قوموں کا بننا، صدیوں کا سفر

بشیر واثق  اتوار 29 ستمبر 2013
افراد کے قوم بننے کا تاریخی عمل اپنے وقت پر ہی مکمل ہوتا ہے، پھر مایوسی کیوں؟۔ فوٹو: فائل

افراد کے قوم بننے کا تاریخی عمل اپنے وقت پر ہی مکمل ہوتا ہے، پھر مایوسی کیوں؟۔ فوٹو: فائل

یہ کیا ہو رہا ہے ملک میں، ہر طرف لوٹ مچی ہے، کیا اس لئے یہ ملک بنایا گیا تھا ، ہر کوئی دوسرے کا گلا کاٹنے کے لئے پھر رہا ہے ، بابا جمیل نے مایوسی سے کہا۔

اصل میں ہم ابھی تک گروہوں، برادریوں اور علاقائی تعصب سے نہیں نکل سکے ، اسی لئے 66سال گزرنے کے باوجود قوم نہیں بن سکے، جب قوم بن جائیں گے تو سب ملک کیلئے کام کریں گے اور ذاتی مفادات پس پشت چلے جائیں گے، انور نے کہا ۔ ان دونوں کی بحث جاری تھی کہ وہاں سے گزرنے والے ایک راہگیر نے جو بحث سن کر رک گیا تھا دخل در معقولات کرتے ہوئے اپنی ٹانگ اڑائی اور کہنے لگا ، بھئی ایسا نہیں ہو سکتا ہے، بزرگوں کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرے گا برا وقت ہی آئے گا ، دھن دولت ہی سب کی محبت بن جائے گا ۔

بھئی ایسی بات نہیں ہے، کمزوریاں اورخامیاں آہستہ آہستہ ہی ختم ہوتی ہیں اور پھر قوموں کو تو کافی وقت چاہیے، جس کا آپ نے ذکر کیا ہے بزرگوں کا یہ فرمان اخلاقیات کے حوالے سے ہے، ناکہ قوموں کی ترقی کے حوالے سے ہے، انور نے جواب دیا ۔

آپ کی سوچ تو منفی ہے ، بھلا جب ایک چیز بتا دی گئی ہے پھر وہ تو ہو کر رہے گی ، راہگیر نے کہا اور غصے سے طنطناتا ہوا چلتا بنا۔

بابا جمیل نے مسکراتے ہوئے کہا ، اب کہو ، بھئی بات یہ ہے کہ جب یہ ملک بنایا گیا تھا تو اس وقت جو کچھ کہا گیا تھا اس پر تو ذرا بھی عمل نہیں ہوا ، کیا وہ لوگ صحیح نہیں تھے جو یہ کہتے تھے کہ ہندوستان کو بانٹنے میں انگریزوں کا مفاد ہے، وہ اس ملک کی طاقت کم کرنا چاہتے تھے اس لئے اسے تقسیم کر دیا۔

اصل میں بات یہ ہے کہ ہم لوگ یہ چاہتے ہیں کہ سب کچھ جلد ازجلد ہو جائے مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ فرد کو گروہ ، اور پھر گروہ کو ایک بڑا مجموعہ بننے میں کافی وقت لگتا ہے، ہم نے طویل جدوجہد کے بعد ملک تو حاصل کر لیا ہے مگر قوم نہیں بن سکے، ہماری یہ حالت اسی لئے ہے کہ ہم لوگ قوم بننے کے عمل سے گزر رہے ہیں، انور نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔

چلو میں تمھاری بات مان لیتا ہوں ، کہتے ہیں کہ امید کا دامن کسی حال میں نہیں چھوڑنا چاہیے، بابا جمیل نے کہا۔

ہاں ہر حال میں دیا جلائے رکھنا چاہیے، انور نے سوچتی ہوئی آنکھوں سے اس کی طر ف دیکھتے ہوئے کہا ۔

معاشرے کی تشکیل میں یوں تو بہت سے عناصر کام کرتے ہیں مگر اس کی بنیادی اکائی فرد ہے جب مختلف افراد کا تفاعل ہوتا ہے اور وہ کسی مقصد کے تحت مل کر کام کرتے ہیں تو گروہ کی صورت اختیار کر لیتے ہیں، اور ایک نظم و ضبط کے تحت کام کرتے ہیں ، یوں بہت سے گروہوں کے ملنے سے ایک معاشرہ تشکیل پانا شروع ہو جاتا ہے مگر اس میں ہر گروہ کے اپنے مفادات ہوتے ہیں، اسے معاشرے کی رنگا رنگی بھی کہہ سکتے ہیں مگر یہ ایک معاشرے کی ضرورت بھی ہے، یوں معاشرے میں مختلف طبقات تشکیل پاتے ہیں، یہ طبقات آگے چل کر ایک قوم کے تار و پود بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، ان طبقات کی طرز فکر اور زندگی کے آداب میں فرق ہو سکتا ہے مگر جب ان طبقات کا باہمی مفاد ایک ہوتا ہے تو قوم کی تشکیل کا عمل شروع ہو جاتا ہے، اس کے لئے ایک طویل عرصہ درکار ہوتا ہے یعنی چند سالوں کی بات نہیں بلکہ ڈیڑھ، دو سو سال لگتے ہیں ۔ قوم کا یہ باہمی مفاد خطے، زبان ، مذہب اور طرز زندگی میں مماثلت کی وجہ سے فروغ پاتا ہے ۔

اس وقت پوری دنیا میں امریکا کا طوطی بول رہا ہے، تاریخ سے آگہی نہ رکھنے والوں کو شاید علم نہیں کہ 50ریاستوں کے ملک امریکا نے اس مقام تک پہنچنے کے لئے سخت جدوجہد کی اور اسے اپنی طاقت کا لوہا منوائے صرف ساٹھ ،ستر سال ہوئے ہیں یعنی دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا کو سپر پاور کا درجہ حاصل ہوا ، جبکہ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد اب وہ دنیا کی واحد سپر پاور بن چکا ہے۔ امریکا کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ اٹھارویں صدی عیسوی سے قبل اس ملک کا کوئی وجود نہیں تھا ، ( یہ براعظم امریکا کی بات نہیں کی جا رہی جسے کولمبس نے 1462ء میں دریافت کیا تھا )سترویں اور اٹھاویں صدی میں برطانیہ ، فرانس وغیرہ نے شمالی اور جنوبی براعظم امریکا میں نوآبادیاتی نظام کے تحت کالونیز آباد کیں، شمالی براعظم امریکا میں برطانیہ کی کافی زیادہ کالونیز تھیں، اٹھارویں صدی میں ان کالونیز کے برطانوی حکومت کے ساتھ مختلف معاملات پر جھگڑے شروع ہو گئے ، یوں کالونیز میں آزادی کی تحریک چلنے لگی جو بالآخر4جولائی 1776ء میں کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور 13کالونیز نے یونائیٹڈ سٹیس آف امریکا کے نام سے آزادی کا اعلان کر دیا۔

یوں امریکا کی بنیاد پڑی جس کے پہلے صدر جارج واشنگٹن تھے جو اس وقت ان ریاستوں کی متحدہ فوج کے سربراہ بھی تھے۔ اس کے بعد برطانیہ اور امریکا میں جنگ بھی ہوئی جسے رولیوشن وار کانام دیا جاتا ہے، اس میں بھی امریکا کو کامیابی ہوئی۔ ملک کا پہلا آئین گیارہ سال بعد 1787ء میں نافذ کیا گیا جس میں وقت کے ساتھ ساتھ 27ترامیم کی گئیں، پہلی دس ترامیم بل آف رائٹس کے نام سے 1791ء میں کی گئیں۔ اس کے بعد امریکا نے اپنی قریبی کالونیز پر قبضہ کرنا شروع کر دیا، قبضہ کرنے کا یہ سلسلہ سو سال تک جاری رہا یعنی1893ء میں امریکا نے ہوائی جزائر پر قبضہ کیا جبکہ اس سے قبل 1867ء میں وہ الاسکا کی ریاست خرید چکا تھا ، پھر اسی پر بس نہیں کی گئی بلکہ اس کے بعد سپین امریکا جنگ لڑی گئی جس میں امریکا کو فتح ہوئی اور اس نے بطور ریاست اپنی طاقت کا لوہا منوا لیا۔

مختلف ریاستوں پر قبضوں اور خانہ جنگی کے دوران امریکا کے چھ لاکھ بیس ہزار سے زائد سپاہی جاں بحق ہوئے۔ انیسویں صدی کے آخر میں امریکا میں صنعتیں لگنا شروع ہوئیں ، مگر صنعتکاروں کی طرف سے مزدوروں کے استحصال اور مسائل کی وجہ سے مزدور یونینز وجود میں آئیں اور آئے روز مظاہرے اور ہڑتالیں ہوتی رہتی تھیں جس کی وجہ سے ملک میں انارکی پھیلی رہی اور ہزاروں افراد جاں بحق ہوئے ، ایک اندازے کے مطابق صرف 1914ء میں صنعتی حادثات میں 35ہزار مزدور جاں بحق اور سات لاکھ سے زائد زخمی ہوئے۔1914ء میں جب پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو امریکا نے خود کو الگ تھلگ رکھا ، تاہم 1917ء میں اپنے اتحادیوں کی مدد کی اور صدر وڈ روولسن نے 1919ء میں پیرس پیس کانفرنس میں اہم کردار ادا کیا جس سے عالمی سطح پر امریکی قد کاٹھ میں اضافہ ہوا۔ گویا امریکی قوم کو خود کو قوم بنانے میں سوا سو سال کا عرصہ لگا جس کے بعد امریکا صحیح معنوں میں ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوا ۔

قوم بننے کے عمل کی دوسری مثال برطانیہ کی لیتے ہیں ۔ صدیوں قبل برطانیہ بھی کوئی ملک نہ تھا ، یہ چند جزائر تھے جنھیں یہاں آباد برٹن قبائل کی وجہ سے برطانیہ یا برٹن کہا جاتا تھا، قبل مسیح یہ جزائر رومی حکمران آگسٹس کے دور میں رومی سلطنت کا حصہ تھے۔آٹھویں صدی عیسوی میں جب یورپ مختلف قبائل کی شورشوں کا سامنا کر رہا تھا تو برطانوی جزائر پر ایلفرڈ کی بادشاہت قائم تھی اس نے ان جزائر کو شورشوں سے بچایا۔ 1042ء میں ایلفرڈ کی نسل ختم ہوئی تو تخت کے دو دعویدار ہیرلڈ اور ولیم میں جنگ ہوئی۔ ہیرلڈ مارا گیا اور ولیم انگلستان(انگلینڈ اور ویلز) کا بادشاہ بنا۔ 1171ء میں آئر لینڈ پر قبضہ کر لیا گیا جس سے انگلستان کو مزید وسعت ملی۔ اس دور میں انگلستان پر لنٹیجنٹ خاندان کی حکومت تھی جو 1154ء سے 1400ء تک قائم رہی۔ اس کے بعدلنکاسٹر خاندان نے 1471ء تک حکومت کی۔ ایک مختصر عرصے کے لئے یارک خاندان بھی برسر اقتدار آیا ان کی حکومت 1485ء تک قائم رہی۔ ڈیوڈور خاندان نے 1485ء سے1603ء تک حکومت کی۔ اس وقت تک سلطنت انگلستان کو کافی استحکام حاصل ہو چکا تھا، تب انگلستان کے یونائٹیڈ کنگڈم (uk) یا گریٹ برٹن بننے کا مرحلہ آیا۔

اسٹیورٹ خاندان سے تعلق رکھنے والے کنگ آف سکاٹ جیمز فور کو انگلینڈ اور آئر لینڈ کے تاج ورثے میں ملے تھے اس لئے اس نے ان تینوں کا پایہ تخت ایک ہی قرار دیا ۔ یوں وہاں آباد مختلف قبائل اور طبقات میں ایک قوم ہونے کا احساس پیدا ہوا۔ تینوں ریاستوں کے ملنے سے اس کی طاقت میں اضافہ ہوا اور اس نے اپنی بحری قوت میں اضافہ کر کے مختلف علاقوں پر قبضہ کرنا اورکالونیز قائم کرنے کا سلسلہ شروع کیا ، تاہم یکم مئی 1707 ء کو سکاٹ لینڈ اور انگلینڈکی پارلیمنٹوں نے ایک معاہدے کے تحت دونوں ملکوں کے باقاعدہ اکٹھا ہونے کا اعلان کیا۔ اسی دورمیں پارلیمنٹ کے تحت وزیر اعظم کا انتخاب کیا گیا۔ اس کے بعد ہونور خاندان کی حکومت قائم ہوئی جو 1901ء تک قائم رہی، پھر نو سال کے لئے ہائوس آف گوتھا نے اقتدار سنبھالا، اس کے بعد 1910ء میں ونڈسر خاندان کی حکومت قائم ہوئی جو تاحال بر سر اقتدار ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد برطانیہ کمزور ہوا اور اس کے زیر قبضہ کالونیز نے آزادی حاصل کر لی مگر اس نے اپنا اصل تشخص پھر بھی برقرار رکھا ہوا ہے ۔ اس طرح دیکھا جائے تو برٹن جزائر میں بسنے والے قبائل کو پہلے قوم بننے میں ایک طویل عرصہ لگا جس کے بعد انھوں نے ملک بنایا یہ سارا عمل سات سو سال میں مکمل ہوا اور تقریباً تین سو سال بعد اس کا زوال ہوا ۔

پاکستان کی تشکیل کے عمل پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے لئے بھی کم وبیش دو سو سال لگے، تاہم بہت سے مورخ اس کا سلسلہ 712ء میں محمد بن قاسم کی آمد سے ملاتے ہیں ، اور کچھ سلطان محمود غزنوی کے حملوں سے ملاتے ہیں جس کے بعد ہندوستان کے چند حصوں میں مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔ ایسے مورخ بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں مسلمان ریاست کی ابتدا 1176ء میں شہاب الدین غوری کی آمد سے ہوئی ، پھر اس نے 1192ء میں پرتھوی راج کو شکست دے کر قطب الدین ایبک کو یہاں پر گورنر متعین کیا جو شہاب الدین غوری کی وفات کے بعد یہاں کا پہلا مسلمان حکمران بنا۔ سلاطین کے بعد مغلوں نے طویل عرصے تک حکومت کی جو اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد زوال پذیر ہوئی جس کی اصل وجہ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی ریشہ دوانیاں تھیں۔ 1757ء میں جب انگریزوں نے سراج الدولہ کو جنگ پلاسی میں شکست دی تو مورخین کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی یہ شکست برصغیر میں مسلمانوں کے اقتدار کے خاتمے کا باعث بنی ، حالانکہ اس کے بعد بھی انگریزوں نے مسلمانوں کا نام نہاد قسم کا اقتدار قائم رکھا مگر عملاً خود قابض رہے ، مسلمانوں کے اس دکھاوے کے اقتدار کا بھی 1857ء کے بعد خاتمہ کر دیا گیا۔

اگر تمام تاریخی پہلووں کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جنگ پلاسی کے بعد ہندوستانی مسلمانوں نے بطور قوم اپنے زوال کے حوالے سے سوچنا شروع کر دیا تھا، 1857ء کی جنگ آزادی یا بغاوت اسی طرح کی ایک کوشش تھی چونکہ بادشاہی نظام ختم ہو چکا تھا اور ہندوستانی مسلمان بطور قوم ابھی پوری طرح تیار نہیں تھے اس لئے کامیابی نہ ہو سکی، اس کے بعد مسلم اکابرین اور دانشوروں نے مسلمانوں کو ایک قوم کے طور پر اکٹھا کرنے کے لئے کام شروع کیا جس میں کسی کا رنگ مذہبی تھا تو کسی کا سیاسی اور معاشی اور کسی کا تعلیمی ، مگر مقصد سب کا ایک تھا کہ انگریزوں سے آزادی اور ہندووں کے غلبے سے بچا جائے جو بالآخر الگ ملک کی تحریک کا باعث بنا۔ بیسویں صدی کے تیسرے اور چوتھے عشرے میں پاکستانی مسلمان قومیت کا تصور مسلمانوں کی اکثریت کے دلوں میں رچ بس چکا تھا۔ اس کے بعد الگ ملک حاصل کرنے کا مرحلہ کٹھن ہونے کے باوجود طے ہونے میں زیادہ عرصہ نہ لگا۔

ملک تو بن گیا مگر پاکستان میں بسنے والے مختلف طبقات بطور قوم ابھی پنپ نہ سکے تھے اس لئے ان کی باہمی کشمکش جاری رہی اس کے علاوہ اکثریت میں ذاتی مفادات کیلئے کام کرنے کا رجحان موجود ہے، مگر اس میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمی ضرور ہوئی ہے ۔ موجودہ صورتحال میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستانی قوم نہیں بن پائے بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ تمام اقوام بطور قوم خود کو منوانے سے قبل تاریخ کے اسی عمل سے گزرتی ہیں اور یہ عمل کوئی دس بیس سال میں مکمل نہیں ہو جاتا بلکہ کم از کم ڈیڑھ، دو سو سال کا عرصہ لگتا ہے تب وہ قوم عروج کی طرف آگے بڑھتی ہے اس لئے پاکستانیوں کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ، پاکستان کو وجود میں آئے ابھی صرف 66سال ہوئے ہیں، لسانی، مذہبی اور معاشی مسائل نے ابھی تک قوم کو گھیرا ہوا ہے۔ تاریخ کے مطابق توڑ پھوڑ کا یہ عمل اقوام کی شیرازہ بندی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اس کے بعد ہی اقوام بام عروج کو چھوتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔