زلزلے بے سبب نہیں آتے

شیریں حیدر  ہفتہ 28 ستمبر 2013
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’شہر کو جھنجوڑ ڈالا ہے اس زلزلے نے…‘‘ کراچی سے ایک دوست کا فون آیا۔

’’اچھا؟‘‘ حیرت سے پوچھا، ’’ہمیں تو علم بھی نہیں ہوا اور نہ ہی محسوس ہوا…‘‘ میں نے جواب دیتے ہوئے سوچا، ممکن ہے کہ اس وقت گاڑی چلا رہی تھی اس لیے محسوس نہ ہوا ہو، مگر بعد ازاں علم ہوا کہ اس زلزلے کا دائرہ شدت صوبہ بلوچستان، کراچی اور متحدہ عرب امارات تک تھا۔ کتنے ہی زلزلے ہر روز کہیں نہ کہیں آتے ہیں، اپنی تباہ کاریوں کے نشانات ہزاروں خاندانوں اور ان کی اگلی نسلوں تک چھوڑتے ہوئے، لوگوں کو بے گھر کرتے ہوئے اور ان کی بے بسی کو ہمارے لیے نشان عبرت بناتے ہوئے…

زلزلے بے سبب نہیں آتے

جہاں پر خون پانی سے سستا ہو جائے

عزت بیچ بازار کے نیلام ہونے لگے

محافظ ہی قاتل بن جائیں

چور منصف بن جائیں

تو زمیں تھر تھر کانپتی ہے

ہمارے سوئے ہوئے ضمیر جھنجوڑنے کے لیے

ہمیں جگاتی ہے…

زلزلے بے سبب نہیں آتے

(بشکریہ، جواد حیدر)

بچپن میں سنا کرتے تھے کہ جب کہیں ظلم ہوتا ہے تو زلزلہ آتا ہے، زمین تلپٹ کر دی جاتی ہے، کہیں بے حیائی فروغ پانے لگے تو قوموں پر عذاب مسلط کر دئیے جاتے ہیں، کہیں قتل ہو تو لال آندھی آتی ہے۔ اب تو اگر کسی قتل پر لال آندھی آنے لگے تو سال کے بارہ مہینے اور تین سو پنسٹھ دن لال آندھی ہی آتی رہے، اور ہم بہ حیثیت قوم بے حیائی اور دیگر معاشرتی خرابیوں کے باعث کئی طرح کے عذاب بھگت رہے ہیں، مگر ہمیں لگتا نہیں کہ یہ ہمارے لیے عذاب ہیں، اور دنیا میں جا بجا زلزلے ہمیں یہی یقین دہانی کروانے کے لیے آتے ہیںکہ ظلم اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔حالیہ زلزلے نے ملک کے ایک حصے میں تباہی مچا دی ہے، کئی دیہات صفحہء ہستی سے مٹ گئے ہیں مگر ان کی پرساں حالی کرنا کسی کے بس کا کام نہیں، ملک اس وقت لا تعداد مسائل و مصائب کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ خزانے گداگر کے کشکول کی طرح چند سکوں کی گونج سے کھنک رہے ہیں، ملک کا روزمرہ نظام چلانے کے لیے بھی حکمران اپنے کشکول لیے ملکوں ملکوں گھوم رہے ہیں مگر کہیں شنوائی نہیں ہو پا رہی ہے۔

پٹرول، سونے اور ڈالر کے بڑھتے ہوئے نرخوں نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے، ان کی زندگیوں بھی متاثر ہوتی ہیں جنھیں نہ پٹرول سے غرض ہے نہ سونے اور ڈالروں سے۔ انھیں تو ان کے باہمی ربط کا بھی علم نہ ہو گا، نہ انہیں بڑی چور بازاریوں کا علم ہوتا ہے نہ انھیں یہ جانکاری ہوتی ہے کہ کس طرح کسی چیز کی مصنوعی قلت پیدا کر کے مصنوعی طور پر اس کی قیمت کو خوب چڑھا کر لمحوں میں آسمان سے زمین پر لے آیا جاتا ہے۔قانون شکنی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے، کسی پر اعتبار باقی نہیں رہا، کوئی کس سے منصفی مانگے کہ سب ہاتھ لہو سے رنگے ہوئے نظر آتے ہیں۔ غریب کی عزت کی کوئی وقعت ہے نہ اہمیت، کسی کی عزت بھی محفوظ نہیں… اغواء، ڈاکے، دھوکہ دہی، رشوت کا لین دین، سفارش، عورت کی بے توقیری!!! یہ سب ہمارے معاشرے کی علامت اور پہچان بن کر رہ گئے ہیں۔ ہوس کے مارے درندوں کو شکار سے غرض ہے، شکار کے منہ میں کتنے دانت ہیں، اس کی عمر کیا ہے… ایسی چیزیں شاید کوئی باشعو ر ذی نفس جاننا چاہے گا، درندوں کو اس سے کیا غرض؟ظلم سہنا رواج بن چکا ہے، کیونکہ اور کوئی راستہ نہیں، کسی پرائے کی تو کیا کوئی اپنے کسی خونی رشتے کی مصیبت بھی اپنے سر مول نہیں لینا چاہتا۔

جہاں نان مہنگی اورجان سستی ہو، جہاں پیسہ نشان امتیاز ہو، جہاں حرام کا مال توقیر کا باعث بن جائے، جہاں سفید پوش نام کا طبقہ ختم ہو جائے اور انتہائی امیر اور انتہائی غریب کے خانوں میں سارا معاشرہ بٹ جائے، وہاں زلزلے نہ آئیں تو کیا ہو؟ ہر روز ایک نہیں، کئی معصوم بچیاں ملک کے کئی حصوں میں ظلم کا شکار ہوتی ہیں، ہوس کا نشانہ بنتی ہیں، اس پر دھرتی تھرتھر نہ کانپے تو اور کیا ہو؟ جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس قدر گمراہ ہو چکے ہوں کہ ان سے پابندیاں برداشت نہ ہوں، جہاں شام کو لڑکے لڑکیاں گھر نہ لوٹیں تو ماں باپ سکون میں ہوں، وہاں شرافت کا کیا معیار ہو گا؟ ہماری ہی دی ہوئی گمراہی ہے کہ ہماری اولادیں کسی پابندی کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں خواہ وہ ان کی کسی عادت کی ہو یا لباس کی۔ فیس بک پر ملک کی ایک مشہور یونیورسٹی کی طالبہ کی طرف سے ایک اپ لوڈ دیکھنے کو ملا۔

یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں، orientation کے دوران جب طالب علموں کو ضابطہء اخلاق بتایا جا رہا تھا اور انھیں بتایا جا رہا تھا کہ گھروں سے مہذب لباس پہن کر آئیں… لڑکوں کو بغیر بازو کی شرٹ اور ٹی شرٹ پہننے کی اجازت نہیں، لڑکیاں جینز، کھلے گلے، بغیر بازو کی قمیضیں اور skin tight  قمیضیں اور پاجامے نہ پہنیں‘ لڑکیاں جینز نہیں پہن سکتیں اور نہ ہی بغیر دوپٹے کے یونیورسٹی آسکتی ہیں۔ یونیورسٹی کی حدود میں لڑکوں اور لڑکیوں کا اختلاط اور آپس میں محفوظ فاصلہ رکھنا ضروری ہے۔یہ وہ ہدایات ہیں کہ جن پر لڑکیوں کو خوش ہونا چاہیے کہ ان کی حفاظت ہی کے خیال سے یہ سب اقدامات کیے جا رہے ہیں۔کوئی بھی ایسا لباس جسے دیکھ کر نظر پلٹ کر دوبارہ پڑے، ایسا لباس تو ہمارے مذہب کے رو سے بھی پہننا جائز نہیں، مگر بجائے اس بات پر خوش ہونے کے کہ لباس کے معاملے میں عائد کی گئی پابندیاں ان ہی کے مفاد اور موافقت میں ہیں… یہ ساری ہدایات لکھ کر موصوفہ پوچھتی ہیں، ’’اتنی پابندیاں، ہم ملک کی ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ یونیورسٹی میں پڑھ رہے ہیں یا طالبانائزیشن کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں؟‘‘اس کے سوال پر ہی اکتفا نہیں، اس کے جواب میں جن لوگوں نے facebook  کی اس بحث میں حصہ لیا ہے ان کے خیالات اور سوچ بھی مغربی معاشرے کو شرمانیوالی ہے۔

جن لڑکیوں کی عزت کی حفاظت کی خاطر یونیورسٹی انتظامیہ نے یہ ہدایات جاری کی ہیں، وہ لڑکیاں خود ہی نہیں چاہتیں کہ ان کی عزت محفوظ رہے، آبرو باختہ معاشرے میں رہتے ہوئے ہم اخلاقی اور مذہبی اقدار سے اتنا دور جا چکے ہیں کہ ہمیں ہر وہ شے بھاتی اور آسان لگتی ہے جو ہمارے مذہب کی تعلیمات سے تضاد رکھتی ہو۔ میں ہر روز سیکڑوں لڑکیوں اور لڑکوں کو تعلیمی اداروں سے نکلتے ہوئے دیکھتی ہوں اورسوچتی ہوں کہ کیا ان بچوں کے والدین دیکھتے ہیں کہ ان کے بچے اپنے تعلیمی اداروں میں جانے کے لیے کس طرح کے حلیے میں گھر سے نکلے ہیں؟ہم پر اخلاقی پستی کے باعث سب مصائب آرہے ہیں، ہم اس قدر پست ہو چکے ہیں کہ رشتوں کی پہچان بھی ختم ہو چکی ہے۔ ہم خود سے کیوں سوال نہیں کرتے کہ ہم پر ایک کے بعد دوسری قدرتی آفات اور عذاب کے آنے کے اسباب کیا ہیں… کچھ تو سبب ہے کہ، زلزلے بے سبب نہیں آتے!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔