چاند پر بعد میں چلیں گے، پہلے افسوس تو کرلیں

راشد محمود خان  پير 9 ستمبر 2019
غریب ہندوستان نے چاند مشن پر 980 کروڑ روپے خرچ کردیئے۔ (فوٹو: فائل)

غریب ہندوستان نے چاند مشن پر 980 کروڑ روپے خرچ کردیئے۔ (فوٹو: فائل)

ہندوستان کا چاند پر جانے کا خواب پورا نہ ہوسکا۔ افسوس۔ 980 کروڑ روپے، جو کسی بھی چاند پر جانے والے مشن پر خرچ ہونے والی سب سے کم رقم ہے، اس کے باوجود، ہندوستان چاند پر نہ جاسکا۔ افسوس۔ ہندوستان کی اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن کے سربراہ ’کے سون‘ کا تعلق ایک غریب کسان گھرانے سے ہے، پوری زندگی کوشش کی، 104 سٹیلائٹ بھی خلا میں روانہ کردیئے، اور تنخواہ بھی صرف ایک لاکھ روپے ماہانہ لیتے ہیں، لیکن افسوس۔

ہمیں اپنے پاکستانی نوجوان، بلوچستان سے تعلق رکھنے والے خلائی سائنسدان ڈاکٹر یار جان عبدالصمد کی کہانی کے بارے میں شاید علم نہیں۔ جو اپنے ڈپارٹمنٹ کا سب سے کم عمر سینئر ریسرچ سائنسدان اور فیلو ہے، جس کے والد اور والدہ نے کبھی اسکول کا منہ نہیں دیکھا تھا۔

ہمیں نمیرہ سلیم کے بارے میں بھی شائد علم نہیں، جو پاکستان کی پہلی خاتون خلا باز ہیں۔ یہی وہ پاکستان کی پہلی خاتون ہیں جو نارتھ پول اور ساؤتھ پول بھی پہنچ چکی ہیں۔

ہمیں طارق مصطفیٰ، پرنسپل انجینئر، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن؛ ڈاکٹر سلیم محمود، سائنٹیفک آفیسر، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن؛ سکندر زمان، اسسٹنٹ انجینئر، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن؛ اے زیڈ فاروقی، سائنٹیفک آفیسر پاکستان اٹامک انرجی کمیشن اور محمد رحمت اللہ، ریجنل ڈائریکٹر، محکمہ موسمیات جیسے لوگوں کے بارے میں بھی علم نہیں۔ جو ناسا سے راکٹ لانچنگ کی تربیت لینے کے بعد 1962 میں رہبر اول، سومیانی راکٹ رینج (پاکستان سے) کامیابی کے ساتھ لانچ کیا، اور اس کے بعد پاکستان کو یہ فخر حاصل ہوا کہ وہ راکٹ لانچ کرنے والا ایشیا میں تیسرا اور دنیا میں دسواں ملک بن گیا۔ اس وقت تک جن ملکوں نے اس طرح کی لانچنگ کی تھیں، ان میں امریکا، روس، یوکے، فرانس، سوئیڈن، اٹلی، کینیڈا، جاپان اور اسرائیل شامل تھے، اور ان میں انڈیا شامل نہیں تھا۔ اور یہی وہ لوگ تھے جو بعد میں باقاعدہ سپارکو کے بانیوں میں شامل رہے۔ لیکن ہم نہیں جانتے۔ افسوس۔

ہمارے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی، فواد چوہدری نے فرمایا ’’ہندوستان کو مشورہ ہے، بغیر سوچے سمجھے چندرائن جیسے مشن بنانے یا ابھی نندن جیسوں کو لائن آف کنٹرول پار چائے پینے بھیجنے جیسے منصوبوں پر پیسہ لٹانے کے بجائے اپنے لوگوں کو غربت سے باہر نکالنے پر پیسے لگائیں۔ کشمیر بھارت کا ایک اور چندرائن ہوگا اور قیمت چندرائن سے کئی گنا زیادہ ہوگی‘‘۔

اور

’’آ آ آ … جو کام آتا نہیں پنگا نہیں لیتے ناں ڈیئر انڈیا…‘‘

انہیں یہ نہیں کہنا چاہیے تھا۔ افسوس۔

پاکستانی میڈیا پر بیٹھے کچھ اینکرز کا ہندوستان کے مشن کی ناکامی پر اظہار افسوس، ہمدردی، اور اظہار یکجہتی، اور پاکستان کے آئل اور گیس کی ایکسپلوریشن کے منصوبے کیکڑا میں ناکامی پر تنقید اور تضحیک۔ افسوس۔

ہم کسی بھی معاملے پر ایک قوم، ایک سوچ، ایک آواز نہیں بن پارہے۔ افسوس۔

ہم اپنے اپنے انفرادی مفادات میں، ملک کے اجتماعی مفادات کا سودا کرتے آرہے ہیں اور کررہے ہیں۔ افسوس۔

اس ملک کے نوجوانوں کو 72 سال میں ایک ایسا تعلیمی نظام نہ دے سکے جو ان میں تخلیقی اور تعمیری صلاحیتوں کو اجاگر کرسکے۔ افسوس۔

ٹویٹر، فیس بک، انسٹاگرام کی چند ہزار لائکس، کمنٹس اور ’میں مشہور ہوجاؤں‘ کے چکروں میں آپ پہلے یہ دیکھ لیں کہ کہیں اس سے آپ کے ملک کے دشمنوں کو کہیں کوئی ایسا تو موقع نہیں مل جائے گا جس سے وہ کہہ دیں، کہ دیکھا…

افسوس۔ اس وقت پاکستان کو ایک قوم کی ضرورت ہے، اور اگر ہم وہ قوم نہ بن سکے تو ہمارے لیے اللہ نہ کرے، صرف افسوس ہی باقی نہ رہ جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

راشد محمود خان

راشد محمود خان

بلاگر سافٹ وئیر انجینئر ہیں۔ نوجوانوں کی غیرسرکاری تنظیم میں چیف ایگزیکٹیو آفیسر اور ایک ٹریننگ و ڈیولپمنٹ کے ادارے میں ڈائریکٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔