اگر ہم خاموش رہے

مناظر علی  جمعـء 13 ستمبر 2019
کشمیر میں ذرائع ابلاغ کی بندش کے بعد بیرونی دنیا کشمیر کے اندرونی حالات سے بے خبر ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کشمیر میں ذرائع ابلاغ کی بندش کے بعد بیرونی دنیا کشمیر کے اندرونی حالات سے بے خبر ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے اہل کشمیر پر جو قیامت ٹوٹی ہے، اس کے بعد بیرونی دنیا کو کچھ خبر نہیں کہ وہاں مظلوم کشمیریوں پر مزید کیا مظالم ڈھائے جارہے ہیں، صرف چند ایک خبریں عالمی میڈیا کے ان نمائندوں کے ذریعے آتی ہیں، جنہیں مخصوص علاقوں میں محدود رپورٹنگ کی اجازت ملتی ہے۔ درحقیقت وادی میں خوفناک صورتحال کا خدشہ ہے، جسے چھپانے کےلیے مودی حکومت نے سب کچھ بند کر رکھا ہے۔ مگر حیرت انگیز طور پر عالمی طاقتیں بیان بازی سے بڑھ کر مزید کچھ کرتی نظر نہیں آرہیں، جو انتہائی افسوسناک امر ہے۔

یوں لگتا ہے جیسے عالمی طاقتوں کو مسئلہ کشمیر سے کوئی سروکار نہیں۔ وہاں انسانیت کس عذاب میں مبتلا ہے، انہیں اس بات کا علم نہیں، یا وہ جاننا ہی نہیں چاہتے۔ مگر وادی کشمیر میں جس طرح کرفیو کی صورتحال ہے، اس کے نتیجے میں کیا حالات ہوسکتے ہیں، یہ سوچ کر ہی رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ زندگی کی بنیادی اشیاء کی فراہمی کس طرح ممکن ہورہی ہے۔ خوراک اور ادویات لوگوں کو پہنچ رہی ہیں یا پھر بیمار اپنے گھروں میں ہی تڑپ رہے ہیں؟

ہمیں یہاں ایک دن بغیر پانی کے گزارنا پڑ جائے تو زندگی ختم ہوتی نظر آتی ہے۔ ہم پورا دن کھائے پیے بغیر کس طرح مشکل سے گزارتے ہیں اور وہاں کشمیری کس حال میں ہوسکتے ہیں؟ بیمار کو چند لمحے تاخیر سے اسپتال پہنچائیں تو مریض کس قدر تکلیف سے گزرتے ہیں اور وہاں بیمار کشمیری بہن بھائیوں پر کیا گزر رہی ہوگی؟ ہمارے بچے یہاں بغیر دودھ کے رو رو کر برا حال کرلیتے ہیں اور وادی کشمیر میں معصوم بچے کس حال میں ہوں گے؟ تازہ ہوا کے بغیر زیادہ دیر رہنے سے دم گھٹتا ہے، وہاں پہاڑوں کی قدرتی خوبصورتی اور صحت افزا علاقے کے باوجود لوگ کس طرح گھروں میں بند ہوکر رہ رہے ہوں گے؟

ہمارے بچے کھیل کود کے بغیر گھر میں کتنی دیر گزار سکتے ہیں؟ انہیں اچھلنا، کودنا، جھولے لینا، آئس کریم کھانا، کھلونے خریدنا اور اپنی پسند کی اشیاء بازاروں سے جاکر لینا کتنا پسند ہے، مگر مظلوم کشمیریوں کے بچے اپنے ہی گھروں کے اندر قید کس طرح سانس لے رہے ہوں گے؟ کیا وہ والدین سے ضد نہیں کررہے ہوں گے؟ اور جب بچے باہر جانے کےلیے روتے ہوں گے تو پھر کشمیری والدین انہیں کیا کہہ کر چپ کراتے ہوں گے؟ جب گھروں کے باہر گولی و بارود اور خون کی ہولی کھیلی جارہی ہوگی تو پھر لوگ اپنے لخت جگر کو کس طرح زبردستی روک لیتے ہوں گے؟

ظلم کے خلاف لڑنے کےلیے بھی تو جان چاہیے اور جسم و جان کا ناتا قائم رکھنے کےلیے بھی کھانا پینا ضروری ہوتا ہے، بغیر کھائے پیے، وہ اپنی آواز کیسے بلند کررہے ہوں گے؟ جب ہم ناشتے کی ٹیبل پر، دوپہر اور رات کو طرح طرح کے کھانے کھاتے ہیں، اس وقت کشمیر کے گھروں میں کیا عالم ہوتا ہوگا؟ وہاں کچن میں نجانے کب سے چولہے سرد ہوں گے؟ نجانے ان کے فریج میں کچھ کھانے کو ہوگا یا پھر خالی ہوں گے؟ ہم حتمی طور پر کیا کہہ سکتے ہیں؟ ہمارے پاس مصدقہ اطلاعات ہی نہیں۔ پابندی کے درمیان سے خبریں کیسے دنیا تک پہنچیں؟ ظلم پر ظالموں کا ایک اور ظلم کہ مظلوم کھل کر اپنی آواز بھی بلند نہ کرسکیں، کہیں کوئی ان کی مدد کو ہی نہ پہنچ جائے۔ ایک ایسی قیامت جو کشمیریوں پر یقینی طور پر ٹوٹی تو ہے، مگر اس کے نتیجے میں کیا تباہی مچی ہے، اس کی عکاسی بغیر دیکھے اور بغیر پوچھے کیسے ممکن ہے؟

پاکستان کے عوام اور پوری دنیا میں رہنے والے کشمیری، پاکستانی اور درد دل رکھنے والے مسلمان بے چین ہیں کہ ہمارے کشمیری بھائیوں کا کیا حال ہے؟ پاکستانی حکومت اور دنیا بھر کے وہ مسلمان، جو کچھ کرنے کی پوزیشن میں ہیں انہیں اب مزید خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ یہی وقت ہے جب وہ اپنا کردار ادا کریں۔ یہی وقت ہے جب وہ ظلم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ اگر اب بھی کچھ نہ کیا، اب بھی اپنوں کو بچانے کےلیے غیروں کے گھر دستک دیتے رہے، تو پھر بہت دیر ہوجائے گی اور تاریخ کے اوراق پر ہمیں بہادر نہیں بزدل لکھا جائے گا۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ امت مسلمہ کے نام نہاد رہنما اس معاملے پر خاموش ہیں، فرق اس سے پڑے گا، اگر ہم بھی خاموش رہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مناظر علی

مناظر علی

بلاگر مختلف اخبارات اور ٹی وی چینلز کے نیوزروم سے وابستہ رہ چکے ہیں، آج کل لاہور کے ایک ٹی وی چینل پر کام کررہے ہیں۔ عوامی مسائل اجاگر کرنے کےلیے مختلف ویب سائٹس پر بلاگ لکھتے ہیں۔ ان سے فیس بک آئی ڈی munazer.ali پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔