آدمی غنیمت ہے

رفیع الزمان زبیری  جمعـء 6 ستمبر 2019

راشد اشرف جنھوں نے زندہ کتابوں کے سلسلے میں سید انیس شاہ جیلانی کی شخصی خاکوں کی کتاب ’’آدمی غنیمت ہے‘‘ شایع کی ہے، فرماتے ہیں کہ انیس شاہ طبیعت کے من موجی تھے۔ تمام عمر چومکھی لڑتے رہے۔ بہت کم لوگوں سے ان کی بنی۔ ناراضگیاں مول لیتے رہے، مگر اپنی تحریروں میں جو لکھنا ہوتا تھا وہ لکھتے رہے۔

انیس شاہ نے جو خاکے لکھے ہیں وہ ان لوگوں کے ہیں جن کو انھوں نے قریب سے دیکھا تھا۔ وہ لکھتے ہیں ’’خاکہ لکھنے والے کا اپنا ضمیر ہوتا ہے، خمیر بھی۔ میں نے یہ خاکے بے ساختہ لکھے ہیں۔ مردوں کے کفن میں نے نہیں پھاڑے۔ تاہم ضرورت پڑے تو اس میں قباحت بھی کیا ہے۔ زندوں سے خوفزدہ میرا دل ہوسکتا ہے، قلم گردن ناپنے میں بہت بے باک ہے۔ خدائی فوجدار بننا مجھے منظور نہیں۔اس کے باوجود میں تو یہی کہوں گا کہ جو کچھ کتاب دل پر مرقوم ہے یہ اس کا پاسنگ بھی نہیں۔‘‘

انیس نے ’’مریض غم کا قصہ مختصر‘‘ کے عنوان سے عبدالمجید حیرت شملوی کا خاکہ لکھا ہے۔’’طویل علالت نے مرحوم کے قوی جسمانی کو تو مفلوج کردیا تھا لیکن دماغی توانائی کا کیا کہنا تقریروتحریر،شعر وادب میں کہیں جھول نظر نہیں آتا۔وہ اپنی ذہنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے ہمیشہ منتظر و مضطرب رہے۔ زندگی سے فرار ان کی سرشت میں قطعاً نہیں تھا۔ وہ اس زندگی کو زندگی سمجھتے تھے جو ہر دم رواں، پیہم دواں رہتی ہے۔ انھوں نے اسے پیمانہ روزوفردا سے کبھی نہیں ناپا۔‘‘

انیس لکھتے ہیں ’’عنفوان شباب میں حیرت شملوی ایک ہندو دوشیزہ کی زلف گرہ گیر کے اسیرہوئے۔ چوری چھپے ملاقاتوں میں بات ہجرووصال تک پہنچی۔ سودا جیون ساتھی بنا لینے کا سوار ہوا۔ باپ سے ڈرتے تھے، ماں سے کہا۔ انھوں نے کہا ’’بیٹا! شادی تو میں کرادوں گی پہلے یہ بتاؤ تم دونوں عفت مآب بھی ہو؟‘‘ حضرت بغلیں جھانکتے ہوئے گھر سے نکل گئے۔پھر اس دوشیزہ سے شادی کا نام نہ لیا۔‘‘

نیازفتح پوری سے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے انیس شاہ لکھتے ہیں ’’میں سوچ رہا تھا کہ اس آفت جاں سے سامنا کیوں کر ہوگا۔ قوت گویائی سلب ہوکر نہ رہ جائے۔ میری اوقات ایک قطرے سے بڑھ کر نہ تھی جسے سمندر میں ٹپکایا جانے والا تھا۔ خدشۂ فنا سے مضطرب کیا۔ مجھے حیرانی ہوئی میری ہستی ناپائیدار ثابت نہ ہوئی۔ مرحوم نے چشمے کی اتھاہ گہرائیوں اور چور نظروں سے مجھے دیکھا۔ چہرہ بڑھاپے کی وجہ سے لٹک گیا تھا، کم گوئی نے سنجیدہ اور با رعب بنا دیا تھا، تھوڑی بہت ہیبت بھی ٹپکتی تھی مگر جب بولتے تو یہ دبیز نقاب خود بخود الٹ جاتی۔ لہجے میں لگاوٹ تو نہیں لاگ ضرور تھی۔ بڑی محبت اور تپاک سے ملے۔‘‘

انیس شاہ قاضی احسان احمد شجاع آبادی کا نقشہ کھینچتے ہیں۔ ’’ نکلتا ہوا قد ،کتابی چہرہ ، غالب کی زبان میں چمپئی رنگ ، چاندی سی مشت بھر سے ذرا زیادہ بڑی چھدری داڑھی، شرعی کترواں لب، ناگوں کی طرح بل کھاتی ہوئی بنی سنوری زلفیں، سرخ ڈورے پڑے ہوئے چھوٹی چھوٹی جگر جگر کرتی ہوئی خمار آلود سرمئی آنکھیں جن میں ساری مستی شراب کی سی تھی۔ اندازگفتگو ایسا پیارا کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ بے اختیار منہ چوم لینے کو جی چاہے۔ وہ تنگ نظری جہل اور تعصب سے کوسوں دور تھے۔ وسیع النظر، وفا شعار، ہنس مکھ، دلیر اور دبنگ آدمی تھے۔ اچھا کھاتے، اچھا پہنتے، کشادہ دل، ہاتھ کھلا اس لیے نذرانے باتردد قبول کرلیتے تھے۔‘‘

انیس شاہ نے ’’عظمتِ رفتہ‘‘ کے مصنف ضیا الدین احمد برنی کا خاکہ ’’مجنوں جو مر گیا ہے‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے۔ لکھتے ہیں ’’برنی حیات انسانی کے روشن پہلو سامنے رکھنا پسند کرتے تھے تاکہ اصلاح حال کا سلسلہ دراز سے دراز ہوتا رہے۔ کہتے تھے علی برادران کی بڑی ہی ناگفتہ باتیں میرے علم میں ہیں لیکن میں قلم بند نہیں کروں گا۔ ذاتی گفتگو میں وہ زبان دراز ضرور تھے لیکن قلم ہاتھ میں لیتے ہی لب ولہجہ مصالحانہ بلکہ مصلحانہ ہوجاتا تھا۔‘‘

سید انیس شاہ کا لڑکپن کا زمانہ کراچی میں رئیس احمد جعفری کے گھر میں گزرا۔ یہ ان کے والدکی اردو سے گہری لگن تھی کہ انھوں نے بیٹے کو جعفری صاحب کے حوالے کردیا تھا۔ اس زمانے کا ذکرکرتے ہوئے انیس لکھتے ہیں۔ ’’ابا نے مجھے جعفری صاحب کے گھر ڈال تو دیا تھا مگر میرے لیے یہ تھی بڑی آزمائش۔ ڈھنگ سے اردو بولنا تو کہاں، سمجھنے میں بھی اچھی خاصی دشواریوں کا سامنا تھا۔ میری عمر ہی کیا تھی، یہی کوئی دس بارہ برس کی۔‘‘

جعفری صاحب کی ادبی صلاحیتوں کا ذکرکرتے ہوئے سید انیس شاہ جیلانی لکھتے ہیں۔ ’’ان کے قلم میں بے پناہ روانی تھی۔ اسلوب بیان سادہ، پرکار نہیں۔ جو کام آپ ایک دن میں کریں گے وہ ایک گھنٹے میں کردیں گے اور ایسا کہ آپ کوکہیں انگلی رکھنے کی حسرت رہ جائے گی۔ ہر موضوع پر لکھ سکتے تھے اور لکھا۔ رات گئے تک تین تین چارچار بجے تک لکھتے میں نے دیکھا۔ شب بیداری معمول بن گئی تھی۔ ترجمہ انگریزی ہو یا عربی بے تکان کرتے تھے۔‘‘ حلیہ یہ بیان کرتے ہیں۔ ’’رنگ کھلتا ہوا گندمی، کسی قدر لمبا چہرہ، کھڑی ناک، جٹی ہوئی بھنویں، دھنسی ہوئی چھوٹی چھوٹی آنکھیں، ہونٹ پتلے، دہانہ تنگ۔ قد نکلتا ہوا تھا۔‘‘

غلام رسول مہر کے خاکے کا عنوان ’’لاہور کا ادبی قطب‘‘ ہے۔ انیس شاہ لکھتے ہیں۔ ’’مولانا غلام رسول مہر ایک ماہر سیاست دان تھے۔ پاکستان کس ڈھب سے وجود میں آنا چاہیے اس منصوبے کا خاکہ انھوں نے اڑایا نہیں بنایا تھا۔ چونکیے نہیں۔ یہ واقعہ ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے کہ قیام پاکستان کے بعد ہم نے ان کی ذہنی اور عملی صلاحیتوں سے کام لینا ضروری نہیں سمجھا۔ وہ بڑے عالی ظرف لوگ تھے، ہوا کا رخ دیکھ کرکیا چلتے، خانہ نشیں ہوگئے۔ شعرگوئی ان کا میدان نہ تھا۔ ادب وصحافت میں آئے اور اردو اداریہ نگاری کو معزز و محترم بنادیا۔ انگریزی، عربی، فارسی، اردو چاروں زبانوں پر یکساں قدرت تھی۔ بہترین مترجم تھے۔‘‘

ایک طویل مضمون میں انیس نے اپنے والد، سید مبارک شاہ جیلانی کا ذکر کیا ہے۔ لکھتے ہیں ’’زندگی کی راہیں انھوں نے خود تلاش کرلی تھیں۔ مقصد بھی متعین کیا اور وہ یہ تھا کہ اردو میں لکھنے کی استعداد پیدا کریں، کرلی۔ کتب خانہ قائم ہوجائے، وہ بھی ہوا۔ ایک سہ ماہی جریدہ بھی کتب خانے کا نقیب ہو، یہ تمنا بھی پوری ہوئی۔‘‘

مبارک جیلانی لائبریری کا سنگ بنیاد کوئی اور کیا رکھتا، خود ہی رکھا۔ آگے چل کر یہ ’’مبارک اردو لائبریری‘‘ بن گئی۔ یہ بیٹھک بھی تھی اور دارالمطالعہ۔ اب بھی ہے۔ انھیں اچھی کتابوں کی جستجو رہتی تھی۔ خرید نہ سکیں تو بھی دیکھ لینا ایک سعادت سمجھتے تھے۔

سید مبارک شاہ کے مزاج اور طبیعت کا ذکر کرتے ہوئے انیس شاہ لکھتے ہیں ’’صبر وضبط کا پیکر تھے۔ بسا اوقات ان کی بے زبانی زبان بن جاتی۔ اسراف سے بچتے تھے، بلا کے کفایت شعار تھے۔ ان کے مزاج میں عاجزی اور انکسار تھا۔ عجز و تواضع کا مرقع تھے۔ خط بے حد پاکیزہ تھا۔ اسلوب بیان سادہ اور پرکار۔ شاعرانہ مبالغہ آرائی کا ترشح بس ہلکا سا۔ لکھتے وہ بہت کم تھے۔ تحریروں میں ندرت اور جدت پائی جاتی تھی۔ سیکڑوں اشعار زبان پر تھے۔ اشعار ایک خاص ترنم سے گنگناتے تھے۔ تعلیم مکتبی نہیں مسجدی تھی۔ طبیعت میں فطری آزادی کا جوہر بے پناہ تھا۔ خوش آواز تھے، اچھی آواز پر جان دیتے تھے۔ جامہ زیبی تھی، جو پہن لیا وہ سج گیا۔

انیس شاہ کی جولائی طبع اور روانی قلم رئیس امروہوی کے خاکے میں نظر آتی ہے۔ کہنے کو کچھ چھوڑا نہیں۔ خاکے کا عنوان ہے ’’میں ترا دشمن نظر آنے لگوں، کہیں ایسا نہ ہو‘‘۔ لکھتے ہیں ’’حضرت رئیس امروہوی کے دادا پردادا تو شیخ طریقت تھے، یہ بھی کسی سے کم نہیں۔ تصوف سے خاص مناسبت ہے۔ میلان شعر گوئی کی طرف زیادہ ہے۔ الفاظ و معانی ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ بادل سے چلے آتے ہیں۔ جب چاہا، جہاں چاہا بٹھا دیا، سجا دیا، لڑا دیا۔ ممولے کو شہباز سے لڑانے کا فن وہ خوب جانتے تھے۔ شعر کہنا ان کے لیے اتنا ہی آسان تھا جتنا سانس لینا۔ کتنا ہی مشکل موضوع ہو، کتنا ہی وسیع پس منظر، کھٹ سے دریا کو چار مصرعی کوزے میں بند کردیں گے۔ سیاسی ہی نہیں، اخلاقی، معاشرتی امور پر گرفت اتنی بھرپور کہ بے ساختہ زبان سے نکلے۔ واہ سبحان اللہ۔‘‘

زاہدہ حنا کا ذکر کرتے ہوئے انیس لکھتے ہیں ’’میں نے ان کے افسانے ان کی زبانی بھی سنے ہیں اور ان کی کتاب ’’قیدی سانس لیتا ہے‘‘ میں پڑھے بھی ہیں۔ علامتی انداز نگارش کی گرفت کہیں کہیں بے حد مضبوط نظر آئی۔ گریجویٹ تو سبھی ہوتے ہیں۔ یہ تو بہت پڑھی لکھی ہیں۔ بہترین مصنف، اعلیٰ درجے کی مترجم۔ اداریہ نگاری کا فن بھی جانتی ہیں اور بڑی بات چھوٹے اور غریب لفظوں میں ادا کرنے کا سلیقہ بھی۔ عورتیں عام طور پر وہ جو مکھی پر مکھی مارا کرتی ہیں، وہ بھی یہاں نہیں ہے۔ اسلوب بیان اور انداز خط مردوں سے ملتا جلتا، انداز تحریرکاتبانہ، سطریں بالکل سیدھی۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔