چین کو ڈیڑھ ارب نفوس کی شکم سیری کا چیلینج درپیش

ندیم سبحان میو  پير 9 ستمبر 2019
چینی سائنس داں جینیاتی تدوین کی حامل جدید ٹیکنالوجی کرسپر (CRISPR) کے ذریعے امراض کے خلاف مزاحمت رکھنے والی فصلوں پر تحقیق کررہے ہیں

چینی سائنس داں جینیاتی تدوین کی حامل جدید ٹیکنالوجی کرسپر (CRISPR) کے ذریعے امراض کے خلاف مزاحمت رکھنے والی فصلوں پر تحقیق کررہے ہیں

 بیجنگ میں واقع چائنیز اکیڈمی آف سائنسز (سی اے ایس) کی عمارت کے ایک وسیع و عریض ہال نما کمرے میں جسے ٹشو کلچر روم کہا جاتا ہے، شیشے کے چھوٹے چھوٹے مرتبانوں میں ننھے پودے سَر اٹھاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ کچھ پودے غیرمعمولی طور پر نرم چاول کے بیجوں سے پُھوٹے ہیں جب کہ کچھ گندم کے موٹے دانوں کے خول کو شکست دے کر آزاد فضا میں سانس لینے کے قابل ہوئے ہیں۔

ان پودوں کی خوبی یہ ہے کہ ان میں ایک عام پھپھوند (فنگس) کے خلاف مزاحمت پائی جاتی ہے۔ چاول اور گندم کی عام اقسام میں پھپھوند کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ندارد ہوتی ہے۔ اسی کمرے میں کچھ ہی دور ایک گرین ہاؤس میں جنگلی ٹماٹر کے پودے موجود ہیں جن پر لگنے والے ٹماٹر عام اقسام کی نسبت زیادہ سخت ہوتے ہیں اور کئی گنا زیادہ عرصے تک تازہ رہتے ہیں۔ ٹماٹروں کے پڑوس ہی میں نباتات کش زہر کے خلاف مزاحم مکئی اور آلو کے پودے ہیں۔ یہ آلو چھیلے اور کاٹے جانے کے بعد بہت دیر تک تروتازہ رہتے ہیں اور ان پر سیاہی مائل دھبے جلد نمودار نہیں ہوتے۔ ایک اور کمرے میں سلاد، کیلے، گھاس اور رس بھری کی نئی اقسام اگائی گئی ہیں۔

چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کی اس جدید نرسری کی تخلیق کار نباتاتی سائنس داں گاؤ کیسیا ہیں۔ گاؤ بیماریوں کے خلاف زیادہ مزاحم، غذائیت سے بھرپور اور تادیر تازہ رہنے والی خوردنی فصلیں تیار کرنے کی سعی میں مشغول محققین کے ہراول دستے میں شامل ہیں۔ متعدد افراد اس مقصد کے لیے طویل مدت میں نتائج دینے والے روایتی طریقے اپنائے ہوئے ہیں تاہم گاؤ جینیاتی تدوین کی حامل جدید ٹیکنالوجی کرسپر ( CRISPR ) کا استعمال کررہی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے وہ اپنے اہداف کی جانب تیزی سے پیش قدمی کررہی ہے۔

CRISPR، clustered regularly interspaced short palindromic repeats کا مخفف اور بیکٹیریا اور دیگر یک خلوی اجسام کے جینوم میں پائے جانے والے ڈی این اے کے سلسلے ( sequences ) ہیں۔ اسے قدرتی بیکٹیریائی مناعتی نظام ( immune system ) بھی کہا جاتا ہے جسے کچھ برس قبل امریکا اور یورپ کی تجربہ گاہوں میں ایک طاقتور جینوم ایڈیٹر کی شکل دی گئی، مگر اب اس ٹیکنالوجی پر سب سے زیادہ تحقیقی کام چین میں ہورہا ہے اور کرسپر کے زرعی پہلو پر امریکا کے مقابلے میں دگنی تعداد میں ریسرچ پیپر شایع ہورہے ہیں۔ اس میں اہم کردار گاؤ کیسیا اور ان کی ٹیم کا ہے۔

ہر لمحے چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھنے والی خوش اخلاق گاؤ کیسیا اور ان کے ساتھیوں نے اگست 2013ء میں پہلی بار ایک پودے کے ڈی این اے میں ترمیم کے ذریعے اپنے کامیاب سفر کا آغاز کیا تھا۔ 6 برسوں کے دوران 50 سالہ سائنس داں کی مختلف فصلوں پر جینوم ایڈیٹر کے استعمال سے متعلق تین درجن تحقیق شایع ہوچکی ہیں۔ منیسوٹا یونی ورسٹی سے منسلک نباتی جینیات کے ماہر ( plant geneticist ) ڈینیئل وائیٹس جنھوں نے پہلے ایک جینیاتی تدوین کا نظام ( genome-editing system ) وضع کیا تھا اور کرسپر کو بھی اپنایا تھا، گاؤ کو ایک غیرمعمولی سیل بایولوجسٹ (cell biologist) قرار دیتے ہیں جو کرسپر کے شہ زور اسپ پر آغاز ہی میں سوار ہوگئی اور اب اسے سرپٹ دوڑا رہی ہے۔ تاہم اس دوڑ میں وہ اکیلی نہیں ہے۔ گاؤ اور اس کے ساتھی چین کی ان 20 ٹیموں میں سے ایک ٹیم ہیں جو فصلوں میں جینیاتی تبدیلیاں کرنے کے لیے کرسپر کا استعمال کررہی ہیں۔

2017ء میں کرسپر ٹیکنالوجی کے تحقیقی میدان میں چینی کاوشیں اس وقت سرحد پار پہنچ گئیں جب سرکاری کمپنی ChemChina نے 43 ارب ڈالر کی لاگت سے سوئٹزرلینڈ کی کمپنی Syngenta خرید لی۔ مؤخرالذکر زراعتی کاروبار سے وابستہ دنیا کی چار صف اول کی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ اس کے ماہرین کی ایک بڑی تحقیقی ٹیم کرسپر کا استعمال کررہی ہے۔ نیویارک میں واقع کولڈ اسپرنگ ہاربر لیبارٹری سے منسلک نباتی جینیات کے ماہر زیچری لپمین کے مطابق چین کی جانب سے کسی غیرملکی کمپنی کی خریداری کے لیے خرچ کی گئی یہ سب سے بڑی رقم تھی۔ لپمین کے خیال میں اس سودے سے حکومت، صنعت اور جہان علم کے مابین ایک مستحکم تعلق استوار ہوا جو یونی ورسٹی کی تجربہ گاہوں سے علم و دانش کی کمپنی کو منتقلی کا ذریعہ بنے گا۔

سنجینٹابیجنگ انوویشن سینٹر میں 50 سائنس دانوں کی ٹیم کے سربراہ اور انگلستان کے شہر ڈرہم میں واقع ایک تجربہ گاہ کے اشتراک سے تحقیق منصوبوں پر کام کرنے والے ژینگ بی کہتے ہیں کہ چینی راہنما ایک حکمت عملی کے تحت جینوم ایڈیٹنگ میں سرمایہ کاری کرنا اور اس میدان میں عالمی لیڈر بننا چاہتے ہیں۔

چین بہ لحاظ آبادی دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جس کی سرزمین پر ایک ارب 40کروڑ نفوس سانس لے رہے ہیں۔ بیجنگ میں واقع چائنیز اکیڈمی آف سائنسز کے سابق صدر اور موجودہ نائب وزیر برائے زراعت لی جیانگ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے محدود وسائل کے ساتھ ایک ارب 40کروڑ شہریوں کی غذائی ضروریات پوری کرنی ہیں۔ اس کے لیے ہمیں کیمیائی کھادوں اور حشرات کش زہر کی کم ترین مقدار استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ زرعی پیداوار حاصل کرنی ہوگی، اس کے ساتھ ساتھ خوردنی فصلوں کی ایسی اقسام تیار کرنی ہوں گی جو حشرات اور امراض کے خلاف بلند تر مزاحمت کی حامل ہوں نیز خشک سالی اور سیم و تھور کو بھی برداشت کرسکیں۔ یہ تمام اہداف فصلوں کی کلیدی جینز کی تلاش اور ان میں مطلوبہ ترامیم ہی سے حاصل ہوسکتے ہیں۔ لی جیانگ سائنس داں بھی ہیں اور گاؤ ہی کے کیمپس میں چاول پر تحقیق رکھے ہوئے ہیں۔

چینی حکومت کو قوی امید ہے کہ کرسپر جیسی انقلابی ٹیکنالوجی مستقبل میں قریباً ڈیڑھ ارب چینیوں کی شکم سیری کا ذریعہ بنے گی تاہم کرسپر اور جینیاتی ترامیم کے تحت تخلیق کردہ فصلوں کے تجربہ گاہوں سے نکل کر کھیتوں اور کھانے کی میز تک پہنچنے سے قبل اس سلسلے میں قوانین و ضوابط کا تعین دیگر ممالک کی طرح چین میں بھی متنازع ہوسکتا ہے۔ 2018ء میں ایک یورپی عدالت نے قرار دیا تھا کہ یہ فصلیں جینیاتی تبدیلیوں سے گزرے جاندار ( genetically modified organisms ) یا GMOs ہیں جن کے لیے سخت ضوابط کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس امریکی محکمہ زراعت جینیاتی تبدیلیوں کے حامل پودوں کو اس وقت تک GMOs کی فہرست میں شامل کرنے سے انکاری ہے جب تک کہ ان کی پیدائش دوسری انواع سے ڈی این اے کی منتقلی کے بجائے انھی کے خلیوں کے جینز میں تبدیلی ( mutation ) کے ذریعے نہ ہو۔

چینی صارفین جینیاتی تغیر کے ذریعے تیارکردہ غذاؤں ( GM food ) کے استعمال سے گریزاں ہیں۔ چین میں ان غذاؤں کی درآمد پر پابندی ہے اور واحد جی ایم فوڈ جو ہمارے دوست ملک میں پائی جاتی ہے وہ مقامی استعمال کے لیے چینی سرزمین ہی پر اگایا جانے والا پپیتا ہے۔ لپمین سمیت مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے ماہر نباتیات کا خیال ہے کہ اب کرسپر ٹیکنالوجی کے ضمن میں چین امریکا کے نقش قدم پر چلے گا۔

کرسپر سے متعلق قواعدوضوابط کے سلسلے میں چین کا فیصلہ جو بھی ہو وہ اس ٹیکنالوجی کی حدود کا احاطہ نہیں کرسکتا۔ ڈینیل وائیٹس کہتے ہیں کہ ابھی ہمیں اس نوع کے متعدد چیلینجز کا سامنا کرنا ہے۔ تاہم اسے توقع ہے کہ کرسپر میں صنعتی اور علمی و تحقیقی سطح پر چین کی بھاری سرمایہ کاری سے بہتر تیکنیکیں اور نئی فصلیں حاصل ہوسکیں گی۔ ڈینیئل کی رائے میں چین بھاری سرمایہ کاری کے بعد اس ٹیکنالوجی کے ذریعے دریافتوں کے ایک نئے جہان میں داخلے کی تیاری کرچکا ہے۔

کرسپر سے جوجھتی صف اول کی سائنس داں گاؤ کیسیا کا خاندانی پس منظر دیہی نہیں ہے، نہ ہی اس کے آباء و اجداد کاشت کار تھے۔ ہائی اسکول کی تعلیم کے دوران بھی اس کے ذہن میں ماہرنباتیات بننے کا خیال دور دور تک نہیں تھا۔ چین میں ہائی اسکول کے طلبا سے ایک معیاری امتحان لیا جاتا ہے۔ اس امتحان میں کارکردگی کی بنیاد پر انھیں مخصوص یونی ورسٹیوں میں مخصوص مضامین داخلے دیے جاتے ہیں۔ گاؤ کے مطابق وہ ڈاکٹر بننے کی خواہاں تھی مگر اسے زرعی یونی ورسٹی میں داخلہ لینے کی پیش کش ہوئی۔ گاؤ نے سوچا پھر امتحان دینے کے لیے مزید ایک سال ہائی اسکول میں گزارنے سے بہتر ہے کہ یہ پیش کش قبول کرلی جائے۔ یوں چین کو ایک قابل سائنس داں میسر آگئی۔

ملکی ضروریات کو فرد کی خواہش پر فوقیت دینے کی خامی سے قطع نظر یہ نظام تعلیم چین میں زرعی تحقیق کی ایک مضبوط کمیونٹی کے قیام میں معاون ثابت ہوا ہے اور حکومت نے بھاری فنڈنگ سے اسے پائیدار کیا ہے۔ 2013ء میں زرعی تحقیق کے شعبے میں چین کی سرکاری فنڈنگ 10 ارب ڈالر کی سطح عبور کرچکی تھی۔ یہ رقم امریکا کے مقابلے میں دگنی تھی اور گیارہ سو زرعی تحقیقی اداروں کو فراہم کی جارہی تھی۔

گاؤ کیسیا کرسپر کی جانب 2012ء میں ایک یادگار تحقیق پڑھنے کے بعد متوجہ ہوئی جو یہ ظاہر کررہی تھی کہ بیکٹیریائی نظام کو جینوم تبدیل کرنے کے اوزار میں کیسے بدلا جائے۔ ان دنوں گاؤ کیسیا کی تجربہ گاہ میں جینوم ایڈیٹنگ کے لیے ایک قدرے پیچیدہ ایڈیٹر transcription activatorlike effector nuclease ( TALEN) ) سے کام لیا جارہا تھا۔ یہ نظام ڈینیئل وائیٹس کی ایجاد ہے۔ گاؤ کہتی ہے کہ TALENکی مدد سے ہم 100 جینز کے ساتھ کام یاب ’چھیڑ چھاڑ‘ کرچکے تھے اور اس وقت نئی ٹیکنالوجی اپنانے کے بارے میں تذبذب کا شکار تھے لیکن پھر میں نے یہ مشکل فیصلہ کرلیا۔

اس انقلابی ٹیکنالوجی سے گاؤ کو پہلی کام یابی چاول کے ڈی این اے کی تدوین ( editing ) کی صورت میں حاصل ہوئی جس کا جینوم جسامت میں انسانی جینوم سے آٹھ گنا چھوٹا ہے۔ جلد ہی گاؤ نے گندم کے ڈی این اے کو بھی ’ شکست‘ دے ڈالی جس میں کروموسومز کے چھے سیٹ ہوتے ہیں اور یہ انسانی جینوم سے چھے گنا جسیم ہوتا ہے۔ جولائی 2014ء میں گاؤ اور ان کی تحقیق شایع ہوئی جس میں بتایا گیا تھا کہ TALEN اور اس سے زیادہ سادہ کرسپر کی مدد سے ان لحمیات کی پیدائش کیسے محدود کی جاسکتی ہے جو گندم میں سفوفی پھپھوند لگنے کا سبب بنتے ہیں۔ یہ مرض گندم کی فصل کو تباہ کردیتا ہے۔ لپمین کے مطابق یہ بہت اہم کام یابی تھی کیوں کہ گندم کے ڈی این اے میں کلیدی جینز کی چھے نقول ( copies ) ہوتی ہیں اور بریڈنگ ( breeding) کے روایتی طریقوں سے ان سب کو شکست دینے میں دہائیاں صرف ہوجاتیں۔

کرسپر سے ایک ہی بار میں متعدد جینز میں تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں اور یہ ٹیکنالوجی TALEN کے مقابلے میں سادہ اور تیز تر ہے، تاہم اس کی بھی حدود ہیں۔ ’’سائنس‘‘ نامی جریدے کے 19 اپریل 2019 کے شمارے میں گاؤ کی شایع شدہ رپورٹ ظاہر کرتی تھی کہ کرسپر کی ایک مقبول شکل ( variation ) جو base editors کہلاتی ہے وہ اپنے ہدف کے علاوہ بھی اضافی جینز سے چھیڑچھاڑ کردیتی ہے۔ علاوہ ازیں کرسپر اگرچہ موجود جینز میں کام یابی سے تبدیلیاں کرسکتی ہے تاہم متعدد پودوں کی خصوصیات کو جب اس کی دسترس میں لایا جائے تو پھر یہ ان سب میں یکساں مہارت سے نئے جینز کا اضافہ نہیں کرسکتی۔ گاؤ کا کہنا ہے کہ ہمیں کرسپر کے ان پہلووں پر مزید تحقیق کرنے اور ان میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔

کرسپر پر تحقیق کرنے والے جینوم ایڈیٹر کے اجزا کو نباتاتی خلیوں کی مضبوط حفاظتی دیوار میں سے داخل کرنے کے لیے آسان طریقے کھوج رہے ہیں۔ فی الوقت سائنس داں کرسپر کے اجزا خلیے کے اندر پہنچانے کے لیے پیچیدہ انجیکشن ڈیوائسز پر انحصار کررہے ہیں جنھیں ’جین گن‘ کہا جاتا ہے۔ دوسرے طریقے میں یہ کام پودے میں انفیکشن پھیلانے والے بیکٹیریا سے لیا جاتا ہے۔ تاہم چین کی تازہ ملکیت Syngenta غالباً ایک بہتر اپروچ اختیار کررہی ہے۔ شمالی کیرولائنا میں واقع کمپنی کے یونٹ میں مکئی کے زردانے کو کرسپر کی مشینری خلیوں میں منتقل کرنے کے ’قابل‘ بنایا گیا ہے۔ یہ مشینری خلیوں میں مطلوبہ ترمیم کرنے کے بعد تحلیل ہوجاتی ہے۔ سائنسی جریدے ’’نیچر بایوٹیکنالوجی‘‘ کے اپریل کے شمارے میں شایع شدہ رپورٹ کے مطابق ابتدائی شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ گندم اور سبزیوں کی چند اقسام میں یہ تیکنیک کارگر رہی ہے۔

ماہرجینیات کیتھرین فوئیلٹ کا خیال ہے کہ سائنس دانوں کو اب بھی موزوں جینز کو پہچاننے کی ضرورت ہے جن میں وہ تبدیلی لانے کے خواہاں ہوں۔ کیتھرین پہلے معروف ادویہ ساز کمپنی بائر میں ’کراپ سائنسز‘ کے شعبے کی سربراہ تھیں۔ ان دنوں وہ میساچوسیٹس کی ایک کمپنی ’ایناری ایگریکلچر‘ میں چیف سائنٹیفک آفیسر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہی ہیں (اس کمپنی نے لپمین کی ٹیکنالوجی کو اپنالیا ہے اور وہ کمپنی کے مشیر کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔) کیتھرین کہتی ہیں کہ حشرات اور فنجائی (پھپھوند) پر قابو پانے کے لیے ایک جین میں تبدیلی کے عمل سے بایوٹیکنالوجی انڈسٹری کا معاشی انحصار رہا ہے مگر ایک سے زائد جینز، جو اکثر نامعلوم ہوتے ہیں، وہ فصلوں کی پیداوار، خشک سالی برداشت کرنے یا کیمیائی کھادوں کے بغیر سرسبز اور صحت مند رہنے کی صلاحیت پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ کیتھرین کہتی ہیں کہ اس کھیل میں فاتح وہ شخص ہے جو یہ پیش گوئی کرسکے کہ کس جین میں تبدیلی کرنے سے کیا ہوگا۔

اگرچہ گاؤ، بائی اور چین کے نباتاتی محققین کی بقیہ برادری جینیاتی طور پر تدوین شدہ فصلیں پیش کرنے کے لیے تیار ہے مگر اس سے قبل حکومت کو اپنی ریگولیٹری پالیسیاں واضح کرنی ہوں گی۔ انڈسٹری پر نگاہ رکھنے والے کئی ماہرین کا خیال ہے کہ حکومت امریکا میں اس ٹیکنالوجی پر عوامی ردعمل کا انتظار کررہی ہے۔ فروری میں منیسوٹا کی ایک کمپنی نے، جس کا وائیٹس شریک بانی ہے، پہلی جینیاتی تغیرات کے ذریعے تیارکردہ غذائی مصنوعہ فروخت کے لیے پیش کی۔ یہ مصنوعہ TALEN کی مدد سے تیار کیا گیا سویا بین کا ’صحت بخش‘ خوردنی تیل ہے جو کمپنی صنعتوں کو فراہم کررہی ہے۔ ’کلائنو آئل‘ میں کمپنی کے دعوے کے مطابق غیرسیرشدہ روغنیات ( trans fats) کی مقدار صفر فیصد اور اولیک ایسڈ 80 فیصد ہے۔ علاوہ ازیں کمپنی کی جانب سے تیل کی ’ فرائی لائف‘ تین گنا زائد اور عام خوردنی تیل سے کہیں زیادہ عرصے تک تازہ رہنے کا دعویٰ بھی کیا گیا ہے۔

ریاست ڈیلاویئر میں قائم کورٹیوا نامی کمپنی ممکنہ طور پر کرسپر سے تیارکردہ پہلی فصل متعارف کروانے کا اعزاز حاصل کرے گی۔ تاہم یہ ابھی وہ فصل پیش کرنے سے بہت دور ہے جو دنیا بھر کی غذائی ضروریات پوری کرنے میں معاون ہوسکے۔ کورٹیوا کی ذیلی زرعی تحقیقی کمپنی نے ہندوستانی مکئی ( waxy corn ) کو بہتر بنانے کے لیے اس کے ڈی این اے میں سے ایک جین کا خاتمہ کردیا۔ مکئی کی یہ قسم چمک دار کاغذ اور خوراک کو گاڑھا بنانے میں استعمال کی جاتی ہے۔ کورٹیوا کے چیف ٹیکنالوجی آفیسر نیل گٹرسن کہتے ہیں کہ ہمیں امید ہے کہ مکئی کی یہ نئی اور زیادہ نرم قسم کرسپر کے ذریعے تیار کردہ غذاؤں کے تصور کو عوام الناس کے لیے قابل قبول بنانے میں معاون ہوگی۔ نیل گٹرسن کے مطابق لوگ ٹیکنالوجی اور غذا کا میل ملاپ پسند نہیں کرتے۔

کورٹیوا، سنجینٹا اور دوسری دو بڑی ایگریکلچر کمپنیوں BASF اور بائر کا اصل ہدف کرسپر کی مدد سے مختلف فصلوں کی نفع بخش اقسام تیار کرنا ہے جن کی تجارتی مارکیٹ میں بے حد مانگ ہو۔ یہ کمپنیاں فی الوقت مکئی کی درجنوں اقسام کے بیج فروخت کرتی ہیں جو زیادہ پیداوار دیتے اور نباتات کش ادویہ کے خلاف مزاحمت رکھتے ہیں۔ کسی فصل کی انتہائی اعلیٰ قسم کے حصول کی خاطر درکار جینیاتی عمل کی انتہائی خالص سطح، پودوں کی کئی نسلوں کی درجہ بہ درجہ روایتی بریڈنگ کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ تاہم ان تمام مراحل کو انتہائی کم وقت میں مکمل کرنے کے لیے کرسپر بہت ہی خالص طریقہ ہے۔ پودوں کی جینیاتی انجنیئرنگ کے ابتدائی طریقے غیرمطلوبہ جینیاتی تبدیلیوں کا باعث بھی بن جاتے تھے جن کا ازالہ مشکل ہوتا تھا۔

2016ء میں جاری کردہ 5 سالہ منصوبے میں چینی حکومت نے یہ اشارہ دیا تھا کہ وہ پودوں کی جدید جینوم ایڈیٹنگ کی حمایت کرے گی۔ کئی مشاہدہ کاروں کے نزدیک سنجینٹا کی خرید نے اس کی تصدیق کردی ہے۔ نارتھ کیرولائنا اسٹیٹ یونی ورسٹی سے وابستہ غذائی سائنس داں، ماہرجینیات اور کرسپر ٹیکنالوجی کے اولین تحقیق کاروں میں شامل روڈولف بیرانگو کہتے ہیں کہ چین کا برسوں سے یہ منصوبہ تھا اور میرے خیال میں سنجینٹا کی ملکیت کا حصول اسی سلسلے کی ابتدائی کڑی ہے۔

بیرانگو کے مطابق چینی حکومت اس ضمن میں چپ سادھے ہوئے ہے کہ کرسپر کے ذریعے جینیاتی ترمیم سے تخلیق کردہ پودوں کو کیسے ریگولیٹ کیا جائے گا۔ ماہرجینیات کے مطابق اس چُپ کی اسٹریٹجک وجوہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ممکن نہیں کہ اس کھیل میں چین علی الاعلان کہہ دے کہ وہ کب اپنی مصنوعات پیش کرے گا۔ نارتھ کیرو لائنا میں واقع کمپنی کی شاخ میں بیجوں پر تحقیق کے شعبے کے سربراہ وو گوسوئی کے مطابق یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ چین کی جانب سے گرین سگنل ملنے کے بعد سنجینٹا کرسپر سے تیارکردہ کون سی فصل سب سے پہلے مارکیٹ میں لائے گی۔

یہ فصل ٹماٹر کی ہوسکتی ہے اور مکئی کی بھی۔ اس کا انحصار آئندہ دو تین برسوں میں ہونے والی پیش رفت پر ہے۔ گوسوئی کا کہنا ہے کہ سنجینٹا کرسپر سے تیار کی گئی مکئی کو چین کے لیے ایک اہم غذائی جنس کے طور پر دیکھ رہی ہے جہاں اس فصل کی کاشت دنیا میں سب سے زیادہ ہوتی ہے تاہم فی ہیکٹر پیداوار امریکا کی نسبت صرف 60 فیصد ہے۔ اس کا ایک سبب ایک قسم کی سنڈی (ear worms ) ہے جو فصل کو کمزور کردیتی ہے۔ مکئی کے کمزور پودوں میں پھپھوند لگ جاتی ہے جو ایک قسم کا زہر پیدا کرتی ہے۔ یہ زہر پودوں کو جانوروں کے چارے کے قابل نہیں رہنے دیتا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ رقبے پر کاشت کرنے کے باوجود چین کو مکئی کی بڑی مقدار درآمد کرنی پڑتی ہے۔ (امریکی محکمہ زراعت کے مطابق امریکا میں پیدا ہونے والی 82 فیصد مکئی کی فصل میں جینیاتی انجنیئرنگ کے ذریعے ایک بیکٹیریائی جین پیدا کردیا گیا ہے جو ایئر ورمز کے خلاف فصل میں مزاحمت پیدا کرتا ہے)

کرسپر ٹیکنالوجی کی مدد سے سنجنٹا سے وابستہ سائنس داں اس قابل ہوسکتے ہیں کہ مکئی کے جینوم میں محدود وقت میں ترمیم کرتے ہوئے حشرات کے خلاف مزاحمت کی صلاحیت پیدا کرسکیں۔ اس سے نہ صرف چین کی غذائی رسد بڑھے گی بلکہ زراعت سے وابستہ کاروباروں کو بھی فروغ ملے گا۔ چین میں بیجوں کی خریدوفروخت کی صنعت سے 3000 کمپنیاں منسلک ہیں مگر مکئی کے کاروبار میں کسی کمپنی کا حصہ 10 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ سنجینٹا چین کی سب سے بڑی بیج کمپنی بننے کے لیے پورا زور لگارہی ہے۔ چین اگر اپنی مارکیٹ کو امریکا کے مانند جدید بنالیتا ہے تو پھر یہ مارکیٹ بھی امریکی مارکیٹ کے مساوی وسعت اختیار کرسکتی ہے۔

چین کی پہلی کرسپر فصل کے طور پر گاؤکیسیا کا انتخاب مختلف ہے۔ وہ خوشبودار چاول کی مختلف اقسام اور پھپھوند کے خلاف مزاحم گندم کو اپنے ملک میں متعارف کرائی جانے والی اولین فصل کے طور پر دیکھنے کی متمنی ہے۔ گاؤ کا کہنا ہے اس بات سے قطع نظر کہ کسان کس جینیاتی فصل کی سب سے پہلے کاشت کریں گے، یہ بات یقینی ہے کہ کرسپر سے اخذکردہ طبی علاج کے کلینک تک پہنچنے سے پہلے یا جانوروں کے لیے کسی مصنوعہ کی مارکیٹ میں فراہمی سے قبل کھیتوں میں جینیاتی ترامیم سے گزری فصلوں کی کاشت شروع ہوچکی ہوگی۔

گاؤ سے استفسار کیا جائے کہ اگر چینی حکومت جینیاتی تغیرات کی حامل غذاؤں کے لیے دروازے کھول دیتی ہے تو اس کے ٹشوکلچر روم یا گرین ہاؤسز میں اُگائے گئے پودوں کی عام کھیتوں میں کاشت کے لیے کتنا عرصہ درکار ہوگا تو اس کا جواب ہوتا ہے،’’محض چھے ماہ، کیوں کہ ہم کرسپر سے کام لے رہے ہیں!‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔