بند لب اور برطانیہ

وارث رضا  جمعرات 12 ستمبر 2019
Warza10@hotmail.com

[email protected]

موقر انگریزی روزنامے میں برطانوی حکومت کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں دنیا بھر کی صحافتی پابندیوں پر شدید تشویش ظاہر کرتے ہوئے اظہار رائے پر پابندیوں کے بارے میں برطانوی حکومت کی خارجہ پالیسی کو اس کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے اسے متحرک کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جو ممالک اپنے ملکوں میں اظہار رائے پر پابندیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں، ان کے لیے کڑی سے کڑی سزا تجویز کی جائے اور اظہار رائے پر مستقل پابندیوں کے ضمن میں ایسے تمام ممالک جن میں خاص طور پر پاکستان اور سعودی عرب شامل ہیں پر معاشی پابندیوں کا قانون لاگو کر کے اظہار رائے کی آزادی کو ہر صورت بچایا جائے، اس سلسلے میں برطانوی حکومت نے خارجہ امور کی کمیٹی کو دس تجاویز بھیجی ہیں جن پر عمل درآمد کرانے پر زور دیتے ہوئے انسان کے بنیادی رائے کے حق کو محفوظ بنانے کا کہا گیا ہے۔

سوچتا ہوں کہ اظہار رائے کی آزادی کے ضمن میں شکوہ فیض احمد فیضؔ سے کروں کہ جنہوں نے ہمیں بتایا تھا کہ:

بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

بول زبان اب تک تیری ہے

پھر سوچتا ہوں کہ اپنا یہ درد ان سیاسی اور تحریکی صحافیوں کو دکھاؤں جو ہمیشہ میرے درد کا درماں رہے، پھر یہ بھی خیال آتا ہے کہ میری جدوجہد کے ان ساتھیوں سے کیا شکوہ جو خود پیشے کی قہر زدہ زندگی میں لہو لہان ہیں اور اپنا دکھ چاہتے ہوئے بھی بیان کرنے سے قاصر ہیں، ہاں کل ہی کی تو بات ہے کہ یہی دوست تو تھے جو اپنے جذبوں کی توانائی میں کوڑے، قید اور ریاستی صعوبتوں سے بھی خائف نہ ہوتے تھے اور ببانگ دہل سڑکوں، چوراہوں اور نکڑوں پر انسانی و شہری آزادیوں کے لیے بے خوف لڑنے مرنے پر تیار رہتے تھے، سوچتا ہوں کہ آخرکار ایسا کیا ہو گیا ہے کہ دوستوں میں صحافتی آزادی اور جمہوری حق لینے کے جذبے ماند پڑگئے ہیں یا مضمحل دکھائی دیتے ہیں؟

برطانوی حکومت کی اس رپورٹ میں پاکستان میں جمہوری کہلائے جانے والے دور میں صحافتی پابندیوں اور صحافیوں کے معاش اور روزگارکے حق کو نقصان پہنچانے والے اقدامات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کو عوام تک درست معلومات کی رسائی کے حق کو سلب کرنے کا بھی ذمہ دار قرار دیا ہے۔

اسی طرح برطانوی رپورٹ میں فارن اور کامن ویلتھ آفس کی کارگزاری پر تنقید کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ FCO کا ادارہ عالمی سطح پر صحافتی پابندیوں کے سلسلے میں سخت سے سخت قانون سازی کرے اور ایسی حکومتوں کے خلاف عالمی طور سے ایسی سخت سزاؤں کا قانون وضع کرے جن کی مدد سے انسانوں کی آزادی اور صحافتی آزادی کو مکمل تحفظ دیا جا سکے، برطانوی رپورٹ میں سعودی صحافی جمال خشوگی کے بہیمانہ قتل پر سخت برہمی دکھاتے ہوئے مطالبہ کیا گیا ہے کہ خشوگی کے قتل میں ملوث ذمے داروں کو عدالتی کٹہرے میں لایا جائے اور اس سلسلے میں قانون کے تمام تقاضوں کو بغیر کسی دباؤ کے پورا کیا جائے۔

مذکور ہ چشم کشا برطانوی رپورٹ کی موجودگی میں تمامتر ریاستی جبر کے باوجود صحافتی تنظیموں کے ان افضل اور اشرف رہنماؤں اور جدوجہد کرنے والے صحافیوں کو سلام پیش کرنے کا جی کرتا ہے جو ان تمام ریاستی اور معاشی جبر کے باوجود آج بھی اداروں میں انجمن سازی اور صحافی حقوق کی جنگ میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں اور صحافیوں کی یکجہتی کے لیے دوست تنظیموں کے لیے گفتگو کا در کھولے بیٹھے ہیں، اور نئے آنے والے صحافی دوستوں میں ٹریڈ یونین کی اہمیت و افادیت کے لیے پر عزم و توانا جذبوں کے ساتھ تحریکی عمل میں جتے ہوئے ہیں۔

صحافتی ٹریڈ یونین تحریک میں پریس کلب ایک کار آمد ہتھیار کے طور پر قائم کیے گئے تھے مگر بد قسمتی سے جنرل ضیا کے مارشلائی حکومت کے کار فرماؤں نے صحافتی ٹریڈ یونین کے مقابل نئے آنے والوں میں پریس کلب کی افادیت کو اہم بنانے کی کوشش کی جس سے صحافی کو اظہار کی آزادی کے ساتھ شہری وجمہوری آزادی کے بڑے مقصد سے جان بوجھ کر دور کیا گیا۔

جس کا نقصان صحافتی ٹریڈ یونین کی طاقت اور یکجہتی کو ہوا، جب کہ دوسری جانب ریاستی کار فرماؤں نے پریس کلب کو اہم گردان کر صحافیوں کوگروپ بندیوں میں ریاستی پالیسی کے تحت بانٹا اور اپنے من پسند صحافیوں کو صحافتی ٹریڈ یونین سے زیادہ پریس کلب تک محدود رکھا، جوکہ خطرناک رجحان تھا جوکسی قدر موجودہ صحافتی پابندیوں اور معاشی قتل کے ضمن میں ختم ہونے کی طرف جا رہا ہے اور امید ہو چلی ہے کہ ایک مرتبہ پھر صحافتی تنظیمیں متحد ہو کر پریس کلب سیاست سے اجتناب کرتے ہوئے ٹریڈ یونین کی مثبت جدوجہد کرنے کی طرف گامزن ہوں گی کہ جس سے یقیناً صحافت کے ساتھ عوام کی شہری اور جمہوری آزادی کو تحفظ ملنے کی امید ہوگی۔

پاکستان میں صحافتی تنظیم اور صحافتی جدوجہد عالمی طور سے درخشاں باب کے حوالے سے اب تک پہنچانی جاتی ہے،جس کو بہت منصوبہ بندی سے جنرل ایوب کے دور سے کچلنے کی کوشش کی اور آخری ہتھیارکے طور پر جنرل ضیا کے ذریعے مثالی صحافی یکجہتی کو توڑا گیا، جس کا نقصان بہرحال صحافیوں کے روزگار اور ان کے بنیادی حقوق پر پڑا جس سے آج کی صحافت اور تنظیمیں کسی نہ کسی طرح نبرد آزما ہیں اور ایک روشن کل کی امید پیہم رکھتی ہیں۔

محنت کشوں کی افادیت اور ان کے حقوق کی جدوجہد کے لیے ٹریڈ یونین کا قیام ہمیشہ سے ایک تاریخی کام رہا ہے، جس کا براہ راست مقابلہ سرمایہ دار طبقے سے ہی ہوتا ہے جب کہ محنت کش خواہ وہ صحافی ہی کیوں نہ ہو، اپنی انجمن سازی کے ذریعے اپنا حق حاصل کرنے کا جمہوری راستہ اپناتے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ ’’ پسینہ خشک ہونے سے پہلے اجرت دینے‘‘ کا مضبوط اور طاقتور فلسفہ تاریخ کا گم گشتہ حصہ بنایا جا رہا ہے، اس موقع پر جدید دنیا کے کارپوریٹ مارکیٹ کے جدید طریقوں سے محنت کے استحصال کے طریقے جدید ٹیکنالوجی کی آڑ میں اختیار کرکے بنیادی طور سے محنت کش کے جدوجہد کرنے کے فلسفے کو ختم کرنے کی کوششیں جاری ہیں، اس خطرناک رجحان سے باخبر رہنا تمام صحافتی تنظیموں کا فریضہ ہے۔

جدید سائنسی سوچ کے دانشورکارل مارکس نے کارپوریٹ معیشت کے محنت دشمن طریقوں سے ڈیڑھ سو سال قبل دنیا کو خبردارکیا تھا کہ ’’کارپوریٹ معیشت میرٹ کے پردے میں انسان کو معاشی طور سے مجبور کر کے ایسی بے کس زندہ لاش بنا دے گی جو صرف سانس تو لے سکتی ہے مگر اپنی مکمل توانائی استعمال نہیں کر سکتی، مارکس کے بقول سرمایہ دارانہ خر مستیاں انسانی صلاحیت کی اس وقت تک طلبگار رہتی ہیںجب تک وہ اس کے لیے فائدے مند ہے۔

گویا سرمایہ دارکے نزدیک کارپوریٹ مارکیٹ میں انسانی آزادی اس کے احساس اور اس کی صلاحیت کی قدر سے زیادہ منافع کی اہمیت ہے، یعنی انسانی محنت احساس اور حقوق سے عاری ایک ایسی بے جان اور بے سدھ ’’جنس‘‘ بن جائے کہ جس کی مجبوری سے جب چاہے کھیلا جائے۔

پاکستان میں صحافت پر عالمی طور سے پابندی پر تشویش دراصل جمہوری عمل کی آزادی کے ساتھ صحافتی اتحاد اور صحافتی ٹریڈ یونین طاقت کی سرگرمی کے لیے اہم ہے، جس پر ملک کے تمام صحافیوں کی منڈلی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ مشکلات میں گھری صحافتی آزادی کو مشترکہ طور  پر بچایا جا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔