سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  پير 9 ستمبر 2019

زیادہ دن جھگڑا رہنے سے
محبت میں کمی آجاتی ہے!

سر سید احمد خان
جب کتے آپس میں مل کر بیٹھتے ہیں، تو پہلے تیوری چڑھا کر ایک دوسرے کو بُری نگاہ سے آنکھیں بدل بدل کر دیکھنا شروع کرتے ہیں، تو پھر تھوڑی تھوڑی گونجیلی آواز ان کے نتھنوں سے نکلنے لگتی ہے۔ پھر تھوڑا سا جبڑا کھلتا ہے اور دانت دکھائی دینے لگتے ہیں اور حلق سے آواز نکلنی شروع ہوتی ہے، پھر باچھیں چِر کر کانوں سے جا لگتی ہیں اور ناک سمٹ کر ماتھے پر چڑھ جاتی ہے۔ داڑھوں تک دانت باہر نکل آتے ہیں۔ منہ سے جھاگ نکل پڑتے ہیں اور نحیف آواز کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے چمٹ جاتے ہیں۔ اس کا ہاتھ اس کے گلے میں اور اس کی ٹانگ اس کی کمر میں، اس کے کان اس کے منہ میں، اس کا ٹینٹوا اس کے جبڑے میں، اس نے اس کو کاٹا اور اس نے اس کو کاٹا اور اس نے اس کو پچھاڑ کر بھنبھوڑا۔ جو کم زور ہوا دُم دبا کر بھاگ نکلا۔

نا مہذب آدمیوں کی مجلس میں بھی اسی طرح پر تکرار ہوتی ہے۔ پہلے صاحب سلامت کر کے آپس میں مل بیٹھتے ہیں۔ پھر وہی دھیمی بات چیت شروع ہوتی ہے۔ ایک کوئی بات کہتا ہے۔ دوسرا بولتا ہے واہ! یوں نہیں یوں ہے، وہ کہتا ہے، واہ! تم کیا جانو۔۔۔ دونوں کی نگاہ بدل جاتی ہے۔۔۔ تیوری چڑھ جاتی ہے۔۔۔ رخ بدل جاتا ہے۔۔۔ آنکھیں ڈرائونی ہو جاتی ہیں۔۔۔ باچھیں چِر جاتی ہیں۔۔۔ دانت نکل پڑتے ہیں۔۔۔ تھوک اڑنے لگتا ہے۔۔۔ باچھوں تک کف بھر آتے ہیں۔۔۔ آنکھ، ناک، بھوں، ہاتھ عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگتے ہیں۔۔۔ نحیف نحیف آوازیں نکلنے لگتی ہیں۔۔۔ آستینیں چڑھا، ہاتھ پھیلا اس کی گردن اس کے ہاتھ میں اور اس کی داڑھی اس کی مٹھی میں لپّا ڈُپّی ہونے لگتی ہے۔

کسی نے بیچ بچائو کرا کر چُھڑا دیا تو غراتے ہوئے ایک اُدھر چلا گیا اور ایک اِدھر۔ اور اگر کوئی بیچ بچائو کرنے والا نہ ہوا تو کم زور نے پٹ کر کپڑے جھاڑتے، سر سہلاتے اپنی راہ لی۔ جس قدر تہذیب میں ترقی ہوتی ہے۔ اسی قدر اس تکرار میں کمی ہوتی ہے۔ کہیں غرفش ہو جاتی ہے۔

کہیں تو تکرار پر نوبت آجاتی ہے۔ کہیں آنکھیں بدلنے اور ناک چڑھانے اور جلدی جلدی سانس چلنے پر ہی خیر گزر جاتی ہے، مگر ان میں کسی نہ کسی قدر کتوں کی مجلس کا اثر پایا جاتا ہے۔ پس انسان کو لازم ہے کہ اپنے دوستوں سے کتوں کی طرح بحث و تکرار کرنے سے پرہیز کرے۔ انسانوں میں اختلاف رائے ضرور ہوتا ہے اور اس کے پرکھنے کے لیے بحث و مباحثہ ہی کسوٹی ہے اور اگر سچ پوچھو تو بے مباحثہ اور دل لگی کے، آپس میں دوستوں کی مجلس بھی پھیکی ہوتی ہے، مگر ہمیشہ مباحثہ اور تکرار میں تہذیب و شائستگی محبت اور دوستی کو ہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیے۔

پس اے میرے عزیز ہم وطنو! جب تم کسی کے خلاف کوئی بات کہنی چاہو یا کسی کی بات کی تردید کا ارادہ کرو تو خوش اخلاقی اور تہذیب کو ہاتھ سے مت جانے دو۔ اگر ایک ہی مجلس میں دو بدو بات چیت کرتے ہو تو اور بھی زیادہ نرمی اختیار کرو۔ چہرہ، لہجہ، آواز، وضع ، لفظ اس طرح رکھو جس سے تہذیب اور شرافت ظاہر ہو اور بناوٹ بھی نہ پائی جائے۔ تردیدی گفتگو کے ساتھ ہمیشہ سادگی سے معذرت کے الفاظ استعمال کرو۔ مثلاً یہ کہ میری سمجھ میں نہیں آیا یا شاید مجھے دھوکا ہوا یا میں غلط سمجھا۔ گو بات تو عجیب ہے مگر آپ کے فرمانے سے باور کرتا ہوں۔

جب بات کا الٹ پھیر ہو اور کوئی اپنی رائے نہ دے تو زیادہ تکرار مت بڑھائو۔ یہ کہہ کر میں اس بات کو پھر سوچوں گا یا اس پر پھر خیال کروں گا۔ جھگڑے کو کچھ ہنسی خوشی دوستی کی باتیں کہہ کر ختم کرو۔ دوستی کی باتوں میں اپنے دوست کو یقین دلائو کہ اس دو تین دفعہ کی الٹ پھیر سے تمہارے دل میں کچھ کدورت نہیں آئی ہے اور نہ تمہارا مطلب باتوں کی اس الٹ پھیر سے اپنے دوست کو کچھ تکلیف دینے کا تھا۔

کیوں کہ جھگڑا یا شبہ زیادہ دنوں تک رہنے سے دونوں کی محبت میں کمی ہوجاتی ہے اور رفتہ رفتہ دوستی ٹوٹ جاتی ہے اور اپنی عزیز شے ( جیسے کہ دوستی) ہاتھ سے جاتی رہتی ہے، جب کہ تم مجلس میں ہو جہاں مختلف رائے کے آدمی ملتے ہیں، تو جہاں تک ممکن ہو جھگڑے، تکرار اور مباحثے کو آنے مت دو۔ کیوں کہ جب تقریر بڑھ جاتی ہے، تو دونوں کو ناراض کر دیتی ہے۔ جب دیکھو کہ تقریر لمبی ہوتی جاتی ہے اور تیزی اور زور سے تقریر ہونے لگتی ہے تو جس قدر جلد ممکن ہو اس کو ختم کرو اور آپس میں ہنسی مذاق کی باتوں سے دل کو ٹھنڈا کرلو۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے ہم وطن اس بات پر غور کریں کہ ان کی مجلسوں میں آپس کے مباحثے اور تکرار کا انجام کیا ہوتا ہے۔

۔۔۔

ہم اسی دھرتی سے پھوٹنے والے بُوٹے ہیں۔۔۔
مستنصر حسین تارڑ

میں بہ مشکل ابھی ٹین ایج میں داخل ہو رہا تھا، جب پاکستان ٹائمز کے باہر ایک کڑی دوپہر کی دھوپ میں، میں نے فیض صاحب کے آگے اپنی آٹو گراف بک کھول کر کہا ’’آٹوگراف پلیز‘‘

فیض صاحب نے آٹو گراف بک پر ایک مصرع گھسیٹ دیا اور ان کی لکھائی ہمیشہ گھسیٹی ہوئی لگتی تھی۔ ہم پرورش ِلوح و قلم کرتے رہیں گے۔ میں کسی حد تک قلم کو جانتا تھا لیکن یہ لوح کیا بلا ہے نہیں جانتا تھا اور ان کی بچوں کی مانند پرورش کے بارے میں تو بالکل ہی نہیں جانتا تھا چناں چہ میں نے گھگھیا کر درخواست کی کہ وہ رباعی لکھ دیں۔ رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی۔ تو فیض صاحب نے سگریٹ کا ایک اور سوٹا لگا کر کہا۔ بھئی وہ تو ہمیں یاد نہیں۔ تو میں نے فوراً کہا۔ جی مجھے یاد ہے۔ میں آپ کو لکھا دیتا ہوں اور میں نے وہ رباعی فیض صاحب کو لکھوائی۔ یعنی آج سے تقریباً 65 برس پیش تر میں فیض صاحب کو شعر لکھوایا کرتا تھا۔

اس رباعی کے پہلو میں ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے بھی آج تک موجود ہے اور میں اس مصرع کے بارے میں ہمیشہ مخمصے میں ہی رہا۔ اور پھر میری حیات میں ایک لمحہ ایسا آیا کہ کائنات کے آغاز کی مانند ہر سو تاریخی تھی۔ آمریت، جبر اور ظلم کی اتھاہ تاریکی اور اس میں ایک چراغ روشن ہوا۔ احتجاج کا۔ ’’الفتح‘‘ کا۔ میں نہیں مانتا اس صبح بے نور کو۔ ایک ایسا چراغ اور اسے روشن کرنے والا محمود شام تھا۔ اور تب پہلی بار مجھ پر آشکار ہوا کہ ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے کا کیا مطلب ہے۔ یہ مصرع محمود شام کی ذات کی مکمل تفسیر ہے۔

محمود شام اور مجھ میں ایک قدر مشترک ہے۔ ہم دونوں اس دھرتی میں سے پھوٹنے والے بوٹے ہیں، جو سندھ اور چناب کے پانیوں میں سے اپنے تخلیقی جوہر کشید کرتے ہیں۔ ہم مٹی کے مادھو نہیں، بلکہ اس مٹی کے مادھو لال حسین ہیں اور ہم دونوں کا مرشد کون ہے۔ ہماری یہ مٹی۔۔۔!

۔۔۔

صد لفظی کتھا
’’جنریٹر‘‘
رضوان طاہر مبین

وہ ’گھر‘ محلے بھر کا مرکزِ نگاہ تھا۔۔۔
سب کا وہاں آنا جانا تھا، لیکن گھر کا روغن خراب اور پلستر خستہ تھا۔
’گلی والے‘ کہتے کہ 30 سال پہلے جنریٹر لگوایا، ساری خرابی تب سے ہے۔۔۔
اس کا شور اور دھواں وبال ہے۔۔۔
اہلِ خانہ کہتے کہ جنریٹر سے انہیں سہولت بھی ہوئی، لیکن ایک دن جنریٹر نکلوا دیا گیا۔
تین سال بیت گئے۔۔۔
’گھر‘ کے مکین کہتے ہیں:
’’گھر کی مرمت تو کیا ہوتی۔۔۔ الٹا جنریٹر بھی ہاتھ سے گیا۔۔۔!‘‘
دوسری طرف ’گلی والے‘ آج بھی نکال دیے جانے والے ’جنریٹر‘ کو ہی کوس رہے ہیں۔۔۔

۔۔۔

’لڑکیاں تمہاری رومانٹک تحریر کے چکر میں آجاتی ہیں!‘‘
(ابن انشا کا ممتاز ادیب اے حمید کو خط)

’’حمید، میری جان۔۔۔!

تمہارے ’’یادوں کے گلاب‘‘ سب کے سب میں نے پڑھے ہیں، بلکہ سونگھے ہیں اور پرانے دنوں کی یاد پر دل کو کچھ کچھ ہوتا ہی رہا ہے۔ تم ڈنڈی مار جاتے ہو، عشق و عاشقی اور لڑکیوں کے تذکرے میں بھی تم ڈنڈی، بلکہ ڈنڈا مار جاتے ہو۔ لڑکیاں تمہاری بھولی بھالی صورت اور رومانٹک تحریر کے چکر میں آجاتی ہیں۔ خیر میاں ہم تو تمہارے عاشق ہیں۔۔۔ فی زمانہ اور کوئی ہمیں اپنے اوپر عاشق ہونے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔ اب کے لاہور آیا، تو ملوں گا اور جی کڑا کر کے تمہارا منہ چوموں گا اور شہر میں گھومیں گے۔۔۔ لاہور کی گلیوں میں۔ میری دو کتابیں آ رہی ہیں، ایک ’’اُردو کی آخری کتاب‘‘ اور دوسری سفرنامہ ’’آوارہ گردی کی ڈائری‘‘ اس کے بارے میں کچھ لکھنے کو تیار رہو۔ حرام خوری مت کرنا۔۔۔ خط لکھو فوراً۔

نوٹ: میری جو کتابیں تم پی گئے ہو، وہ میں نے تمہیں معاف کیں، بلکہ بھول گیا سمجھو، میرا بھی حافظہ خراب ہے۔
تمہارا ابن انشا‘‘

۔۔۔

’’لیکچر مقبول ہوا۔۔۔‘‘
مرسلہ:سارہ شاداب، لانڈھی، کراچی
پڑھائی زوروں سے ہو رہی ہے۔ پچھلے ہفتے ہمارے کالج میں مس سید آئی تھیں جنہیں ولایت سے کئی ڈگریاں ملی ہیں۔ بڑی قابل عورت ہیں۔ انہوں نے ’’ مشرقی عورت اور پردہ‘‘ پر لیکچر دیا۔ ہال میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی، مس سید نے شنیل کا ہلکا گلابی جوڑا پہن رکھا تھا۔ قمیص پر کلیوں کے سادہ نقش اچھے لگ رہے تھے۔ گلے میں گہرا سرخ پھول نہایت خوب صورتی سے ٹانکا گیا تھا۔ شیفون کے آبی دوپٹے کا کام مجھے بڑا پسند آیا۔ بیضوی بوٹے جوڑوں میں کاڑھے ہوئے تھے۔ ہر دوسری قطار کلیوں کی تھی۔ ہر چوتھی قطار میں دو پھول کے بعد ایک کلی کم ہو جاتی تھی۔ دوپٹے کا پلو سادہ تھا، لیکن بھلا معلوم ہو رہا تھا۔ مس سید نے بھاری سینڈل کی جگہ لفٹی پہن رکھی تھی۔ کانوں میں ایک ایک نگ کے ہلکے پھلکے آویزے تھے۔ تراشیدہ بال بڑی استادی سے پرم کیے ہوئے تھے۔ جب آئیں تو کوٹی کی خوش بو سے سب کچھ معطر ہو گیا، لیکن مجھے ان کی شکل پسند نہیں آئی۔ ایک آنکھ دوسری سے کچھ چھوٹی ہے۔ مسکراتی ہیں تو دانت برے معلوم ہوتے ہیں۔ ویسے بھی عمر رسیدہ ہیں۔ ہوں گی ہم لڑکیوں سے کم از کم پانچ سال بڑی۔ ان کا لیکچر نہایت مقبول ہوا۔

(شفیق الرحمٰن کے ایک چُٹکیاں لیتے ہوئے مضمون سے چُنا گیا)

۔۔۔

آبِ حیات
ڈاکٹر عبدالعزیز چشتی، جھنگ
کہتے ہیں کہ زمین کے کسی نامعلوم مقام پر ایک ایسا چشمہ موجود ہے، جس کا پانی پینے والے کو کبھی موت نہیں آتی، اس پانی کو لوگ ’آبِ حیات‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ جس کا پانی نوش کرنے والے کا جسم ہمیشہ سانس تو لیتا رہتا ہے، لیکن حواس خمسہ قائم نہیں رہتے۔ شکل و صورت بدل جاتی ہے، ہاتھ پائوں ختم ہو جاتے ہیں، یہاں تک کہ وہ لوتھڑوں کی شکل میں ایک جگہ پڑا ہوا سسکتا رہتا ہے۔

تو کیا فائدہ ایسے ’آبِ حیات‘ کا جہاں آدمی جسمانی طور پر مفلوج اور اپنی صورت سے بھی محروم ہو جائے۔ طویل عمر پانے کے لالچ میں یہ لوگ عمر بھر کی مصیبت کو اپنے گلے کا ہار بنا لیتے ہیں۔ پھر یہ ہڈی ان سے نہ نگلی جاتی ہے نہ اُگلی جاتی ہے۔ ذلیل و خوار ہوتے ہیں نہ تن درست نہ بیمار، نہ موت، نہ کفن دفن۔ ذلت کی عمر اور سزا پانے والی زندگی ان کی قسمت اور نصیب و مقدر بن جاتی ہے۔ اس طویل العمری کو لوگ ’عمر خضر‘ کا نام دیتے ہیں، مگر ہمیں ایسی غیر طبعی عمر قبول نہیں، بلکہ بہتر یہی ہے کہ چلتے پھرتے راہیِ ملکِ عدم ہو جائیں!

ایک روایت ہے کہ دنیا کے عظیم فاتح سکندر اعظم نے بھی ’آبِ حیات‘ چکھنے کی خواہش کی تھی، لیکن جب وہ وہاں گیا تو اسے چشمے کے گرد تاحدِ نگاہ جسمانی لوتھڑے حرکت کرتے ہوئے نظر آئے۔ معلوم کیا تو پتا چلا کہ یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے آبِ حیات پی لیا تھا، تب ہی موت سے ہم کنار نہیں ہو رہے، جس پر سکندر نے آبِ حیات کا بھرا ہوا پیالا وہیں پھینک دیا اور طویل عذاب سے بچ گیا۔ اسے ہندوستان میں لڑی جانے والی ایک لڑائی میں ایک زہر میں بجھا ہوا تیر لگا تھا، جو مہلک ثابت ہوا اور پھر جلد ہی اس کی موت واقع ہوگئی۔ ہم نے بھی اپنی لیبارٹری میں پانی پر تحقیق کی، جس میں یہ پایا کہ بارش کا پانی زیر زمین پانی کے مقابلے میں کہیں زیادہ مفید ہے۔ بارش کے ابتدائی پانی میں کچھ ماحول کا گردو غبار ضرور شامل ہو جاتا ہے، لیکن اس کے بعد کا پانی بہترین اور شفایاب تاثیر کا حامل ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔