اولمپک گیمز سے شاکی بوڑھے کی فریاد

ندیم سبحان  ہفتہ 28 ستمبر 2013
2020ء میں مجہے ایک بار پھر بے گھر ہونا پڑے گا ۔  فوٹو: فائل

2020ء میں مجہے ایک بار پھر بے گھر ہونا پڑے گا ۔ فوٹو: فائل

دنیا ایک عجائب خانہ ہے جہاں ایک واقعہ کسی کے لیے باعث مسرت تو دوسرے کے لیے رنج کا سبب ہوتا ہے۔

کچھ ایسا ہی جاپان کے شہری Kohei Jinno کے ساتھ ہوا ہے۔ رواں ماہ انٹرنیشنل اولمپکس کمیٹی نے 2020ء کے اولمپک گیمز کے انعقاد کے لیے ٹوکیو کا انتخاب کیا۔ اس طرح ٹوکیو پہلا ایشیائی شہر بن گیا ہے جسے دوسری بار اولمپک گیمز کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہوگا۔

اس سے قبل 1964ء میں جاپانی دارالحکومت نے ان کھیلوں کی میزبانی کی تھی۔ اُس وقت جاپانی قوم کی خوشی و مسرت دیدنی تھی جب جاپان کو اولمپک گیمز کی میزبانی کرنے والے پہلے ایشیائی ملک کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ Kohei Jinno بھی اپنے ملک کو یہ منفرد مقام ملنے پر بہت خوش تھا۔ بعدازاں جینو کو پتا چلا کہ اولمپک اسٹیڈیم بنانے کے لیے جس جگہ کا اتنخاب کیا گیا ہے، اس کی حدود میں اس کا گھر بھی شامل ہے تو جینو کی خوشی تشویش میں بدل گئی۔ اور جب اسے اور اس کے اہل خانہ کو دیگر لوگوں کے ساتھ گھروں سے بے دخل کیا گیا تو وہ اس وقت کو کوس رہا تھا جب اولمپک گیمز کے انعقاد کا قرعہ ٹوکیو کے نام نکلا تھا۔

جینو اپنے نو بھائیوں کے ساتھ اس گھر میں پلا بڑھا تھا جو ان دنوں کنکریٹ سے بنی کار پارکنگ کی صورت میں ٹوکیو کے قلب میں واقع نیشنل اسٹیڈیم سے متصل ہے۔ جنگ عظیم دوم میں جب ان کا گھر نذرآتش ہوا تو جینو کا خاندان اس مکان سے 20 میٹر دور واقع ایک اور مکان میں منتقل ہوگیا تھا۔ اس گھر میں ایک دکان بھی تھی جس میں جینو نے تمباکو فروشی شروع کردی تھی۔

1964ء کے اولمپکس سے قبل جینو اور آس پاس رہائش پذیر ایک سو خاندانوں کو سرکاری حکام نے ہدایت کی کہ وہ اپنے اپنے گھر خالی کردیں کیوں کہ اس جگہ پر اولمپک اسٹیڈیم کے لیے کار پارکنگ تعمیر کی جانی تھی۔ اس طرح جینو کے اہل خانہ کو بے گھر ہونا پڑا اور کچھ ہی عرصے بعد ان کے مکان اور اطراف کے مکانات کو ڈھاکر کار پارکنگ بنادی گئی۔ گھر سے محرومی کے بعد جینو کا خاندان بکھر گیا۔ وہ اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ ایک کمرے پر مشتمل مکان میں رہنے اور گزراوقات کے لیے گاڑیاں دھونے پر مجبور ہوگیا۔ 1965ء میں وہ میونسپل ہاؤسنگ کمپلیکس میں منتقل ہوا اور یہاں اسے تمباکو فروشی کا کاروبار بھی ازسرنو شروع کرنے کا موقع مل گیا۔ بوڑھا جینو آج بھی یہ دکان چلا رہا ہے۔

یہ پبلک ہاؤسنگ کمپلیکس، جہاں جینو اور اس کی بیوی رہتی ہے، نیشنل اسٹیڈیم اور ان کے سابقہ گھر اور موجودہ کارپارکنگ سے قریب ہی ہے۔ 2020ء کے اولمپک گیمز کے لیے حکومت نے نیا اسٹیڈیم تعمیرکرنے کا منصوبہ تشکیل دیا ہے جس کے تحت پرانے اسٹیڈیم کو ڈھاکر ایک وسیع تر اسٹیڈیم بنایا جائے گا اور اس توسیعی منصوبے کی لپیٹ میں پبلک ہاؤسنگ کمپلیکس بھی آگیا ہے۔ ایک بار پھر جینو اسی صورت حال سے دوچار ہے جو اسے قریباً نصف صدی قبل درپیش ہوئی تھی۔

اپنی تقدیر سے شاکی جینو کا کہنا ہے،’’قسمت کبھی مجھ پر مہربان نہیں رہی۔ اولمپک گیمز کی میزبانی کا حصول قوم کے لیے خوش کی بات ہوگی مگر اس جگہ سے بے دخلی نے مجھے اداس اور پریشان کردیا ہے۔ اس جگہ اور اس گھر سے ہماری ان گنت یادیں وابستہ ہیں۔ ہم نے یہیں اپنے بچوں کو پال پوس کر بڑا کیا ہے اور یہیں ساری عمر گزاری ہے۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اگر اولمپکس نہ ہوتے تو میری زندگی بہت مختلف ہوتی۔ مجھے لگ رہا ہے جیسے فیملی کے بعد میری سب سے قیمتی متاع مجھ سے چھینی جارہی ہے۔ اولمپکس کی وجہ سے میں اپنے دوستوں اور ہمسایوں سے محروم ہوجاؤں گا جن سے میں بے حد محبت کرتا ہوں۔‘‘

ٹوکیو نے اولمپکس کی میزبانی حاصل کرنے کے لیے 4.5 ارب ڈالر کی بولی لگائی تھی۔ ان کھیلوں کے انعقاد سے جاپان پر ہونے والے معاشی اثر کا تخمینہ 30.2 ارب ڈالر لگایا گیا ہے، جب کہ روزگار کے ڈیڑھ لاکھ مواقع پیدا ہونے کی بھی توقع ہے۔

80 سالہ Kohei Jinno نے اس بارے میں ابھی تک کچھ نہیں سوچا کہ یہاں سے وہ کب اور کہاں جائے گا۔ جینو کے ساتھ اس کمپلیکس میں رہائشی پذیر دیگر دوسو خاندانوں کو بھی اسی پریشانی کا سامنا ہے۔ جینو کا کہنا ہے کہ کاش! ٹوکیو میں دوبارہ اولمپکس منعقد نہ ہوتے۔ انسان ایک بار دربدر ہونا تو برداشت کرسکتا ہے مگر دوسری بار گھر سے محرومی میرے ساتھ سراسر ظلم ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔