کرفیو کے دن، کرفیو کی راتیں

دانش ارشاد  پير 9 ستمبر 2019
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد کشمیری عوام کس حال میں ہیں؟
 فوٹو : فائل

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد کشمیری عوام کس حال میں ہیں؟ فوٹو : فائل

5 اگست کو ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 میں ترمیم کے بعد مقبوضہ کشمیر ( وادی سمیت جموں اور لداخ )سے ابھی تک کوئی اچھی خبر سننے کو نہیں ملی سوائے اس کے کہ لداخ اور جموں میں بھی ہندوستان کے اس فیصلے کے خلاف سخت ردعمل دیکھنے کو ملا۔ 26 دن سے مقبوضہ کشمیر میں مکمل بلیک آؤٹ ہے۔

کرفیو کے نفاذ اور شدید ترین پابندیوں نے مقبوضہ کشمیر کو تین ہفتوں سے بھی زائد عرصے سے لاک ڈان کی صورتحال میں دھکیل دیا ہے اور 5اگست کو جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد سے اندرونی حالات سے متعلق معلومات بمشکل باہر آ رہی ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی صورتحال کسی حد تک بی بی سی اور دوسرے بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے سامنے آ رہی ہے تاہم اصل صورتحال اس قدر مخدوش ہے جس کا آج کے دور میں اندازہ کرنا مشکل ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر کے بلیک آؤٹ اور اظہار رائے کی پابندیوں کو سمجھنے کیلئے ایک دوست سے ہونے والی بات چیت آپ کی نذر کرتا ہوں ۔

ایک دوست کے مطابق ان کی ایک رشتہ دار حج پر گئیں ۔ ان کی واپسی کی جب فلائیٹ تھی تو ان کا بیٹا اپنی والدہ کا استقبال کرنے سری نگر ائیرپورٹ گیا۔ جب حاجی ائیرپورٹ سے باہر آنا شروع ہوئے تو وہ پھولوں کا ہار ہاتھوں میں تھام کر والدہ کے انتظار میں کھڑا ہوگیا۔والدہ کے گروپ کے سارے حاجی ائیرپورٹ سے باہر آگئے لیکن اس کی والدہ دکھائی نہ دیں۔ مضطرب بیٹے نے والدہ کے بارے میں پوچھا تو  گروپ کے حاجیوں نے جھجکتے ہوئے بتایا کہ آپ کی والدہ 20روز قبل سرزمین حجاز میں انتقال کرگئی تھیں، ان کی وہیں تدفین کر دی گئی۔ذرائع مواصلات کی پابندیوں کی وجہ سے آپ کو اطلاع نہیں دی جا سکی۔ یہ واقعہ بتانے والے نے اس وقت بتایا جب وہ ہندوستان سے باہر گیا۔ ہندوستان میں رہتے ہوئے وہ یہ واقعہ نہیں بتا پائے ۔

اسی طرح سری نگر سے دہلی پہنچنے والے ایک ڈاکٹر(ان کی شناخت ظاہر نہیں کی جا رہی ہے) نے انکشاف کیا کہ بھارتی حکومت نے مقبوضہ ریاست کے تمام ہسپتالوں کو سیکورٹی فورسز کے تشدد سے زخمی ہونے والوں کے علاج سے روک دیا ہے۔ ہسپتالوں کے سربراہان کو جاری کیے جانے والے زبانی حکم میں کہا گیا ہے کہ پیلٹ گن کے چھروں ، گولیوں، آنسو گیس یا فورسز کے کسی دیگر تشدد کے حربوں سے زخمی ہونے والوں کو  فوری طبی امداد مہیا کی جائے نہ ہی انہیں علاج کے لیے ہسپتال میں داخل کیا جائے۔ زخمی کی حالت جس قدر چاہے خراب ہو، اسے بغیر علاج اور طبی امداد دیے ہسپتال سے نکال دیا جائے۔

ڈاکٹر کے مطابق میں نے بذات خود شیر کشمیر میڈیکل انسٹیٹیوٹ سرینگر میں پیلٹ سے بری طرح زخمی سات سال تک کے چھوٹے بچے دیکھے ہیں۔ ان بچوں کو طبی امداد کی اشد ضرورت تھی اور امداد نہ ملنے کی صورت میں ان کی بینائی ختم ہونا یقینی تھا لیکن ہسپتال میں موجود بھارتی فورسز کے اہلکاروں نے ڈاکٹرز کو ان کا علاج کرنے سے زبردستی روک دیا گیا اور انہیں اسی زخمی حالت میں ہسپتال سے باہر نکال دیا گیا۔ڈاکٹر نے یہ بھی بتایا کہ ہسپتالوں کو ڈیتھ سرٹیفکیٹ جاری کرنے سے بھی تا حکم ثانی روک رکھا ہے تاکہ مرنے والوں کی مستند تعداد ظاہر نہ ہو سکے۔

بھارتی حکومت علاج کی عدم فراہمی کو کشمیر کے شہریوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ مقبوضہ ریاست میں ڈاکٹرز بار بار ادویات کی شدید قلت کی نشاندہی کرچکے ہیں لیکن دوائیوں کی سپلائی کا کوئی بندوبست نہیں کیا گیا۔ وادی میں ڈسپوزیبل میڈیکل آلات نایاب ہوچکے ہیں۔دو تین دن کے بعد گردے کے مریضوں کے ڈائیلیسز نہیں ہوسکیں گے۔ نہ آپریشنز کرنا ممکن رہے گا۔انٹرنیٹ بند ہونے کی وجہ سے پہلے ہی مقبوضہ کشمیر میں لوگ اپنی ہیلتھ انشورنس سے علاج نہیں کرا سکتے، سرکاری ملازمین اپنا ہیلتھ کارڈ استعمال نہیں کر سکتے۔ اے ٹی ایم سے رقم نکلوانا بھی ممکن نہیں ہے۔

اسی طرح وادی کشمیر میں ہونے والے تشدد کو رپورٹ کرتے ہوئے ’بی بی سی‘ نے لکھا کہ’’ مقبوضہ کشمیر میں ریاست کی خود مختاری ختم کرنے کے حکومتی فیصلے کے بعد کشمیریوں نے سکیورٹی فورسز پر مارپیٹ اور تشدد کے الزامات عائد کیے ہیں۔کئی دیہاتیوں نے بتایا کہ انھیں لاٹھیوں اور بھاری تاروں سے مارا گیا اور بجلی کے جھٹکے دیے گئے۔ خطے میں ہزاروں اضافی فوجیوں کو تعینات کیا گیا ہے اور اطلاعات کے مطابق سیاسی رہنماؤں، کاروباری شخصیات اور کارکنان سمیت تقریباً3000  افراد کو زیرِ حراست رکھا گیا ہے۔ کئی افراد کو ریاست کے باہر موجود جیلوں میں منتقل کردیا گیا ہے۔

ایک گاؤں میں دیہاتیوں کا کہنا تھا کہ انڈیا کی جانب سے کشمیر اور دہلی کے درمیان خصوصی انتظام کو ختم کرنے کے متنازع فیصلے کے چند گھنٹوں بعد ہی فوج گھر گھر گئی۔ دو بھائیوں کا الزام تھا کہ انھیں جگایا گیا اور باہر ایک علاقے میں لے جایا گیا جہاں ان کے گاؤں کے تقریباً ایک درجن دیگر مرد بھی جمع تھے۔ ہم جس سے بھی ملے، ان کی طرح یہ لوگ بھی اپنی شناخت ظاہر ہونے پر سنگین نتائج کے خوف کا شکار تھے۔ان میں سے ایک نے بتایا کہ انھوں نے ہمیں مارا۔ ہم ان سے پوچھتے رہے کہ ہم نے کیا کیا ہے؟ آپ گاؤں والوں سے پوچھ لیں اگر ہم نے کچھ غلط کیا ہے؟ مگر وہ کچھ بھی سننا نہیں چاہتے تھے اور انھوں نے کچھ بھی نہیں کہا، وہ بس ہمیں مارتے رہے۔

انھوں نے میرے جسم کے ہر حصے پر مارا پیٹا۔ انھوں نے ہمیں لاتیں ماریں، ڈنڈوں سے مارا، بجلی کے جھٹکے دیے، تاروں سے پیٹا۔ انھوں نے ہمیں ٹانگوں کی پچھلی جانب مارا۔ جب ہم بے ہوش ہو گئے تو انھوں نے ہمیں ہوش میں لانے کے لیے بجلی کے جھٹکے دیے۔ جب انھوں نے ہمیں ڈنڈوں سے مارا اور ہم چیخے تو انھوں نے ہمارے منہ مٹی سے بھر دیے۔ہم نے انھیں بتایا کہ ہم بے قصور ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ وہ یہ کیوں کر رہے تھے؟ مگر انھوں نے ہماری ایک نہ سنی۔ میں نے ان سے کہا کہ ہم پر تشدد نہ کریں،  بس ہمیں گولی مار دیں۔ میں خدا سے موت کی دعا کر رہا تھا کیونکہ یہ تشدد ناقابلِ برداشت تھا۔‘‘

میڈیا رپورٹس کے مطابق سرینگر کا نواحی علاقہ صورہ کشمیری مزاحمت کا نیا مرکز بن گیا ہے، کبھی یہ علاقہ نیشنل کانفرنس کا مرکز سمجھا جاتا تھا تاہم مبصرین کہتے ہیں کہ صورہ کی آبادی کے ایک حصے کا جھکاؤ ضرور نیشنل کانفرنس کی طرف ہو گا لیکن گزشتہ 30سال کے دوران اس علاقے کے لوگوں میں انڈیا مخالف جذبات پروان چڑھے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج جب پورے کشمیر پر ایک خوفناک خاموشی طاری ہے، صورہ کے جناب صاحب اور آنچار علاقوں کی آبادی حکومت کے ساتھ براہ راست ٹکرا میں مصروف ہے۔اسی سے ملتی جلتی صورتحال جموں میں بھی ہے تاہم جموں شہر کی حد تک انٹرنیٹ سروس میسر ہے۔جموں سے بی جے پی کے عہدیدار ڈاکٹر نرمل سنگھ کی جانب سے ریاست جموں و کشمیر میں بیرون ریاست لوگوں کی زمین خریداری پر پابندی کا مطالبہ سامنے آیا ہے جس کے بعد مرکز کی جانب سے ان پر خاصا دباؤ ہے کہ وہ بیان واپس لیں تاہم ابھی تک انہوں نے بیان واپس نہیں لیا۔

لداخ میں بھی شناخت کے لئے کافی حساسیت پائی جاتی ہے۔ لداخ سے ممبر لوک سبھا نے بھارتی پارلیمنٹ کو خط لکھا جس میں بتایا گیا کہ لداخ میں زمین کے تحفظ اور جابز کے حصول کے معاملے کو لداخ تک محدود رکھا جائے اور ان کی شناخت کو 35 اے سے زیادہ بہتر انداز میں تحفظ فراہم کیاجائے۔ لداخ صوبے کے ضلع کرگل کے عوام نے مطالبہ کیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کی شناخت کو بحال کر کے لداخ کو واپس وادی کے ساتھ جوڑا جائے۔ اگر لداخ کو وادی کے ساتھ نہیں جوڑا جاتا تو ضلع کرگل کو لداخ سے الگ کر کے الگ یونین ٹیریٹری کا درجہ دے کر شناخت کو تحفظ دیا جائے۔

اب اس معاملے پر دہلی حکومت انتہائی بری طرح پھنس چکی ہے اور اس فیصلے کے بعد ہندوستان کی معیشت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق دہلی حکومت نے ریزرو بنک آف انڈیا سے 24.5 ارب ڈالر لئے ہیں جو ان کی معیشت پر اثرات کا پتا بتا رہا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا پہلے کیس کی سماعت نہ کرنے کے فیصلے کے بعد دوبارہ سماعت کیلئے منظور کرنا اس بات کا پتا دیتا ہے کہ حالات اگر زیادہ خراب ہوئے تو ہندوستان آرٹیکل 370 میں ترمیم کے فیصلے کو سپریم کورٹ کے ذریعے ریورس کرے گا۔

بھارتی سپریم کورٹ میں کیسز
انڈیا کی سپریم کورٹ میں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے معاملے کی سماعت اکتوبر میں پانچ رکنی آئینی بنچ کرے گا۔چیف جسٹس انڈیا رنجن گوگوئی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے یہ حکم انڈین آئین کے آرٹیکل370 کے خاتمے اورجموں و کشمیر میں جاری سکیورٹی لاک ڈائون کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران دیا ہے۔ایم ایل شرما کی درخواست پر سماعت کے دوران سولیسٹر جنرل اور اٹارنی جنرل کا کہنا تھا حکومت اس سلسلے میں جواب داخل کرے گی۔ عدالت نے کشمیر ٹائمز کی ایگزیکٹیو ایڈیٹر انورادھا بھسین کی جانب سے کشمیر میں عائد پابندیوں کے حوالے سے جمع کروائی گئی درخواست پر مرکزی اور جموں و کشمیر کی حکومت کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے سات دن میں جواب طلب کر لیا ہے اور کہا ہے کہ پانچ رکنی بنچ اس معاملے کی سماعت کرے گا۔

سپریم کورٹ جن افراد کی درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے ان میں انورادھا بھسین کے علاوہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا(مارکسسٹ)کے رہنما سیتا رام یچوری، کانگریس کے رہنما تحسین پوناوالا، کشمیر سے تعلق رکھنے والے سیاستدان اور سابق سرکاری ملازم شاہ فیصل کے علاوہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی طالبعلم رہنما شہلا رشید بھی شامل ہیں۔ان دس کے قریب درخواستوں میں جہاں انڈین آئین کی شق 370 کے خاتمے کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے وہیں خطے میں اس فیصلے کی وجہ سے جاری کرفیو اور ذرائع مواصلات کی بندش کی وجہ سے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہونے کی بات بھی کی گئی ہے۔درخواستوں کی سماعت کے دوران انڈین چیف جسٹس نے کہا ہے کہ یہ بات سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ یہ بہت بڑی ذمہ داری کا معاملہ ہے۔

تیتری کراسنگ پوائنٹ
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کی تبدیلی کے بعد لائن آف کنٹرول پر منقسم خاندانوں کو تیتری نوٹ کراسنگ پوائنٹ سے کراسنگ کروائی گئی ۔ کراسنگ پوائنٹ کھولنے کے بعد تقریباً46 افراد نے لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب سفر کیا اور اپنی اپنی منزل پر پہنچے۔ ان میں 40افراد انڈیا کی طرف سے جبکہ چھ افراد پاکستان سے گئے۔کشمیر میں کشیدگی کے بعد یہ کراسنگ پوائنٹ تجارت اور لوگوں کی آمد و رفت کے لیے مکمل طورپر بند کر دیا گیا تھا۔ اس سے پہلے دونوں ممالک کے درمیان چاہے کسی قسم کے حالات بھی رہے ہوں لیکن اس پوائنٹ پر بیشتر اوقات نرمی ہوتی تھی اور یہاں سے تجارت بھی ہوتی تھی۔ فروری میں دونوں ممالک کے درمیان جو مسائل پیدا ہوئے اس کے بعد سے ایل او سی پر سوائے تیتری پوائنٹ کے تمام کراسنگ پوائنٹ بند کردیے گئے تھے لیکن اب کہا جا رہا ہے کہ شاید یہ لوگوں کی یہاں سے آخری کراسنگ تھی کیونکہ ایسا لگ رہا ہے کہ آنے والوں دنوں میں منقسم خاندانوں کے لیے سختیاں مزید بڑھیں گی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔