کشمیر کی سیاست کو زندہ رکھنا ہوگا

سلمان عابد  پير 9 ستمبر 2019
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

پاکستان کی داخلی اور خارجہ پالیسی کا ایک اہم نکتہ مقبوضہ کشمیر کی سیاست سے جڑا ہوا ہے ۔یہ ایک جذباتی مسئلہ بھی ہے اور انتظامی و قانونی بھی ہے۔ پاکستان اس مسئلہ سے خود کو علیحدہ نہیں رکھ سکتا۔ پاکستان اوربھارت کے درمیان جو تعلقات میں بداعتمادی یا سرد مہری ہے اس کی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک بڑی وجہ مقبوضہ کشمیر کی سیاست سے جڑا پہلو بھی ہے۔ سیاسی اورمذہبی جماعتوں کی اکثریت بھی خود کو کشمیر کی سیاست سے علیحدہ نہیں رکھ سکتیں۔لیکن حالیہ ایک ماہ میں جس انداز سے بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جو اقدامات اٹھائے ہیں اس کا عملی نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر اب کشمیر یا پاکستان اور بھارت تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کی ایک نمایاں جھلک ہمیں عالمی دنیا اورعالمی سیاست کے بڑے طاقتور ممالک کی سیاست میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے، جو خود ایک بڑی کامیابی ہے۔

یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ اقدامات نے مسئلہ کشمیر کی عالمی حیثیت کو بہت زیادہ طاقت دی ہے اورماضی میں جو ممالک خودکو کشمیر کی سیاست سے علیحدہ رکھتے تھے آج وہ بھی مقبوضہ وادی کی صورتحال پر خاموش نہیں۔ بظاہر تو مودی کے اقدامات سے مسئلہ کشمیر کا حل نکل گیا ہے، لیکن عملی صورتحال یہ ہے کہ جو کچھ اب مقبوضہ کشمیر میں ہورہا ہے اس پر عالمی دنیا کی خاموشی یا محض بیان بازی کی سیاست لمبے عرصہ تک نہیں رہ سکے گی۔ مقبوضہ کشمیر میں جاری پرامن اور سیاسی جدوجہد کو داد دینی ہو گی کہ اس تحریک نے خود کو عالمی سطح پر تسلیم کروایا ہے اور لوگ اعتراف کر رہے ہیں کہ کشمیر تحریک کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔آج جو کچھ وہاں کیا جا رہا ہے اس نے خود کشمیر کی تحریک کو ایک نئی شدت دی ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اس وقت کرفیو موجود ہے اور بھارت پر کرفیو کا دباؤ بھی ہے مگر بھارت کو ڈر اس بات کا ہے کہ کرفیو کے خاتمہ کے بعد کی جو وہاں صورتحال پیدا ہو گی اس کو کیسے کنٹرول کیا جا سکے گا۔ یہاں عالمی میڈیا کو داد دینی ہو گی کہ اس نے پانچ اگست کے بعد سے جو صورتحال مقبوضہ کشمیر کی دنیا کو دکھائی ہے اس نے عالمی دنیا کے ضمیر کو یقینی طور پر جنجھوڑا ہے ۔

روزانہ کی بنیادوں پر عالمی میڈیا عالمی دنیا اور اس سے جڑے حکمرانوں کو باور کروا رہا ہے کہ ان کی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر کمزور پالیسی یا خاموشی مجرمانہ غفلت سے کم نہیں۔ انسانی حقوق کے ادارے بھی تواتر کے ساتھ بھارت کی جارحیت پر سوالات اٹھا رہے ہیں اور کرفیو کے خاتمہ سمیت فوری انسانی حقوق کی بحالی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ او آئی سی کی قرار داد اور یورپی یونین کے اجلاس میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش ظاہر کرتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جو آگ لگی ہوئی ہے اس کے اثرات نمودار ہو رہے ہیں۔ بھارت نے پوری کوشش کی ہے کہ اس تحریک کو دہشتگردی قرار دیا جائے۔

اگرچہ بھارت کی پوری کوشش ہے کہ وہ عالمی دنیا کو یہ باور کروائے کہ کشمیر کا مسئلہ دو ملکوں کا مسئلہ ہے اوراس کے حل میں کسی تیسرے فریق کی ضرورت نہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ پاک بھارت  مسئلہ ہے تو بھارت نے اب تک کیا اقدامات کیے ہیں اورکیوں بات چیت کے لیے تیار نہیں یہاں تک کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی اور کو بھی نظرانداز کر دیا۔ بھارت کو کشمیریوں سے انصاف کرنا ہو گا۔پاکستان کی ریاستی اورحکومت کی پالیسی سمیت وزارت خارجہ اوربالخصوص وزیر اعظم عمران خان کو داد دینی ہوگی کہ انھوں نے پانچ اگست کے بعد سے پیدا ہونے والی صورتحال کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا ہے۔ ڈپلومیسی اور سفارتکاری کے محاذ پر پاکستان عالمی دنیا کو جوڑنے میں کافی حد تک کامیاب ہوا ہے۔

ہمیں فوری طور پر نتائج دیکھنے کے بجائے یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ عالمی دنیا اب آہستہ آہستہ اپنا ردعمل دے رہی ہے اور یہ ردعمل بھارت کے خلاف ہے۔ بالخصوص انسانی حقوق کی صورتحال پر تو عالمی دنیا نے جو بڑی تشویش دکھائی ہے وہ خود بھارت پر دباؤ بڑھانے کی اہم حکمت عملی ثابت ہوسکتی ہے۔ جو لوگ یہ طعنہ دے رہے ہیں کہ حکومت کی کشمیر پالیسی ناکام ہے وہ محض سیاسی مخالفت کا حصہ ہے۔ وگرنہ حزب اختلاف کو یہ ضرور بتانا چاہیے کہ وہ کونسے اقدامات ہیں جو موجودہ صورتحال میں پاکستان کی سیاسی اورعسکری قیادت نے نہیں اٹھائے۔یقینی طور پر بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے لیکن جو کچھ ہو رہا ہے اس کا بھی اعتراف کیا جانا چاہیے۔

ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر فوری طورپر پاکستان کے حق میں کچھ نہیں ہوگا اورمقبوضہ کشمیر میں بھی زیادہ سے زیادہ کرفیو کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ ایک لمبی جنگ ہے اوراس کو ٹی ٹوئنٹی یا ون ڈے میچز یا ٹیسٹ میچزکے بجائے مسلسل ٹیسٹ سیریز کے طور پر لینا ہو گا۔

پاکستان کو اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو پس پشت ڈالنے کے بجائے اس تحریک کو شارٹ ٹرم، مڈٹرم اورلانگ ٹرم پالیسی کی بنیاد پر دنیا میں زندہ رکھے۔ پاکستان کی پالیسی محض ردعمل کی پالیسی سے نہیں جڑی ہونی چاہیے بلکہ ہمیں یہ سوچ دینی ہوگی کہ کشمیر کا مسئلہ ہماری قومی پالیسی کا اہم حصہ ہے اورہم اسے نظر انداز نہیں کرسکتے۔ دنیاکیونکہ اس وقت پاکستان اوربھارت کے تناظر میں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر پریشان ہے تو ہمیں عالمی دنیا کے ساتھ خود کو جوڑنا ہوگا اوردنیا کو باور کروانا ہوگا کہ بھارت کا یکطرفہ عمل خطہ کی سیاست کو ایک نئی جنگ کی طرف دکھیل رہا ہے اوراسے پاکستان سمیت سب کو روکنا ہوگا۔

اب وقت ہے کہ عالمی طاقتیں پاکستان اور بھارت کے درمیان مقبوضہ کشمیر کے تناظر میں ثالثی کے عملی اقدام سے سامنے آئیں او رجو کچھ وہ بہتری کے حق میں کرسکتے ہیں ان کو کرنا چاہیے۔ کیونکہ پاکستان نے تعلقا ت کی بہتری میں جتنے بھی اہم اقدام اٹھائے ہیں اس کا جواب بھارت کی طرف سے منفی صورت میں آیا ہے اور وہ مذاکرات کو پاکستان کی کمزوری سمجھتا ہے۔صرف وزیر اعظم کو ہی نہیں بلکہ پاکستان کے ہر فرد کو اس وقت مسئلہ کشمیر پر ایک بڑے سفیر کے طور پر اپنا کردار ادا کرنا ہے اورجو فریق جو کچھ کرسکتا ہے اسے کرنا چاہیے۔ کیونکہ مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کی نظریں بھی پاکستان پر ہیں اورہمیں ان کو کمزور کرنے کے بجائے اور زیادہ سیاسی، سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر طاقتور بنانا ہے تاکہ وہ اپنی سیاسی جنگ جیت سکیں۔ مقبوضہ کشمیر کی تحریک اس وقت ایک زندہ حقیقت ہے اوراس کو جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ کچھ قانونی اقدامات سے ختم کرسکتے ہیں وہ غلطی پر ہیں اوران کو سمجھنا ہوگا کہ سیاسی تحریکیں کسی آئینی ترمیم کی محتاج نہیں ہوتی، اس کا حل سیاسی ہوگا اوربات چیت کی مدد سے ہی ممکن ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔