انسان اور بھیڑیا

صنم محمود عباسی  بدھ 11 ستمبر 2019
انسان اپنے ہی ہم جنسوں پر ظلم کرتے ہوئے حیوانیت کی تمام حدیں پار کرجاتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

انسان اپنے ہی ہم جنسوں پر ظلم کرتے ہوئے حیوانیت کی تمام حدیں پار کرجاتا ہے۔ (فوٹو: فائل)

’’بھیڑیا‘‘ عموماً یہ لفظ دہشت، خونخواری اور ہیبت کو ظاہر کرتا ہے۔ اور ہے بھی ایسا ہی۔ کیونکہ بھیڑیے کے بارے میں مشہور ہے کہ اس کی نظر اتنی تیز ہوتی ہے کہ کسی جانور کو دیکھ لیتا ہے تو انتہائی پھرتی سے اس پر جھپٹ کر اسے چیر پھاڑ دیتا ہے۔ لیکن اگر اس کی خصوصیات کو دیکھیں تو وہ اپنے اصولوں کا بہت پابند ہے۔ جیسے وہ اپنی آزادی پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرتا، نہ اپنی محرم مادہ پر جھانکتا ہے۔ اپنی شریکِ حیات کے علاوہ کسی مادہ سے تعلق قائم نہیں کرتا۔ بھیڑیے کو عربی میں ’’ابن البار‘‘ یعنی نیک بیٹا کہتے ہیں۔ اپنی اولاد کو پہچانتا ہے اور اپنے بوڑھے والدین کےلیے بھی شکار کرتا ہے۔ اسے یہ سب خصوصیات اپنے خالق کی طرف سے عطا کی گئی ہیں، جن کی پاسداری باقی مخلوقات کی طرح یہ خونخوار جانور بھی کرتا ہے۔

خدا کی مخلوقات میں انسان ’’اشرف المخلوقات‘‘ کا شرف حاصل کیے ہوئے ہے، جسے عقل و شعور کی نعمت سے بھی نوازا گیا ہے۔ لیکن خدا کی یہ اشرف مخلوق جب اپنے ہی ہم جنسوں یعنی انسانوں پر ظلم وستم ڈھانے پر آتی ہے تو انسانیت کی تذلیل کی ساری حدیں پار ہوجاتی ہیں اور روح کانپ اٹھتی ہے۔

ہمارے معاشرے میں آئے روز ایسے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے جن کو سن اور دیکھ کر عذابِ الٰہی کے وہ زمانے یاد آجاتے ہیں، جن میں رب تعالیٰ نے اپنی اس اشرف مخلوق کو تہس نہس کردیا تھا، جس سے رب تعالیٰ ماں سے 70 گنا زیادہ محبت کرتا ہے۔ کچھ سال پہلے کی بات کریں تو سیالکوٹ میں دو بھائیوں کو سرِبازار درجنوں لوگوں کی موجودگی میں عوام کے ہجوم نے چوری کے الزام میں اس بے دردی سے مارا کہ جسم کا کوئی حصہ، کوئی ہڈی اور جوڑ سلامت نہ بچا۔

آخر کیوں؟ کس نے اختیار دیا کہ انسانیت کو اس طرح سڑکوں اور چوراہوں پر رسوا کیا جائے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کو دیکھ لیجئے۔ کیا کچھ نہیں ہوا؟ عورتوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ ایک حاملہ عورت کو بھی بے دردی سے مارا گیا۔ اس طرح مشعال خان کا قتل، جسے والدین کا سہارا بننا تھا اور بہترین مستقبل کےلیے وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کےلیے یونیورسٹی گیا تھا، ایک مشتعل ہجوم کے ہاتھوں موت کی آغوش میں چلا گیا۔

بے دردی اور بے حسی کا یہ عالم ابھی ختم نہیں ہوا۔ زینب جیسی کلی کو پھول بننے سے پہلے زیادتی اور پھر قتل کر کے لاش کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا گیا۔ اسی پر بس نہیں، ایسے واقعات کا بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ انسانیت سے یقین اٹھتا چلا جارہا ہے۔ کسی کی عزت، حرمت، جان اور مال سلامت اور بحفاظت نہیں رہے۔

چند دن پہلے کراچی میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا۔ ایک نوعمر لڑکے کو باندھ کر اس بے دردی سے مارا گیا کہ جان کی بازی ہی ہار گیا۔ کیا چوری کیا تھا اس نے؟ کتنے کا ڈاکا ڈالا ہوگا؟ یہاں تو اربوں روپے لوٹنے والے کروڑوں کی گاڑیوں میں اور پولیس کی مکمل حفاظت اور پروٹوکول میں عدالت آتے اور جاتے ہیں اور ڈھٹائی سے اے سی، فریج اور ٹی وی کی فرمائشیں کرتے پائے جاتے ہیں۔ اور بے حسی کا عالم دیکھیں کہ عوام جو دو چار سو والے چور کو پیٹ پیٹ کر جان سے مار دیتے ہیں اور ان سیاسی لٹیروں کا پھولوں کی پتیوں سے استقبال کرتے ہیں۔ اگر وہی ہزار دو ہزار کسی غریب کی جیب میں ڈال دو تو وہ چوری جیسے عمل سے دور رہے۔

حالیہ دنوں ایک اور واقعہ جس نے ہزاروں آنکھوں کو اشک بار کیا، وہ صلاح الدین کا واقعہ ہے۔ جسے رحیم یار خان کے علاقے میں اے ٹی ایم مشین سے کارڈ چوری کرنے کے الزام میں پکڑا گیا۔ ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ پولیس بکری چور، سائیکل چور جیسے مجرموں کو اتنی جلدی کیسے پکڑ لیتی ہے اور کروڑوں، اربوں روپوں کی چوری کرنے والے ان کی قابلیت، ہنرمندی اور انتھک محنت سے کیسے بچ جاتے ہیں؟ صلاح الدین نے ان بھیڑیوں سے پوچھا کہ ’’اک گل پُچھاں، مارو گے تے نئی، تُسی مارنا کتھوں سکھیا اے‘‘۔ اس ذہنی مریض کو کیا پتہ تھا اس بے رحمی سے مارنا صرف انہوں نے ہی نہیں سیکھا بلکہ بہت سے اور بھی ہیں جو انسان کی شکل میں جانور سے بھی بدتر ہیں۔ اسے کیا معلوم تھا کہ وہ اس عقوبت خانے سے باہر کسی ہجوم کے ہاتھ لگ جاتا تو انھوں نے بھی یہی حال کرنا تھا اس کا یا اس سے بھی برا۔

ہم دنیا کو کشمیر پر بھارتی مظالم دکھانے کےلیے پچھلے 72 سال سے سر دھڑ کی کوشش کررہے ہیں، لیکن اپنے ملک کے کسی ایک محلے کے پولیس اسٹیشن کو ٹھیک نہیں کرسکے۔ ہم فلسطین، برما اور شام کے مسلمانوں کے قتل و غارت پر تقریریں کرتے نہیں تھکتے، چیخ و پکار کرتے ہیں، قراردادیں اور مذمتیں کرتے ہیں، دنیا جہان کے دورے کرتے ہیں، سلامتی کونسل کے اجلاس بلانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر اپنے بے گناہ عوام کی سلامتی، جان مال اور عزت کے تحفظ کےلیے کچھ نہیں کرتے۔ پولیس ریفارمز اور تھانہ کلچر کو ٹھیک کرنے کی باتیں کرتے ہیں، مگر پچھلے پانچ سال میں ماڈل ٹاؤن قتل کیس کے فیصلے تک نہیں پہنچ سکے۔ ساہیوال میں قتل ہونے والے خاندان کو انصاف نہ دلا سکے۔

آخر ہم اتنے بے حس کیوں ہوچکے ہیں؟ ہمیں دوسروں کی تکلیف کیوں محسوس نہیں ہورہی؟ کیا اسی طرح یہ معاشرہ پروان چڑھے گا جس میں ’’جس کی لاٹھی، اس کی بھینس‘‘ والا فارمولا استعمال ہوگا۔ خدا کےلیے انسانیت کی قدر کریں، کیوں کہ ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

صنم محمود عباسی

صنم محمود عباسی

بلاگر فائنانس میں ایم بی اے ہیں اور دبئی میں چیف اکاؤنٹنٹ کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔