ڈاکٹر جمال نقوی کی کتابیں

عارف عزیز  جمعـء 31 اگست 2012
اردو نثر۔ فوٹو: فائل

اردو نثر۔ فوٹو: فائل

ترقی پسند تحریک اور اس فکر نے اردو ادب کو حقیقت نگاری سے جوڑتے ہوئے تخلیق کاروں کی ایک ایسی کہکشاں کو جنم دیا، جنھوں نے زندگی کی ترجمانی کا حق ادا کیا۔ اس تحریک سے وابستہ ادیبوں نے فکر ونظر کے افق پر نئے خیالات اور رجحانات کے فروغ اور اردو نثر میں تازہ کاری کے ساتھ فکر و دانش کے اظہار کو نئی سمت دی۔ پاکستان میں ترقی پسند تحریک اور اس سے وابستہ ادیبوں کی تحریروں نے معاشرے میں فرسودہ روایات کی صورت میں موجود فکری جمود توڑتے ہوئے ادب کو نئے دور کے تقاضوں اور بدلتی ہوئی دنیا کے مقابلے پر لانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔

یہ کتاب ’ترقی پسند اردو نثر کے پچاس سال‘ اسی کا احاطہ کرتی ہے۔ دراصل یہ ڈاکٹر جمال نقوی کا وہ مقالہ ہے جس پر انھیں جامعہ کراچی نے پی ایچ ڈی کی سند عطا کی تھی۔ مصنف ترقی پسند فکر کے پرچارک ہیں اور مختلف موضوعات پر ان کا علمی اور تحقیقی کام منظرِ عام پر آچکا ہے۔ اس مقالے میں انھوں نے پاکستان میں نثر کے میدان میں ترقی پسند تحریک، اس کے نتیجے میں تخلیق پانے والے ادب اور اس کے اثرات کو موضوع بناتے ہوئے پچھلے پچاس سال کے عرصے میں اس فکر کا جائزہ لیا ہے جو بلاشبہہ ایک قابلِ قدر کوشش ہے۔

اردو زبان اور ادب کی ترویج میں مقتدرہ قومی زبان اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور وقیع موضوعات پر پُرمغز تحریریں اور فکری مضامین و مقالات کی اشاعت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ جمال نقوی کا مقالہ کتابی شکل میں اسی ادارے کی کوششوں سے ہم تک پہنچا ہے۔ اس کے ناشر ڈاکٹر انوار احمد ہیں، جو مقتدرہ قومی زبان کے صدر نشین بھی ہیں۔ 322 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 400 روپے ہے۔
عہد ساز شاعر فیض احمد فیضؔ کی شخصیت، ادب میں مقام و مرتبے اور خدمات کے ساتھ ساتھ ان کے انسان دوست افکار اور نظریات پر انھیں خراجِ تحسین پیش کرنے کی غرض سے کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے، جن میں اپنے دور کی ممتاز اور سربرآوردہ ادبی شخصیات نے ان کی خدمات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

مصنف کی اس کتاب کا موضوع فیضؔ صاحب کی تخلیقات کا فکری ابلاغ ہے۔ اس طرح یہ کتاب دو حصوں میں منقسم ہو گئی ہے، جس میں ایک جگہ جمال نقوی نے ان کی نظم اور نثر پر اپنے مضامین شامل کیے ہیں اور دوسرے حصّے میں فیضؔ صاحب کی گفت گو اور صحافتی تحریروں کا اجمالی جائزہ لیا ہے۔ کتاب کے ناشر ڈاکٹر سید جعفر احمد ہیں۔ اس کے صفحات 138 جب کہ قیمت 200 روپے ہے۔

مصنف کی ایک اور کتاب ’ترقی پسند تحریک کا سفر (پس منظر و پیش منظر)‘ بھی ہمارے سامنے ہے، جس کا عنوان اس کے متن کی وضاحت کے لیے کافی ہے، لیکن یہ کتاب 176 صفحات پر مشتمل ہے، جو ترقی پسند تحریک کی صورت میں ادب اور اس کے گہرے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے ناکافی ہیں اور مصنف نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔ اس کے باوجود یہ ضرور ہے کہ اس کتاب سے ترقی پسند تحریک کے بارے میں جاننے میں دل چسپی رکھنے والے قارئین، خصوصاً تنقید اور تحقیق کے شعبوں میں مصروف افراد استفادہ کرسکتے ہیں۔ کتاب کے ناشر انجمن ترقی پسند مصنفین، کراچی اور قیمت دو سو روپے ہے۔

ارمغانِ ممتاز ایک اور کتاب ہے اور ڈاکٹر جمال نقوی اس کے مرتب کار ہیں۔ یہ ممتاز ترقی پسند نقاد پروفیسر ممتاز حسین کی شخصیت اور ان کی علمی و ادبی خدمات پر مختلف مضامین کا مجموعہ ہے۔ ہندوستان کی ریاست یوپی کے ضلع غازی پور میں یکم اکتوبر، 1918 کو پیدا ہونے والے ممتاز حسین کا ادبی سفر افسانہ نگاری سے شروع ہوا، لیکن جلد ہی اپنے لیے تنقید کا راستہ چُنا اور ان کی متعدد تصانیف منظرِ عام پر آئیں جنھیں فن و تخلیق کا معیار اور ادب کی سمت کا تعین کرنے میں نہایت اہم گردانا جاتا ہے۔

آپ کا انتقال 1992 میں ہوا۔ اس کتاب کے بارے میں جمال نقوی نے لکھا ہے،’’پچھلے پانچ برسوں سے ’ارتقاء ادبی فورم اور انجمن ترقی پسند مصنفین پاکستان‘ کراچی نے سالانہ ’ممتاز حسین یادگاری لیکچر‘ کا سلسلہ شروع کیا ہے، جس میں علم و ادب کی معتبر اور معروف شخصیات ڈاکٹر منظور احمد، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، ڈاکٹر ارتضیٰ کریم، ڈاکٹر انوار احمد، پروفیسر سحر انصاری اور ڈاکٹر سید جعفر احمد نے ادب کے مختلف موضوعات پر مقالات پیش کر کے پروفیسر ممتاز حسین کی یاد کو قائم رکھا اور دنیائے ادب میں ان کے روشن کردہ چراغوں کی روشنی کو بڑھایا ہے۔

’ارمغانِ ممتاز‘ میں انہی چھے مقالات کو محفوظ کر دیا گیا ہے، مگر ان کے ساتھ ہی کچھ مزید اہم تحریروں اور تصاویر کو بھی شامل کر کے ذکر ممتاز، فکر ممتاز اور مقام ممتاز کے ذریعے ان کی شخصیت و مقام اور فکروفن کو پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔