حُسینیت علم، آگاہی، معرفت اور حق الیقین

عبد الحمید  جمعـء 13 ستمبر 2019

مسندِ احمد کی شرح فتح الربانی جلد 23 میں ام المومنین سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے کہ ایک روز ام المومنین سیدۃ ام سلمہؓ نبی کریمﷺ کے حجرے میں داخل ہوئیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ سیدنا حسین ؓ آپﷺ کی گود میںہیں اور آپﷺ آبدیدہ ہیں، سیدہ امِ سلمہؓ نے دریافت کیا یا رسول اللہ آپ کیوں آبدیدہ ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ ابھی ابھی ایک فرشتہ آیا جو اس سے پہلے کبھی آسمان سے زمین پر نہیں اترا اور اس نے بتلایا ہے کہ حسین ؓ کو شہید کر دیا جائے گا، اس فرشتے نے اس زمین کی مٹی بھی لاکر دکھائی جہاں حسین ؓ کو شہید کیا جائے گا۔

رسول اللہ کو اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ ؓ سے بے حد پیار تھا۔آپ جب کبھی کسی سفرسے تشریف لاتے تو عموماً سب سے پہلے اپنی بیٹی کے ہاں تشریف لے جاتے، امام مسلم نے حضرت ابو ہریرہ سے روایت نقل کی ہے کہ انھوں نے بیان کیا کہ میں رسولِ اللہ کے ساتھ ایک دن روانہ ہوا۔ یہاں تک کہ حضرت فاطمہ ؓ کے گھر پر پہنچے۔تھوڑی ہی دیر کے بعد حضرت حسن دوڑتے ہوئے آئے اور نانا سے بغلگیر ہو گئے پھر رسول اللہ نے فرمایا اے اللہ بے شک میں اس سے محبت کرتا ہوں پس آپ بھی اس سے محبت فرمایئے اور اس سے محبت کرنے والے سے بھی محبت فرمایئے۔

امام مسلم نے سیدہ عائشہؓ سے روایت کی ہے کہ نبی کریمﷺ کی ازواجِ مطہرات آپﷺ کے پاس بیٹھی تھیں کہ فاطمہ ؓ چلتے ہوئے آئیں آنحضرت نے جب ان کو آتے دیکھا تو خوش آمدید کہتے ہوئے فرمایا مرحبا میری بیٹی پھر آپﷺ نے ان کو اپنے پاس بٹھایا۔ سیدہ عائشہؓ سے ہی روایت کی ہے کہ میں نے فاطمہ ؓ سے زیادہ کسی کو بات چیت میں رسول اللہکے مشابہ نہیں دیکھا، حضرت براء سے روایت کی ہے کہ میں نے حسن ؓ کو نبی کریمﷺ کے کندھے پر دیکھا جب کہ آپ فرما رہے تھے کہ اے اللہ بے شک میں اس سے محبت کرتا ہوںآپ بھی اس سے محبت فرمایئے۔

حضرت بریدہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ہمیں خطبہ دے رہے تھے حسن ؓ اور حسین ؓ سرخ قمیض پہنے لڑکھڑاتے ہوئے آئے رسول اللہ منبر سے نیچے تشریف لائے دونوں کو اُٹھایا اور اپنے آگے بٹھا لیا۔ آپ نے فرمایا اور جس شخص نے ان دونوں سے محبت کی بے شک اس نے مجھ سے محبت کی۔ سیدہ عائشہؓ سے ایک اور روایت ہے کہ نبی کریمﷺ ایک صبح کالی چادر اوڑھے ہوئے نکلے۔

حسن ؓ آئے تو آپ نے انھیں اپنی چادر میں داخل کر لیا، پھر حسین ؓ آئے تو انھیں بھی لے لیا پھر فاطمہ ؓ آئیں تو انھیں بھی چادر میں لے لیا پھر علی آ گئے تو آپﷺ نے انھیں بھی چادر میں داخل کر لیا پھر آپﷺ نے سورۃ احزاب کی آیت تلاوت فرمائی اے اہل بیت اللہ تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کرے اور تمہیں مکمل طور پر پاک کر دے۔ حضرت ابو بکر سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ کی نماز کے دوران حسنین کریمین آتے اور آپ ﷺ کی گردن یا پیٹھ پر چڑھ جاتے، ابو یعلی نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے یہی روایت نقل کی ہے۔ امام داؤد اور امام ترمذی نے بتایا کہ سیدنا حسن ؓ کی پیدائش پر رسول اللہ نے ان کے کان میں اذان دی۔

امام بخاری اور امام مسلم نے ام المومنین سیدۃ عائشہ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے سیدۃ فاطمہؓ  الزہرا سے رسول اللہ کی سرگوشی کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے بتایا کہ پہلے آپﷺنے مجھے اپنی وفات کے بارے میں بتایا تو میں رنجیدہ ہو گئی اس پر رسول ا ﷲ نے مجھ سے دوبارہ سرگوشی کرتے ہوئے فرمایا اے فاطمہ ؓ کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ تم جنت میں ایمان والی عورتوں کی سردار ہو۔آپﷺ نے سیدنا حسن ؓ اور سیدنا حسینؓ کو جنت کا سردار فرمایا۔

سیرت النبی کی پہلی مکمل کتاب کے مصنف ابنِ اسحاق لکھتے ہیں کہ 10 ہجری میں اللہ کے نبی نے حج فرمایا اس موقعے پر ایک لاکھ سے زائد لوگ آپﷺ کے ساتھ تھے، سیدنا علیؓ ایک مہم کے سلسلے میں یمن گئے ہوئے تھے وہاں سے  فارغ ہو کر حج کے دنوں میں حضورﷺ سے آملے اور آپ کے ساتھ حج کیا۔

حج کے دوران یمن کی مہم میں حصہ لینے والوں میں سے کچھ آپﷺ کو حضرت علی کے خلاف شکایت لگاتے رہے۔ مدینہ کے راستے میں غدیر کے مقام پر نبی کریمﷺ نے پڑاؤ فرمایا اور خطبہ دیا۔آپ نے فرمایاکہ تمھارے درمیان اللہ کی کتاب چھوڑ کر جا رہا ہوں اور اپنے اہلِ بیت کے بارے میں تمھیں اللہ سے ڈراتا ہوں، آپ نے یہ ارشاد تین مرتبہ دہرایا پھر حضرت علی ؓ کا ہاتھ پکڑ کر بلند فرمایا اور کہا کہ جس کا  میں مولا ہوں اس کا علی مولا ہے۔ دیکھئے آپ امت کو اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ سے ڈراتے رہے لیکن امت نے جو بظاہر رسول اللہ کی شیدائی اور محبت کا دم بھرتی تھی اہلِبیت اطہار سے کیا سلوک کیا۔

حضرت علی سے جنگیں کیںاور شہید کر ڈالا۔ پھر سیدنا حسن ؓ کو زہر دے کر راستے سے ہٹا دیا، سیدنا حسین ؓ کو تقریباً تمام خاندان سمیت شدید پیاس کی حالت میں شہید کر دیا۔ جانوروں کو تو پانی میسر تھا لیکن رسول کے نواسے پر پانی بند تھا یہ بر بریت کرنے والے کون تھے جب کہ ابھی صحابہ اور تابعین کا دور تھا۔ یہ کیسے مسلمان تھے کیا ان کو نبی کریم کے ارشادات اور اہلِبیت سے محبت کا علم نہیں تھا۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے

کیا تماشہ ہوا اسلام کی تقدیر کے ساتھ

قتل شبیر ہوئے نعرہء تکبیر کے ساتھ

اسلام سر فروشوں کا، سر کٹوانے والوں کا، جانیں نثار کرنے والوں کا دین ہے۔ حرمِ کعبہ کی بنیاد رکھتے ہوئے سیدنا اسمٰعیل کی قربانی جس کو ذبحِ عظیم میں بدل دیا گیا امام حسین ؓ کی شہادت پر مکمل ہوئی۔ کربلا کا تعلق صرف اسلام کی تاریخ سے نہیں بلکہ اسلام کی حقیقت سے ہے۔کربلا بتاتی ہے کہ اللہ کے پیاروں کو کیوں ابتلا آتیں ہیں۔

کربلا سبق دیتی ہے کہ عشق کی قربان گاہ پر صرف پاک، صاف اور بے عیب کی قربانی قبول ہوتی ہے، کہ نکل کر خانقاہوں سے رسمِ شبیری ادا کرنی پڑتی ہے اگر آپ غور کریں تو اولادِ رسول آج بھی مظلوم ہے آج بھی پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ حسین کو جب روکا جا رہا تھا تو انھیں آگے نہیں جانا چاہیے تھا۔

انھیں بچوں اور خواتین کو ساتھ نہیں رکھنا چاہیے تھا۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ جب حکومت قرآن کے خلاف ہو چکی تھی،فسق اور فجور دین اسلام بن چکا تھا،جبر اور استبداد نے زبانیں گُنگ کر دی تھیں ایسے میں رسول کی اولاد اگر چپ رہتی تو یہی کچھ دین بن جانا تھا۔ سیدنا حسین ؓ کو پتہ تھا کہ ان کا گھرانا اور چند ساتھی ریاست کی قوت کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے لیکن وہ یقین کی اس منزل پر تھے کہ کوئی چیز حتیٰ کہ موت بھی ان کو اختلافی نوٹ لکھنے سے باز نہیں رکھ سکتی تھی۔ اور یہ اسی قربانی کا ثمر ہے کہ آج بھی دینِ اسلام اپنے اصلی پیغام کے ساتھ جگمگا رہا ہے۔ ان گنت درود و سلام ہوں محمد ﷺپر، آپ کی اولاد پر اور آپ کی آل پر۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔