دیر و حرم کی رقابت۔۔۔۔خدا حافظ

ڈاکٹر یونس حسنی  جمعـء 13 ستمبر 2019

آج کل رواداری کی اصطلاح جس بے دردی کے ساتھ بے دینی کے لیے استعمال کی جا رہی ہے وہ قابل توجہ ہے۔ اسلام میں رواداری کا تصور صرف یہ ہے ’’لکم دینکم ولی دین‘‘ تمہارا دین تمہارے لیے ہمارا دین ہمارے لیے۔ یعنی ہم دین کے معاملے میں کسی سے زبردستی نہیں کرتے اور جو چاہے اپنے دین پر قائم رہے اس سے زبردستی نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح ہمیں ہمارے دین پر چلنے سے نہ روکا جائے۔

ادھر مسلم معاشرے کو جدید رواداری کابخار چڑھا ہوا ہے ہم اقلیتوں کے ساتھ حسن سلوک کے علم بردار ضرور ہیں اور رہیں گے مگر اس کے معنی یہ نہیں کہ رواداری کے نام پر ہم ہولی پر ان کے ساتھ رنگ پھینکنے میں شریک ہوں یا دیوالی پر دیے جلاکر رام چندر جی کی وطن واپسی پر خوشی منائیں۔

دراصل ہر مذہب و ملت کے تہوار اپنا پس منظر رکھتے ہیں مشرکانہ تہوار مشرکانہ پس منظر کے حامل ہوتے ہیں اور اسی فلسفے کا مظہر ہوتے ہیں اس لیے اسلام کے ساتھ ان کی پیوند کاری ممکن نہیں۔ ہمارے یہاں بھی انتہا پسندانہ روا داری یا دوسروں کو خوش کرنے کے لیے اپنے عقیدے و مذہب کی سوداگری کا چلن ہونے لگا ہے۔لیکن پچھلے دنوں سے یہ وبا عالم عرب تک جا پہنچی ہے۔

دلی میں مذہبی رواداری کے پیش نظر ہندوؤں کو مندر کی تعمیر کے لیے ایک وسیع قطعہ اراضی عطا کیا گیا جس پر عالی شان مندر تعمیر ہوا اور اس کے افتتاحی اجلاس میں حکمران طبقے کے افراد شامل ہوئے۔ خطہ عرب وہ سرزمین ہے جہاں سے بتوں کو ہمیشہ کے لیے نکال دیا گیا تھا اور شرک کی سرکوبی کے لیے عربی علاقوں سے بت پرستی کو دیس نکالا دے دیا گیا تھا۔ مگر اس وقت بھارت عرب امارات میں سرمایہ کاری کا سب سے بڑا ساہو کار ہے۔ اس لیے امارات کے حکمران بھارت کو خوش رکھنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور اس کی کم فہمی میں دور تک نکل گئے ہیں اتنی دور تک کہ عالم عرب میں ایک بار پھر بت لاکر بٹھا دیے گئے ہیں۔

اتنا ہی نہیں آج کل سماجی ویب سائٹ پر دو ویڈیو وائرل ہوگئی ہیں۔ ایک ویڈیو میں امارات کے ایک شیخ کو ایک بھارتی تقریب میں تقریر کے لیے بلایا جاتا ہے اور شیخ مذکور آکر اپنی گفتگو ’’جے شری رام‘‘ کے الفاظ سے شروع کرتے ہیں۔

ہمارا حسن ظن یہ ہے کہ محترم شیخ شاید ’’جے شری رام‘‘ کی معنویت اور اس کی مشرکانہ حیثیت سے واقف نہیں اور اسے محض ابتدائے کلام کا انداز سمجھ کر خود بھی بول بیٹھے ہیں۔ ان کے کلام کی اس طرح ابتدا پر تالیوں سے اس کا استقبال کیا گیا۔

اسی کے ساتھ ایک دوسری ویڈیو بھی وائرل ہو رہی ہے جس میں ایک ہندو نوجوان ایک بوڑھے مسلمان کو شدید زد و کوب کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے ’’بول جے شری رام‘‘ اور وہ مار کھاتا جا رہا ہے مگر بول کر نہیں دے رہا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ مشرکانہ کلمہ ہے اور اسلام کے منافی ہے نوجوان مار مار کر کہہ رہا ہے یہ آج ’’جے شری رام بولے گا‘‘ اور وہ مار کھاتے ہوئے آسمان کی طرف آنکھیں اٹھا کر کہہ رہا ہے ’’اے پروردگار! اے پروردگار!‘‘

اس غریب کو مار کھاتے دیکھ کر ابتدائے اسلام کے وہ لونڈی غلام یاد آگئے جن کو شدید اذیتیں دی جاتی تھیں اور اللہ کی وحدانیت سے انکار پر مجبور کیا جاتا تھا مگر وہ مار کھاتے رہتے تھے لیکن اپنے ایمان پر آنچ نہیں آنے دیتے تھے۔ یہ بوڑھا شخص بھی اپنے ایمان و ایقان کی اسی بلند سطح پر ہے جب کہ حکمران طبقے کا ایک فرد یہ بھی نہ جان سکا وہ جو الفاظ ادا کر رہا ہے وہ دراصل مشرکانہ الفاظ ہیں حالانکہ حکمرانوں کے وسائل ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے ماتحت افسران ان یہ باورکرانے کے پابند ہوتے ہیں کیا حق ہے اور کیا ناحق کیا کہنا چاہیے اور کیا نہیں کہنا چاہیے۔

اگر ہمارا حسن ظن غلط ہے اور یہ سارا عمل جو امارات میں ہو رہا ہے محض رواداری کے نام پر کیا جا رہا ہے تو اس پر انا للہ پڑھ لینا چاہیے۔

یہ جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس سے عالم اسلام کی بے خبری کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ بھارت میں جوکچھ ہو رہا ہے دنیا کے حکمران طبقے اس سے واقف ہیں اور اگر نہیں ہیں تو انھیں ہونا چاہیے۔ اب بھارت میں ’’جے شری رام‘‘ کا جو احوال ہے اس پر بھی نظر ڈال لیجیے۔

’’جے شری رام‘‘ کا نعرہ 2014 کے انتخاب میں بی جے پی نے بلند کیا اور نہ صرف ہندو بلکہ مسلمانوں پر بھی یہ نعرہ لگانا لازم قرار دیا جانے لگا اور اب یہ مسلمانوں کے لیے موت کا لائسنس بن چکا ہے۔ یہ نعرہ نہ لگانے کی پاداش میں ایک رپورٹ کے مطابق مسلمانوں پر ایک سو حملے کیے جاچکے ہیں۔ درجنوں مدارس، گھروں ، گاڑیوں اور جائیدادوں کو خاکستر کیا جاچکا ہے۔ نعرہ نہ لگانے کی پاداش میں 134 مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بناکر ان کو شدید زخمی کیا جاچکا ہے اس کے علاوہ تبریز انصاری سمیت 7 مسلمانوں کو شہید کیا جاچکا ہے۔ بھارتی پولیس اس سارے معاملے میں حسب معمول خاموش تماشائی بنی رہتی ہے اور مسلمان بے چارگی کی تصویر بنے مار کھاتے، زخمی ہوتے اور موت کے منہ میں جاتے رہتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ جس بات کو بھارت کا ایک عام مسلمان خلاف اسلام سمجھ کر نعرہ لگانے سے گریزاں ہے عربوں کو اس کی فہم کیوں نہیں ہے اور وہ بھارتی مسلمانوں پر ہونے والے ان مظالم سے بے خبر اور بے نیاز کیوں ہیں؟ کیا وہ اس جسد واحد کا حصہ نہیں ہیں جسے مسلمان کہتے ہیں؟

خود ہندوستان میں کانگریس، کمیونسٹ پارٹی، سوشلسٹ پارٹی اور غیر متعصب ہندو اس رویے پر شدید ردعمل کا اظہار کر رہے ہیں تو آخر عالم عرب اس سے اتنا بے خبر کیوں ہے وہ نہ اسے مشرکانہ نعرہ سمجھ رہا ہے نہ مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا انھیں احساس ہے کیا سرمایہ داری اور سرمایہ کاری نے ان کے ذ ہن و فکر پر تالے ڈال دیے ہیں اور کیا وہ محض روپے  پیسے کے لیے اس حد تک جا سکتے ہیں کہ اسلام ہی خطرے میں پڑ جائے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔