کوچۂ سخن

عارف عزیز  پير 9 ستمبر 2019
موت کا ہے رقص جاری وادیِ کشمیر میں

موت کا ہے رقص جاری وادیِ کشمیر میں

سرزمین کشمیر! بہتے جھرنوں، دریائوں، سحر انگیز جھیلوں، جھومتے گاتے درختوں، سبزہ و گُل سے آراستہ، فلک بوس کہساروں کی وادی، جس کے باسی دہائیوں سے بھارت کے ظلم و ستم اور جبر کا سامنا کررہے ہیں اور اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ کشمیری وہاں بھارت کی درندگی، سفاکی اور وحشیانہ کارروائیوں کے آگے ڈٹے ہوئے ہیں۔ بھارتی حکومت نے کشمیریوں کو ان کا حق دینے کے بہ جائے اقوام عالم کی ساری قراردادیں کوڑے دان میں پھینک دی ہیں اور اس کی متنازع حیثیت تبدیل کرکے اپنی اجارہ داری قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک ماہ سے زاید ہوچکا ہے، کشمیر قید خانہ بنا ہوا ہے جس کے خلاف دنیا بھر میں احتجاج کیا جارہا ہے۔ اس بار ’’کوچۂ سخن‘‘ پر اپنے کشمیری بھائیوں سے اظہارِ یک جہتی کے لیے خصوصی تخلیقات شامل کی گئی ہیں۔

*

’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘


اس بات پہ اپنا ہے ایمان
کشمیر بنے گا پاکستان
تصویر ہماری ہے کشمیر
جاگیر ہماری ہے کشمیر
تدبیر ہماری ہے کشمیر
تقدیر ہماری ہے کشمیر
یہ وقت سے پختہ ہے پیمان
کشمیر بنے گا پاکستان
ان نور صف نظاروں پر
ہم ڈالیں کمندیں تاروں پر
ہم رقص کریں تلواروں پر
ہم جشن منائیں داروں پر
ہنس ہنس کے سہیں گے سب نقصان
کشمیر بنے گا پاکستان
کشمیر کے شیرو! زندہ باد
بے مثل دلیرو! زندہ باد
رُخ وقت کا پھیرو! زندہ باد
جرأت کے سویرو! زندہ باد
لینا ہے اندھیروں سے تاوان
کشمیر بنے گا پاکستان
ہر سمت ستم کا ہے قُلزم
سب اہلِ خرد حیرت میں گُم
اقوامِ جہاں گم سُم، گم سُم
خاموش رہیں کب تک ہم تم
یہ پیر و جواں کا ہے اعلان
کشمیر بنے گا پاکستان
اب چل نہ سکے گی استادی
بھارت کا مقدر بربادی
کہتی ہے چناروں کی وادی
منزل ہے ہماری آزادی
ہے عہدِ مسلسل کا عنوان
کشمیر بنے گا پاکستان
ایک ایسا سویرا چمکے گا
جب ابرِ تمنا برسے گا
یہ سارا زمانہ دیکھے گا
بھارت کا پھریرا اُترے گا
الحاق کا ہوگا پھر اعلان
کشمیر بنے گا پاکستان
(جان کاشمیری۔ گوجرانوالہ)


’’سرفروش‘‘


یہ جو ہر صحن سے آتی ہے صدا ماتم کی
یہ جو ہر سمت سے بارُود کی بُو آتی ہے
یہ جو ہر راہ میں بے گور و کفن لاشے
یہ جو رہ رہ کے ہر اک آنکھ چھلک جاتی ہے
آدمیت کی یہ توہین ہے رُسوائی ہے
طوق گردن میں پڑے پاؤں میں زنجیریں بھی
کتنے سامان ہیں اس دیس کی آرائش کے
قید خانے بھی، بہت قتل کی تدبیریں بھی
میرے کشمیر کے سہمے ہوئے بازاروں میں
ہر طرف خون کے اُڑتے ہوئے چھینٹوں کا ہجوم
جب نکلتا ہے شہیدوں کے جنازے لے کر
کربِ ہستی سے بِلکتے ہوئے لوگوں کا ہجوم
ہاں مگر تیغِ ستم کتنی لہو نوش بھی ہو
سرفروشی کا یہ طوفان نہیں رُک سکتا
صبحِ اُمید کے امکان نہیں مِٹ سکتے
لشکرِ جذبۂ ایمان نہیں رُک سکتا
(سرور ارمان۔ نارووال)


’’چمن جلتا ہے‘‘


پار سرحد کے، ذرا دیکھ چمن جلتا ہے
دیکھ کر جس کو مری روح، یہ من جلتا ہے
آتشِ جبر سے کب روح فنا ہوتی ہے
یوں تو شعلوں میں فقط خستہ بدن جلتا ہے
جیسے شعلے نہ کبھی ماند پڑیں گے شاید
ایسے ہر برگ، ہر اک سر و سمن جلتا ہے
ہمنوا اب تو ستارے بھی ہوئے اشکوں کے
ظلم کی حد ہے، دلِ کوہ و دمن جلتا ہے
میرے کشمیر کے مظلوم برادر، یہ سمجھ
یہ فقط تیرا نہیں، میرا وطن جلتا ہے
آنچ اُٹھتی ہے خیالوں کے الاؤ سے بُلند
شاہدہ اب مرا ہر حرفِ سخن جلتا ہے
(شاہدہ لطیف۔ اسلام آباد)


’’غازی‘‘
مودی یہ تیری موت کا سامان ہے غازی
کشمیر کا ہر مرد مسلمان ہے غازی
توڑے گا تکبر وہ ترا ایک ہی پل میں
ملت کے ہر اک فرد کی اب جان ہے غازی
بچ سکتا نہیں اس سے ہدف کوئی بھی اب تو
اللہ کی برہان کی پہچان ہے غازی
کشمیر پر قبضہ تیرا اب رہ نہیں سکتا
اب تیرے لیے موت کا سامان ہے غازی
کشمیر پہ ڈھائے ہیں تم نے جو مظالم
ان ہی کے ازالے کا تو سامان ہے غازی
اب اپنی تباہی کا تماشا تُو کرے گا
دشمن کے لیے موت کا اعلان ہے غازی
(پروفیسر حکیم شفیق کھوکھر۔ لاہور)


’’ہم نوا کوئی نہیں‘‘


سارے انساں نوحہ خواں ہیں بے صدا کوئی نہیں
اے مرے کشمیر تیرا ہم نوا کوئی نہیں
روز و شب یہ قتل و غارت میں مگن ہیں الاماں
ظالموں کو باخدا، خوفِ خدا کوئی نہیں
کر دیا بیدار ہم کو ظلم کی تصویر نے
ماؤں کے سر بے ردا ہیں اور ردا کوئی نہیں
وحشتیں ہی وحشتیں پھیلی ہوئی ہیں ہر طرف
پتھروں کے دیوتا ہیں سب خدا کوئی نہیں
داستانِ غم سناؤں تو سناؤں کس طرح
ظالموں کا شہر ہے یہ دوسرا کوئی نہیں
خواب آنکھوں سے ہماری چھین سکتے تم نہیں
ہے دُھواں بارود کا ساگرؔ ضیا کوئی نہیں
(صدام ساگر۔ گوجرانوالہ)


’’خونِ جگر درکار ہے‘‘


درد کی ہیں سسکیاں، غم کی فغاں کشمیر میں
بے اماں ہیں بستیاں اہلِ جہاں کشمیر میں
ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کو نوچتے ہیں بھیڑیے
سر دیے گھٹنوں میں چیخی ایک ماں کشمیر میں
بیل بوٹے، پھول پتے، سنگ ریزے خون رنگ
منجمد اور سرخ سے دریا وہاں کشمیر میں
روز لٹتی عصمتوں پر بیٹیوں کی خودکشی
روز چھلنی ہو رہے ہیں نوجواں کشمیر میں
آج آئے گا کوئی قاسم، ضرار و غزنوی
گونجتی ہے اک صدائے خوش گماں کشمیر میں
بھارتی ظلم و ستم پر سب زبانیں گنگ ہیں
ابنِ قاسم کو پکاریں بیٹیاں کشمیر میں
دے رہی ہے ہاتھ کی زنجیرِ یک جہتی پیام
لوٹ آئیں گی بہاریں، اے خزاں کشمیر میں
اے فہد! آنسو نہیں خونِ جگر درکار ہے
منتظر اہلِ وفا کے خاک داں کشمیر میں
(سردارفہد۔ ایبٹ آباد)


’’لہو رنگ کشمیر‘‘
طالب تری رحمت کا خدایا مرا کشمیر
پھر آج لہو رنگ ہے آقا مرا کشمیر
قدرت کی نگاہوں سے سنواری ہوئی وادی
یہ قریۂ جنت سے اتاری ہوئی وادی
ہاتھوں سے فرشتوں کے نکھاری ہوئی وادی
آنکھوں سے دل و جاں میں اترتا مرا کشمیر
پھر آج لہو رنگ ہے آقا مرا کشمیر
مدت سے ستم زادوں کے پہرے ہیں یہاں پر
بادل غم و آلام کے گہرے ہیں یہاں پر
قانون سبھی اندھے و بہرے ہیں یہاں پر
ہوتے ہوئے سبزے کے ہے صحرا مرا کشمیر
پھر آج لہو رنگ ہے آقا مرا کشمیر
آزادی کی آواز کو زنجیر کیا ہے
ہر ظلم کو انصاف سے تعبیر کیا ہے
حیرت نے ہر اک چہرے کو تصویر کیا ہے
دشمن کے شکنجے میں ہے جکڑا مرا کشمیر
پھر آج لہو رنگ ہے آقا مرا کشمیر
چڑیوں کو چہکنے کی اجازت نہیں ملتی
کلیوں کو چٹکنے کی اجازت نہیں ملتی
پھولوں کو مہکنے کی اجازت نہیں ملتی
بچے کی طرح خوف سے سہما مرا کشمیر
پھر آج لہو رنگ ہے آقا مرا کشمیر
بدلے مرے کشمیر کی قسمت مرے آقا
اس کو ملے آزادی کی نعمت مرے آقا
رکھیے اسے خوش حال و سلامت مرے آقا
دیکھا نہیں جاتا ہے یہ جلتا مرا کشمیر
پھر آج لہو رنگ ہے آقا مرا کشمیر
سرور کی تمنا ہے کہ اک چشمِ کرم ہو
آزادی کا ہاتھوں میں جوانوں کے علم ہو
اس خطے سے اب دور ہر اک رنج و الم ہو
اے رحمتِ عالم، شہِ بطحا مرا کشمیر
پھر آج لہو رنگ ہے آقا مرا کشمیر
(سرور حسین نقشبندی۔ لاہور)


’’کشمیر ہمارا ہے‘‘


کشمیر کی دھرتی کو دشمن سے چھڑانا ہے
کشمیر کے بھائیوں کو ظالم سے بچانا ہے
افلاک سے ظلمت کے بادل کو ہٹانا ہے
اک جسم ہیں اور اک جاں، دشمن کو بتانا ہے
آؤ سبھی مل کر یہ پیغام سناتے ہیں
کشمیر ہمارا ہے دنیا کو بتاتے ہیں
ہم گریہ سناتے ہیں مظلوم کی آہوں کا
ان درد کے ماروں کا، ایسے بے سہاروں کا
نوحہ ہے سہاگن کی سُونی ہوئی بانہوں کا
بوٹوں تلے کچلے گئے، ارمانوں کا خوابوں کا
ہم سب کو بتائیں گے یہ دعویٰ ہمارا ہے
ظلمت کو مٹائیں گے یہ وعدہ ہمارا ہے
منزل ہے چمن جس کا، وہ رستہ ہمارا ہے
دشمن کو مٹائیں گے یہ جذبہ ہمارا ہے
(ملک شفقت اللہ شفی۔ جھنگ)


’’موت کا رقص‘‘


موت کا ہے رقص جاری وادیِ کشمیر میں
بڑھ رہی ہے بے قراری وادیِ کشمیر میں
خون آلودہ فضا میں زندگی دشوار ہے
ظلم پر خاموش ہے جو ظالموں کا یار ہے
بچے بوڑھے اور جواں بھی ہوگئے تصویرِ غم
اے خدائے عزوجل ان پر کرم، ان پر کرم
زندگی کے راستوں میں بھوک ہے افلاس ہے
اس نگر کا بچہ بچہ آج محوِ یاس ہے
لوگ ہیں ترسے ہوئے دو گھونٹ پانی کے لیے
یہ سہولت بھی نہیں ہے زندگانی کے لیے
اے خدا کشمیر ہو گہوارۂ امن و اماں
الفتوں کے سائباں میں زندگی گزرے جہاں
خطۂ کشمیر اک حصہ ہے پاکستان کا
خواب پورا ہو نہیں سکتا ہے ہندوستان کا
(علی کوثر۔ کراچی)


’’نکالیں گے تمھیں جاگیر سے‘‘


سسکیوں میں آرہی ہے یہ صدا کشمیر سے
پاؤں نکلیں گے کبھی تو جبر کی زنجیر سے
لا اِلہ کا ورد ہونٹوں پر سجایا دیکھ لو
کیا ڈراؤ گے ستم گر تم ہمیں شمشیر سے
تین سو ستر اٹھا لی ہے تو یہ بھی سوچ لو
زورِ بازو پر نکالیں گے تمھیں جاگیر سے
جنتِ ارضی پہ قابض وقت کا شیطان ہے
سب نظارے اس لیے دکھنے لگے دل گیر سے
خون میں لت پت ہے ارشد میرے پرکھوں کی زمیں
اس لیے آنسو ٹپکتے ہیں مری تحریر سے
(ارشد محمود ارشد۔ سرگودھا)


’’پھول مرجھائے ہوئے ہیں!‘‘


بَن چکا ہے خون صورت سلسلہ کشمیر کا
کب تلک لٹتا رہے گا قافلہ کشمیر کا
مر چکی ہے آج ہندوستان میں انسانیت
کب سے روکے بیٹھے ہیں پانی، ہَوا کشمیر کا
کب تلک کاٹیں گے ان کو تیر ہِندوستان کے
خون سے لت پت پڑا ہے راستہ کشمیر کا
اِک ہَوا ہے، موت لے کر گھومتی کشمیر میں
چھوڑتی پیچھا نہیں ہے وہ ہَوا کشمیر کا
بیٹیوں کے سَر سے چادَر چِھیننے والوں! سنو
ہر شَجر دیتا ہے تم کو بددعا کشمیر کا
پھول مرجھائے ہوئے ہیں اَمن کی خواہش لیے
رخ نہیں کرتی ہے کیونکر فاختہ کشمیر کا
یا خدایا! توڑ دے تو غیر کی شَمشیر کو
اور حَل کر مَسئلہ، آزاد کر کشمیر کو
(آصف خان۔ بنّوں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔