امریکا اور افغان طالبان مذاکرات کی ناکامی

شہاب احمد خان  اتوار 15 ستمبر 2019
امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات ناکام ہوگئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات ناکام ہوگئے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات ختم ہوگئے۔ یہ خبر اس وقت دی گئی جب اکثر لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ افغانستان میں امن اب چند دنوں کی دوری پر ہے۔ دونوں طرف سے اس طرح کے بیانات دیئے جارہے تھے کہ فریقین ایک معاہدے پر پہنچنے کے قریب ہیں۔ اچانک بم دھماکے کے نتیجے میں ایک امریکی کی ہلاکت ہوگئی، اور صدر ٹرمپ نے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کردیا۔

ان مذاکرات کے اختتام کے پیچھے بھی ایک طویل کہانی موجود ہے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ اور ٹرمپ انتظامہ کے کچھ بااثر افراد اس طرح افغانستان سے فوجوں کو نکالنے کو امریکا کی کھلی شکست سے تعبیر کررہے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ کچھ ایسی شرائط بھی طالبان سے منوائی جائیں جس سے یہ تاثر ملے کہ معاہدہ فریقین نے ’کچھ لو اور کچھ دو‘ کی بنیاد پر کیا ہے۔ اس بم دھماکے نے ان افراد کو مذاکرات منسوخ کرنے کا جواز دے دیا۔

جہاں یہ خبر پاکستان کے دشمنوں کےلیے خوشی کا سبب بنی، وہیں پاکستان کے ہمدردوں کو ایک نئی پریشانی لاحق ہوگئی۔ اس پریشانی کا باعث صدر ٹرمپ کے وہ بیانات ہیں جس میں وہ فرما رہے ہیں کہ اب دشمنوں سے پوری قوت سے مقابلہ کیا جائے گا، اور انھیں شکست سے دوچار کردیا جائے گا۔

کیا اٹھارہ سال کی جنگ میں امریکا نے اپنی پوری قوت نہیں لگائی تھی، جو وہ اب لگائیں گے۔ اڑتالیس ممالک کی افواج کیا اب تک وہاں صرف پکنک منا رہی تھیں؟ طالبان کا اطمینان بتارہا ہے کہ انھیں اس اعلان سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ افغانستان کی جغرافیائی صورت حال کچھ اس قسم کی ہے کہ وہاں کسی بھی ملک کی فضائیہ کوئی بڑا کردار ادا نہیں کرسکتی۔ اکثر و بیشتر علاقہ پہاڑوں پر مشتمل ہے، جہاں بڑی سے بڑی فوج کو بھی آسانی سے چھپایا جاسکتا ہے۔ امریکا یا اس کے اتحادی اپنی فضائیہ سے جتنی چاہے بمباری کرلیں، طالبان کو کچھ خاص نقصان نہیں پہنچا سکتے۔

لیکن سب سے بڑی تبدیلی جو پاکستان کی کوششوں سے افغانستان کی صورت حال میں آئی ہے، وہ علاقے کے طاقتور ممالک یعنی چین اور روس کی افغان معاملات میں باقاعدہ شرکت ہے۔ اب کھیلنے کےلیے امریکا کو کھلا میدان ملنا مشکل ہے۔ سب سے زیادہ ڈر اس بات کا ہے کہ افغانستان کہیں ان دو ممالک کے اسلحے کی تجربہ گاہ نہ بن جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو جنگ نہ صرف طویل ہوجانے کا خطرہ ہے، بلکہ اس میں خونریزی زیادہ ہونے کا بھی امکان ہے۔

پاکستان میں اس جنگ کا اثر دہشت گردی میں اضافے کی صورت میں نکلنے کا امکان موجود ہے۔ لیکن شاید اب وہ کامیابی پاکستان کے دشمن حاصل نہ کرپائیں جو کہ وہ ماضی میں حاصل کرتے رہے ہیں۔ پاکستان کی افواج نے دہشت گردوں کے خلاف جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، اس کے بعد اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ کوئی ماضی جیسی بڑی دہشت گردی پاکستان میں کی جاسکے۔ لیکن ہمارے دشمن چھوٹی موٹی کارروائیاں کرسکتے ہیں، جس کےلیے پاکستانیوں کو ابھی سے تیار ہوجانا چاہیے۔

صدر ٹرمپ جس جنگ کا دوبارہ آغاز کرنے جارہے ہیں وہ یقینی طور پر ان کی شکست پر ہی ختم ہونے جارہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب پاکستان کو ہرگز امریکیوں کی جنگ کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ آئی ایم ایف سے ملنے والی رقم روک لی جائے گی۔ اس سے زیادہ امریکا کے بس میں اب کچھ نہیں ہے۔ جس کا کچھ متبادل انتظام ابھی سے پاکستان کو کرلینا چاہیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

شہاب احمد خان

شہاب احمد خان

بلاگر اسلامک بینکنگ اور فائنانس میں ماسٹرز کی سند رکھتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔