یعنی منہ میں رام رام بغل میں چھری، بپن راوت امن ، رواداری اور عدم تشدد کا بھاشن دیتے ہیں اور دوسری طرف عالمی رائے عامہ کو دھوکا دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان تو ایف اے ٹی ایف کے دباؤ میں ہے، اس پر معاشی اقدامات کا بوجھ ہے، وہ کشمیریوں کے لیے آپشن یہ تجویز کرتے ہیں کہ ہتھیار پھینک دیں اور امن کو ایک چانس دیں، مگر کہاں ، جہنم زار وادی کشمیر میں !! اس درجہ سفاکانہ ماحول میں کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم اورانسانیت کودرپیش خطرات کا وہی حل اور بیانیہ ہی لاریب و صائب ہے جس کا بے دھڑک اظہار فوجی ترجمان نے کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔