پاکستان کے وسائل اور عوام کے دکھ

نسیم انجم  ہفتہ 28 ستمبر 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

پاکستان ہر لحاظ سے اہم ترین اور بے شمار وسائل والا ملک ہے ایسا ملک جہاں قدرتی خزانوں کی کمی نہیں ہے، بلکہ یہ معدنی دولت سے مالا مال ہے، کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو ہمارے ملک میں نہ ہو، سمندر، جنگلات، تیل، گیس، تانبا، لوہا، پیتل، نمک، تیزاب، گندھک، کوئلہ، دریا، چشمے، آبشاریں، باغات، اناج کے کھیت، چاول، گیہوں، پھل، میوہ جات، سونا، چاندی اور دوسری بے شمار قیمتی اشیاء اس ملک میں موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود یہ ملک غریب ترین ہے اور دوسرے ممالک کی امداد، خیرات و زکوٰۃ پر انحصار کرتا ہے۔ گیس ہونے کے باوجود،گیس کی مصنوعی قلت اپنی لاپرواہی اور غفلت کی بناء پر پیدا کردی گئی ہے۔ حالات اس قدر ابتر ہوچکے ہیں کہ دوسرے ممالک اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں اور ان سے استفادہ بھی کیا جارہا ہے، بجلی کا بھی ابتر حال ہے، لوگ بجلی کو ترس گئے ہیں، لوڈشیڈنگ میں کمی واقع نہیں ہوتی ہے ۔

بجلی نہ ہونے کی وجہ سے عوام کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے، اتنی اہم چیزیں ان لوگوں کو حاصل نہیں ہورہی ہیں جن کا حق ہے اور جو باقاعدگی سے ہر ماہ بل بھرتے ہیں بلکہ چور ، ڈاکو، اس سے پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں اور کروڑوں کی بجلی کو آسانی سے چرا لیتے ہیں۔ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچایا جاتا ہے لیکن ان اداروں کی لاپرواہی اس قدر ہے کہ انھیں ایک طویل مدت تک پتہ نہیں چلتا اور دوسری بات یہ بھی ممکن ہے کہ ان بجلی وگیس چوروں کو بڑے لوگوں کا تعاون حاصل ہوتا ہے، ابھی حال ہی میں ایف آئی اے نے گیس وبجلی چوری کرنے والوں کو بے نقاب کیا ہے اسی طرح کچھ عرصہ پہلے ایک پاکستانی کمپنی کی لائن سے بھاری مقدار میں تیل چرایا جارہا تھا، جب بہت بڑے پیمانے پر خسارہ ہوجاتا ہے، تب ان اداروں کے منتظمین و مالکان حرکت میں آتے ہیں اور اس تخریب کاری کا خمیازہ بے چاری عوام مہنگائی کی شکل میں بھگتتی ہے۔

اسی طرح کھانے پینے کی اشیاء خصوصاً چاول و دالیں وغیرہ دوسرے ممالک کو مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہیں فروٹ کو بھی پاکستان کے باہر فروخت کیا جاتا ہے اور جن کی محنت کی بدولت یہ پھل اور اناج اگتا اور پھلتا پھولتا ہے، انھیں ہی یہ نصیب نہیں ، عام لوگوں کے بس کی بات نہیں کہ وہ ان چیزوں کو خرید سکے۔ گلا سڑا داغی پھل کچھ کم قیمت میں ملتا ہے جسے متوسط اور غرباء خرید لیتے ہیں، اس سے بہتر چیزیں صاحب حیثیت ہی لے سکتے ہیں۔

نواز شریف کی حکومت سے لوگوں کو تھوڑی بہت امید ضرور تھی لیکن  ہر چیز کو مہنگا ترین کردیا اور ساتھ میں ہر چیز پر ٹیکس بھی عائد کردیا۔ ڈالر مہنگا ہوتا جارہا ہے اور روپیہ سستا، حکومت کے ابتدائی سو دنوں میں روپے کی قدروقیمت 7 فیصد کم ہوچکی ہے، آٹا، دودھ، دہی، ڈبل روٹی، چینی، چاول، دالوں کی قیمت میں دو گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ دودھ ایک لیٹر کا ڈبا 90 اور 100 روپے میں فروخت کیا جارہا ہے، دکانوں پر کھلا ہوا دودھ 85/80 روپے اور بعض جگہوں پر 75 روپے فی کلو فروخت ہورہا ہے، دودھ مہنگا ہے تو اسی لحاظ سے دہی بھی 110 روپے کلو بیچا جارہا ہے، ایک تو یہ اشیاء گرانی کی لپیٹ میں ہیں دوسرے یہ کہ خالص نہیں ہیں۔ کیمیکل ملاکر دودھ کو گاڑھا کردیا جاتا ہے، مرچ مسالوں میں بھی ملاوٹ ایسی چیزوں کی کی جاتی ہے جو صحت کے لیے نقصان دہ ہیں۔ پچھلے دنوں نجی ٹی وی پر ایک پروگرام دیکھا اس پروگرام میں اس حقیقت سے نقاب کشائی کی تھی کہ ادرک کو بھی کیمیکل میں بھگو کر نہ کہ اسے چمکدار اور خوبصورت بنادیا گیا تھا، بلکہ اس کا وزن بھی بڑھ گیا تھا، لہسن کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ کیمیکل جگر، گردوں کے لیے سخت ترین مضر ہے۔ اسی وجہ سے آج کل گردوں و جگر کی بیماریاں ہر دوسرے شخص میں پائی جاتی ہیں۔

مفاد پرستوں اور ضمیر فروشوں کے ہاتھوں پھل بھی محفوظ نہیں ہیں۔ان کی عزت و تحفظ کو داغدار بنادیا گیا ہے۔لوگ پھل خریدتے وقت بھی خوفزدہ ہوتے ہیں اور اس وقت خوف میں مزید اضافہ ہوتا جاتا ہے جب اس کا شکم کاٹنے اور قاشیں کرنے کے بعد اسے چکھا جائے تو اس کی مٹھاس اس راز سے پردہ اٹھادیتی ہے کہ اسے انجکشن کے ذریعے شیریں بنادیا گیا ہے، اب جو لوگ اصلی اور نقلی مٹھاس سے اچھی طرح واقف ہوچکے ہیں، لہٰذا ڈرتے ڈرتے حلق سے اتارتے ہیں اور کم سے کم کھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

ایک وقت تھا جب میٹھا پھل اور صاف ستھرا ادراک لہسن تلاش کرنے کے لیے صارف بازار کے دھکے کھاتا پھرتا تھا لیکن اب اصلی کی تلاش میں صورت پر نہیں جاتا ہے بلکہ سیرت کو مدنظر رکھ کر نت نئے جتن کرتا ہے، کالی ادرک اور چھلکے والے لہسن کو ترجیح دیتا ہے۔

بات کھانے پینے کی اشیاء کی چل رہی ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو اب تقریباً ہر شخص اپنا ایمان گنوا بیٹھا ہے اور زروجواہر کی طمع، زیادہ سے زیادہ منافعے کی تمنا اور راتوں رات امیر بننے کی خواہش نے اسے نیم پاگل کردیا ہے۔ اب یہ بے چین و بے قرار شخص دل کا سکون ڈھونڈنے کے لیے نہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامتا ہے اور نہ جنگل کی راہ لیتا ہے اور اگر جنگل کی راہ لے بھی لے تو تخریب اور دہشت گردی کے لیے ملکی خزانہ لوٹنے اور تروتازہ درختوں کو کاٹنے کے لیے بیابانوں میں جاتا ہے، کبھی گیس کی تو کبھی تیل کی لائنوں کو درمیان سے توڑ کر نہایت سمجھداری اور ہوشیاری کے ساتھ اپنے منصوبوں پر عمل پیرا ہوتا ہے اور اس طرح لاکھوں روپے، ملک و قوم کو نقصان پہنچا کر حاصل کرلیتا ہے۔

آلودگی اور بیماریاں پھیلانے کا سبب بھی یہی لالچی انسان ہیں جو انسانی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں انسان نما درندہ صفت لوگ اسپتالوں سے استعمال شدہ سرنجیں، گندے نائلون کے بیگ ان بیگوں کے ذریعے خون اور گلوکوز و دوائیں انسانی جسم میں پہنچائی جاتی ہیں۔ ان چیزوں کو جدید مشنری سے پیس کر معصوم و ننھے منے بچوں کے فیڈر بناتے ہیں، جراثیم کش اشیاء کا استعمال بچوں کی صحت کو خراب کرنے اور انھیں موت کے منہ میں پہنچانے کے مترادف ہے۔ اسپتالوں کا کچرا کوڑا بھی رہائشی علاقوں میں پھینکا جاتا ہے، جہاں معصوم گداگر محنتی بچے اس میں سے اپنے کام کی چیزیں ڈھونڈ کر فروخت کرتے ہیں۔

بے ایمانی و بددیانتی عروج پر ہے، اگر حکومت اپنی ذمے داریوں کو نبھانے کے لیے اپنا کردار ادا نہیں کرتی ہے تو عوام بھی تھوڑے سے فائدے کے لیے عذاب الٰہی کو دعوت دے رہے ہیں، دکاندار چھوٹے ہوں یا بڑے، ایماندار کوئی نہیں ہے۔ اکثریت ان لوگوں کی ہے کہ جو اشیاء فروخت کرتے وقت گاہک کو نقصان پہنچاتے ہیں اور اپنا خراب مال نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب گاہک گھر پہنچتا ہے تب اسے اندازہ ہوتا ہے کہ کپڑا پھٹا ہوا ہے اور جوتا نہایت ناپائیدار جب کہ دکھائی کوئی اور چیز تھی۔ اسی طرح رکشہ ڈرائیور بھی اپنی خوب من مانی کرتے ہیں اور سی این جی بند ہونے کا بہانہ کرکے زیادہ سے زیادہ کرایہ وصول کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ سی این جی تین تین روز بند کردی جاتی ہے۔ اب سڑکوں سے ٹیکسیاں تو غائب ہی ہوگئی ہیں۔

رکشے ہیں لیکن بہت کم تعداد میں، بسیں اور کوچز ہیں البتہ چنگچیوں کی شاہراہوں پر بادشاہت نظر آتی ہے، ہر جگہ چنگچی، بہر حال اس بدترین دور کی ایک اچھی سواری ہے، جس کے ڈرائیور ایماندار اور تمیز دار ہیں جب کہ بس کے ڈرائیور اور کنڈیکٹر مسافروں سے بدتمیزی کیا کرتے تھے، شاید اسی لیے زوال کو پہنچے۔ لیکن مسافروں کو چنگچی ہونے کے باوجود تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ حالات کے باعث رات کو اب بسیں اور کوچیں نظر نہیں آتی ہیں اس طرح رات کو لوٹنے والے طالب علموں اور کارخانوں و فیکٹریوں سے گھر جانے والوں کو اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ چنگچی طویل سفر طے نہیں کرپاتی ہے جب کہ بس گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹے سفر کے بعد باآسانی مسافروں کو ان کی منزل مقصود تک پہنچا دیتی ہے۔ نواز حکومت کا فرض ہے کہ وہ مہنگائی کی عفریت پر قابو پائے اور بجلی گیس کی سہولت عوام کو مہیا کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔