مجھے فلائنگ سکھانے والے چچا میری فلائنگ کک کے باعث زندگی ہارگئے

محمود الحسن  جمعـء 31 اگست 2012
معروف پہلوان ناصر بھولو کی یادوں میں سلگتے لمحے، جو انھیں آج بھی اُداس کردیتے ہیں۔ فوٹو: فائل

معروف پہلوان ناصر بھولو کی یادوں میں سلگتے لمحے، جو انھیں آج بھی اُداس کردیتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ناصر بھولو گاما پہلوان کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے والد حاجی منظورحسین المعروف بھولو پہلوان بھی اپنے فن میں یکتا تھے۔ ناصر بھولو نے بطور پہلوان اپنا منفرد مقام بنایا۔ کئی مقابلوں میں حریفوں کو چت کیا۔1982ء میں بنگلا دیش میں فری اسٹائل کشتیوں کے مقابلوں میں وہ ایشین چیمپئن بنے۔نام ور جاپانی پہلوان انوکی، ان کے کھیل سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے انہیں بھاری معاوضے کے عوض جاپان میں تربیت حاصل کرنے کی پیشکش کی ، جس کو والد کے کہنے پر فرماں بردار ناصر بھولو نے ٹھکرادیا۔

ناصر بھولو نے پاکستانی فلم ’’چٹان‘‘ میں بہ طور ہیرو کام بھی کیا۔ پاکستان میں فن پہلوانی کے زوال کا بڑا سبب وہ اس کھیل سے برتی جانے والی بے توجہی اور کسی قسم کی سرپرستی نہ ہونے کو قرار دیتے ہیں۔ ہمارے سلسلے ’’بھلا نہ سکے‘‘ کے لیے جو واقعات انہوں نے بیان کیے، وہ کچھ یوں ہیں:

ڈیرہ غازی خان میں فری اسٹائل کشتی کے مقابلے میں مجھے اپنے چچا گوگا سے نبرد آزما ہونا تھا۔ اس مقابلے سے ایک روز قبل وہ کہہ رہے تھے کہ وہ مجھے بہ آسانی ہرادیں گے اور ادھر میں اپنے والد سے کہہ رہا تھا کہ چچا بڑے پہلوان ضرور ہوں گے، لیکن کل میں بہرحال انہیں ہرادوں گا۔ اپنے چچا گوگا سے میں نے فلائنگ کِک سیکھی تھی۔ فائٹ کے دوران میں نے انہیں فلائنگ کک ماری، جواباً انہوں نے فلائنگ کک ماری، اس پر پلٹ کر میں نے جو فلائنگ کک ماری وہ ایسے زور سے چچا کے سینے پر لگی، کہ اُن کے منہ سے فقط اتنا نکلا ’’آہستہ‘‘، یہ کہنے کے بعد وہ رنگ کے کونے کے پاس گرے اور انتقال کرگئے۔ میرے والد سمیت سارا خاندان ادھر موجود تھا۔ اس واقعے نے ہم پر غموں کا پہاڑ توڑ دیا۔ اس واقعے کی یاد مجھے آج بھی درد میں مبتلا کردیتی ہے۔ میرے وہ عزیز چچا، جن سے میں نے فلائنگ کک کا ہنر سیکھا، وہ میری فلائنگ کِک ہی کی وجہ سے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ بات میرے لیے کوئی اور نہیں ہوسکتی۔

انوکی نے میرے کھیل سے متاثر ہوکر مجھے بھاری معاوضے پر جاپان آنے کی پیشکش کی، تاکہ وہ میری تربیت کرکے، مجھے عالمی سطح کا پہلوان بنائے۔ میرے والد نے مجھے جاپان جانے کی اجازت نہیں دی۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس سے ایک تو خاندان میں فن پہلوانی کو نقصان ہوگا۔ دوسرے انوکی نے اکرم چچا کو گرایا ہے، اس لیے بھی میرا اس کے ساتھ جانا مناسب نہیں۔ ان میں خودداری اور وطن سے محبت کا جذبہ تھا۔ میں جاپان چلا جاتا تو نہ جانے کتنا عروج مجھے مل جاتا، لیکن والد نے منع کردیا تو پھر جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ پہلوانی میں بڑوں کا حکم آپ ٹال نہیں سکتے۔ ادب، فنِ پہلوانی کا پہلا اصول ہے، جو بھی اس سے انحراف کرے گا، وہ کام یاب نہیں ہوسکتا۔ فن پہلوانی میں اطاعت کا ختم ہونا، ہمارے زوال کی بڑی وجہ ہے۔

میری والدہ کو کینسر تھا۔ بیماری کے باعث انہیں اس قدر تکلیف تھی کہ وہ مجھے کہا کرتیںکہ اگر خودکشی حرام نہ ہوتی تو وہ مجھ سے زہر کا ٹیکا لگانے کا کہتیں، تاکہ اذیت سے نجات پاسکیں۔ ایک روز ایسا ہوا کہ میں ان کی دیکھ بھال کے سلسلے میں رات بھر جاگتا رہا۔ صبح سویرے کہیں میری آنکھ لگی تو انہوں نے مجھے آواز دی، میں اٹھا لیکن نیند ٹوٹنے کی وجہ سے میں نے تھوڑا برا منایا۔ کچھ عرصہ بعد وہ خالق حقیقی سے جاملیں، تو میرے بچوں نے بتایا کہ انہوں نے اس روز کہا تھا ،’’آئندہ مجھے جس قدر بھی تکلیف ہوئی، میںاسے تنگ نہیں کروں گی۔‘‘ یہ جان کر مجھے شدید تکلیف اور افسوس ہوا اور میں نے اپنے بچوں سے کہا کہ کاش! مجھے یہ بات پہلے بتادیتے تو میںاپنی پیاری ماں کے قدموں میں گر کر ان سے معافی مانگ لیتا۔اس واقعے کی یاد آج بھی مجھے اداس کردیتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔