پاکستان کرکٹ میں بڑے ناموں کی حاکمیت

مزمل سہروردی  جمعـء 6 ستمبر 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

پاکستان کرکٹ بورڈ نے مصباح الحق کو قومی کرکٹ ٹیم لیز پر دے دی ہے۔ وہی چیف سلیکٹر ہوںگے وہی ہیڈ کوچ ہوںگے۔ نہ وہ کسی کو جوابدہ ہوںگے اور نہ ہی کسی کو ان سے سوال کرنے کی اجازت ہو گی۔

یہ درست ہے کہ وقار یونس باؤلنگ کوچ ہوں گے لیکن سب کو سمجھ آرہی کہ وقار یونس مصباح الحق کے ماتحت ہوںگے۔ اب مصباح الحق کی مرضی ہو گی کہ وہ وقار یو نس سے کتنا کام لینا چاہتے ہیں۔ کیا وقار یونس ایسے چل سکیں گے۔ یہ الگ بات ہے۔

مصباح الحق کی بطور کپتان کامیابیوں پر کسی کو ابہام نہیں ہے۔ ان کے دور میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم آج سے بہت بہتر حالت میں تھی۔ وہ ایک دفاعی کپتان سمجھے جاتے تھے،جو جیتنے سے زیادہ ہارنے سے بچنے پر یقین رکھتاہے ۔ ہار سے بچتے بچتے اگر جیت مل جاتی تو دبوچ لیتے تھے۔ وہ شریف آدمی ہیں، کم گو ہیں۔ کرکٹ میں انھوں نے بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ان کی کامیابیوں میں اس وقت کے کرکٹ بورڈ کو مائنس نہیں کیا جا سکتا۔ کہیں نہ کہیں اس وقت کے کرکٹ بورڈ اور اس کی پالیسیوں کو بھی سراہنا ہوگا۔

نئے پاکستان کے کرکٹ بورڈ کی اب تک کی کارکردگی نہایت ناقص رہی ہے۔ ورلڈ کپ میں ناقص کارکردگی اب بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ سب کو امید تھی کہ نئے پاکستان میں اور کچھ بہتر ہو یا نہ ہو لیکن کرکٹ ضرور بہتر ہو جائے گی لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہو سکا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے اب تک کے فیصلوں کی کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی۔ پہلے تو احسان مانی خود بھی برطانیہ سے ہی آئے ہیں۔

وہ پاکستان کرکٹ سے کوئی خاص وابستہ نہیں تھے۔ اس کے بعد وہ اپنے ساتھ چیف ایگزیکٹو کو بھی برطانیہ سے ہی لے آئے۔ عوام اور میڈیا کو یہ سمجھانے میں بہت محنت کرنی پڑی کہ ان کا پاکستان سے بہت گہرا تعلق ہے۔ کئی سال برطانیہ میں رہنے کے باجود وہ پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ کو سمجھتے ہیں۔ یہاں کے لوگوں کو جانتے ہیں۔ وہ پاکستان کی کرکٹ کو چلا سکتے ہیں۔ ورلڈ کپ کی شکست کے بعد کوچ اور چیف سلیکٹر کو گھر بھیج دیا گیا ہے۔ یہ کوچ اور چیف سلیکٹر بھی اسی کرکٹ بورڈ نے لگائے تھے جس نے مصباح الحق کو کرکٹ ٹیم کا کپتان بنایا تھا۔

بہر حال نئے پاکستان کے نئے کرکٹ بورڈ کی نئی انتظامیہ نے پاکستان کرکٹ کے قومی ڈومیسٹک ڈھانچہ میں انقلابی تبدیلیوں کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ کرکٹ بورڈ کا پرانا آئین بھی بدل دیا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں سب کچھ بدلا ضرور جا رہا ہے۔ لیکن چہرے پرانے ہیں۔ پرانے چہروں سے نیا کام لینے کی کوشش میں یہ کرکٹ بورڈ کتنا کامیاب ہو سکتا ہے، یہ ایک سوال ہے۔ لیکن یہ بھی تو ایک مسئلہ ہے کہ برطانیہ سے کتنے نئے چہرے لائے جا سکتے ہیں۔ باقی تو یہیں سے لینے تھے۔ مجبوری ہے۔

پاکستان کرکٹ کا سب سے بڑا مسئلہ سفارشی کلچر ہے۔ عمران خان کی زبان میں ریلو کٹے کھلائے جاتے ہیں۔ جب تک ہم ریلو کٹوں اور پھٹیچر کرکٹرز سے جان نہیں چھڑائیں گے تب تک جیت ممکن نہیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ورلڈ کپ کے ٹیم سلیکشن پر ساری دنیا حیران تھی۔ جن کو سلیکٹ کیا گیا آخری وقت میں ان کو تبدیل کیا گیا۔ پہلے جن کو نظر انداز کیا گیا بعد میں انھیں سلیکٹ کیا گیا۔ شعیب ملک کے کھلانے کی کسی کو سمجھ نہیں تھی۔ لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ ہم نے ہمیشہ اسی کو کپتان بنایا ہے جس کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی تھی۔

مصباح الحق کو اتنی ساری ذمے داریاں دینے پر بہت تنقید ہو رہی ہے۔ لیکن جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تب بھی مصبا ح الحق بورڈ کی آنکھ کا تارہ تھے۔ ویسے بھی وہ کوئی برطانیہ سے نہیں آئے ہیں۔ اسی مٹی کے بیٹے ہیں۔ لیکن انضمام الحق بھی اسی مٹی کے بیٹے ہیں۔ جاوید میانداد بھی اسی مٹی کے بیٹے ہیں،وہ کیوں ناکام ہوئے۔ وقار یونس بھی اسی مٹی کے بیٹے  ہیں، سب کو نکالا گیا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ میں نہ تو کسی کو عزت سے لانے کا رواج ہے اور نہ ہی کسی کو عزت سے گھر بھیجنے کا رواج ہے۔ اگر کل بھی کرکٹ بورڈ میں بادشاہت تھی تو آج بھی بادشاہت ہے۔ اگر کل بھی بند کمروں میں پسند و ناپسند کی بنیا دپر فیصلے ہوتے تھے۔ تو آج بھی بند کمروں میں فیصلے ہو تے ہیں۔

اگر کل بھی پرچی چلتی تھے تو آج بھی سر عام پرچی چل رہی ہے۔ مصباح الحق کے معاوضہ پر اعتراضات جائز ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ میں پر کشش معاوضوں پر کوئی مربوط پالیسی نہیں ہے۔ کوئی قواعد نہیں۔ پھر پی ایس ایل کے مفادات کی الگ کہانی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ مصباح الحق کو غیر معمولی طریقے سے نوازا جا رہا ہے۔ مجھے شائد مصباح الحق کی صلاحیتوں پر کوئی ابہام نہیں۔ لیکن جس طریقہ کار سے انھیں لایا جا رہا ہے۔

اور جس کی قسم کی مراعات کی داستانیں باہر آرہی ہیں۔ اس پر اٹھنے والے سوالات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ انٹرنیشنل کرکٹ کی پاکستان میں واپسی خوش آیند ہے۔ لیکن ہم آسان ٹیموں کے ساتھ اپنی دھاک بٹھا لیتے ہیں۔ اور مشکل ٹیموں کے سامنے ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ مصباح الحق بھی متحدہ عرب امارات کے شیر ہی مشہور تھے۔

پاکستان کرکٹ میں جب تک سلیکشن کا نظام شفاف نہیں ہوگا۔ تب تک کرکٹ کی ترقی ممکن نہیں۔ جب تک ڈومیسٹک کرکٹ کی کارکردگی کو سلیکشن سے مشروط نہیں کیا جا ئے تب تک بڑے کرکٹرز ڈومیسٹک کرکٹ نہیں کھیلیں گے۔ اگر ڈومیسٹک کرکٹ کو ترقی دینی ہے تو سب کو اسے کھیلنا ہوگا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ بڑے کرکٹرز کاؤنٹی کھیلیں۔ اور ہماری ڈومیسٹک کرکٹ ترقی کر لے۔ آپ جتنے مرضی نظام لے آئیں۔ ڈیپارٹمنٹ کی جگہ زونز لے آئیں۔ لیکن جب تک سب نہیں کھیلیں گے نظام چل نہیں سکتا۔

کیا مصباح الحق اس بلا شرکت غیرے کی حکومت میں میرٹ کا کوئی نظام لا سکیں گے۔ بظاہر ممکن نہیں۔ فرد واحد کی حکومتوں کا زمانہ چلا گیا۔ چیک اینڈ بیلنس ضروری ہے۔ دوسری رائے کی بھی بہت اہمیت ہے۔ مجھے لگ رہا ہے کہ مصبا ح الحق نے شاید وقتی طور پر ایک اچھی ڈیل بنا لی ہے۔ پیسے بھی اچھے اور اختیار بھی مکمل ۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اس سے انھیں کوئی نیک نامی ملے گی۔ وہ ڈریں اس وقت سے جب انھیں بھی جاوید میانداد، انضمام الحق اور وقار یونس کی طرح گھر بھیجا جائے گا۔

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ انضمام الحق کرپٹ تھے نا اہل تھے۔ لیکن آپ دیکھیں فرد واحد کی حکومت کا نظام نہیں چل سکتا۔ اکیلا آدمی عقل کل نہیں ہو سکتا۔ افسوس کی بات ہے کہ پی سی بی سلیکشن کا کوئی مربوط نظام نہیں لا سکا۔ انھوں نے ماضی کے نظام کو ہی نئے چہرے کے ساتھ آگے بڑھایا ہے۔ بڑے ناموں کی حاکمیت سے آگے برطانیہ سے آنے والی ٹیم  بھی نہیں سوچ سکی۔ کل بھی اس نظام میں بڑے نام ناکام ہو گئے تھے۔ آج بھی ناکام ہو ںگے۔

یہ درست ہے کہ پاکستان کرکٹ میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ لیکن اس ٹیلنٹ کو آگے لانے کا نظام نہیں ہے۔ بہت سے ٹیلنٹ اندھیرے راستوں میں اپنی موت آپ مر جاتا ہے۔ فرسٹ کلاس کا میچ کھیلنا مشکل ہے۔ اس کے لیے بھی سفارش چاہیے۔ نیچے کلب کرکٹ میں بھی چھوٹے چھوٹے فرعون بیٹھے ہیں۔جب تک ہم نیچے سے اوپر تک سلیکشن کا کوئی شفاف نظام نہیں بنائیں گے۔ تب تک کرکٹ ٹھیک نہیں ہو سکتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔