دو خونبار تنازعات: فلسطین اور مقبوضہ کشمیر

ایڈیٹوریل  جمعـء 13 ستمبر 2019
دونوں دشمن طاقتیں اپنے ناجائز قبضہ کے لیے تقریبا ایک جیسے اقدامات کر رہی ہیں۔ فوٹو: فائل

دونوں دشمن طاقتیں اپنے ناجائز قبضہ کے لیے تقریبا ایک جیسے اقدامات کر رہی ہیں۔ فوٹو: فائل

گزشتہ تقریباً ایک سو سال سے چلنے والے یہ دونوں تنازعات جنہوں نے اب تک ہزاروں افراد کی جان لے لی ہے ان دونوں کی ذمے داری دنیا کی اپنے وقت کی اکلوتی سپرپاور برطانیہ کے دو وزرائے خارجہ پر عائد ہوتی ہے جن کی بدنیتی نے ان دو قدیم ترین مسائل کو جنم دیا۔

برطانوی وزیر خارجہ بالفور نے سو سال قبل فلسطین کی سرزمین پر صیہونی ریاست اسرائیل کے قیام کا بیج بویا جو اب تک انتہائی خار دار درخت کی شکل اختیار کر چکا ہے اور دوسری طرف برطانیہ کے خصوصی نمائندے ریڈ کلف نے تقسیم ہند کے موقعے پر اکثریتی مسلم ریاست کشمیر کو پاکستان کی بجائے بھارت کے کھاتے میں ڈال کر ایک مستقل ناسور کی شکل پیدا کر دی۔ اب تقریباً پون صدی گزرنے پر بھارت اور اسرائیل دونوں ایسا رستہ اختیار کر چکے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر مستقل طور پر بھارت کا حصہ اور مقبوضہ فلسطین کو مستقل طور پر اسرائیل کا حصہ بنا لیا جائے۔

بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے قانونی طور پر بھارت کا حصہ ڈکلیئر کر دیا جب کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے غرب اردن کا تمام علاقہ بھی اسرائیل میں شامل کرنے کا اشارہ دے دیا ہے۔ بنجمن نیتن یاہو نے اعلان کیا ہے کہ اگر 17 ستمبر کو ہونے والے اسرائیلی انتخابات میں وہ دوبارہ اس صیہونی ریاست کے وزیراعظم منتخب ہو جاتے ہیں تو وہ وادیٔ اردن کو بھی مقبوضہ مغربی کنارے میں شامل کر لیں گے۔

تاہم فلسطین کی طرف سے فوری ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے خبردار کیا گیا ہے کہ نیتن یاہو امن و امان کی ہر امید کو اپنے قدموں تلے روندنے کا عزم کیے ہوئے ہیں اور انھوں نے دائیں بازو کے ووٹرز کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے اس قسم کا احمقانہ منصوبہ بنا لیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ منتخب ہونے کے بعد وہ مغربی کنارے پر اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کو مزید وسعت دے دیں گے تاہم اس کے ساتھ ہی ساتھ انھوں نے کہا کہ ایسا کرنے کے لیے انھیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت اور مدد کی بھی ضرورت ہو گی۔

واضح رہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کے اس اعلان کے بعد دو ریاستیں بنانے کی تھیوری میں اگر اب بھی کوئی امید ہو سکتی ہے تو نیتن یاہو کے اس اعلان نے وہ امید بھی ختم کر دی ہے۔ نیتن یاہو کے نئے اعلان نے فلسطین اور اسرائیل کے بارے میں دو ریاستی تھیوری کی رہی سہی امید کو بھی توڑ دیا ہے۔ نیتن یاہو نے اپنی انتخابی تقریر میں کہا ہے کہ وہ انتخاب جیتنے کے بعد وادی اردن اور مقبوضہ مغربی کنارے کے باقی کے علاقے بھی اسرائیل میں شامل کر لیے جائیں گے جس کے بعد بقول نیتن یاہو فلسطین اسرائیل تنازعہ اپنے انجام کو پہنچ جائے گا۔ اسرائیل کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر مشروط حمایت حاصل ہے ۔

ٹرمپ نے مقبوضہ جولان کی پہاڑیوں کو بھی اسرائیل میں شامل کرنے کے اعلان کو تسلیم کیا تھا اور یہ دلیل پیش کی تھی کہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے جولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل میں شامل کرنا ضروری تھا۔

واضح رہے جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا قبضہ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد ہو گیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر اور فلسطین اسرائیل تنازعہ پر ایک اجمالی نظر ڈالی جائے تو ہم دیکھیں گے کہ دونوں دشمن طاقتیں اپنے ناجائز قبضہ کے لیے تقریبا ایک جیسے اقدامات کر رہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔