پانی رے پانی

شہلا اعجاز  جمعـء 13 ستمبر 2019

پاکستان میں مون سون کی بارشوں کا سیزن اب بھی جاری ہے ، اس سے پہلے بھی بارشوں نے کراچی شہر بھرکی صورتحال خاصی ابترکر دی تھی ، جو سڑکیں اچھی بھلی تھیں ، ان میں جا بجا گڑھے پڑگئے ہیں، ذرا سی گلی میں نشیب تھا جو پانی سے لبالب بھرگئے، ہم سب ناراض ہیں، چیخ رہے ہیں، چلا رہے ہیں۔ ابھی چند مہینے پہلے ہی ہم سب بارشوں کے لیے دعائیں بھی مانگ رہے تھے۔ علاقے بنجر اور سوکھ رہے تھے، درخت پودے پانی کو ترس رہے تھے اور جب آسمان سے بادل برسے تو سب کچھ جل تھل ہوگیا۔

انسان فطرتاً ناشکرا ہے، جو دستیاب ہے، اس سے گلہ ہے جو دسترس میں نہیں اس کی خواہش بڑھتی جا رہی ہے، کچھ یہی حال ہمارا بھی ہے۔ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے جب گلیاں پانی سے نہریں سی بن گئی تھیں آسمان سے پانی برسے جا رہا تھا لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ہم سمیت اور کئی علاقوں کے مکین گھروں میں پینے اور عام استعمال کے پانی کے متلاشی تھے کیونکہ ہمارے اداروں نے تو جیسے مہینے مہینے بلوں کے سنگ سنگ پانی چھوڑنے کی قسم کھائی ہے۔

یہ داستان غم تو کافی طویل ہے، البتہ بارشوں کے حوالے سے اس کے قیمتی میٹھے پانی کو یوں سڑکوں پر دوڑتا بھاگتا دیکھ کر افسوس ہوا کہ کاش یہ پانی انسان اپنے کام میں لاسکتا، گھریلو لحاظ سے تو  دھڑا دھڑ بہتے پانیوں سے گھر کے باتھ رومز، دیواریں وغیرہ تو دھونے کا عمل ہوسکتا ہے اور غالباً بہت سے عقل مندوں نے شاید ایسے قیمتی پانی کو محفوظ بھی کرلیا ہو لیکن ایک بڑے منظر نامے میں ذرا جھانکیے تو کیا ہم ایسے خوبصورت موتی جیسے شفاف پانی کو روزمرہ کی زندگی کے علاوہ دوسرے اہم مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے لیے محفوظ نہیں کرسکتے؟

پاکستان زرعی حوالے سے ماضی میں اپنی بہت اچھی ساکھ رکھتا تھا لیکن اب پانی کی کمی کے باعث اور دوسرے ذرائع کی عدم دستیابی کے باعث بہت سے ترقیاتی میدانوں میں ہمیں خفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ساری ذمے داری سرکار کے کندھوں پر ڈال کر خود صرف واویلا ہی کرسکتے ہیں؟

کیا ہم خود اپنے اور اپنے آنے والی نسلوں کے لیے کچھ کرنے کے جذبات سے عاری ہوچکے ہیں، پہلے پانی کی کمی کے باعث مسائل تھے تو اب پانی کے بے بہاؤ کی نعمت ہمیں گراں گزر رہی ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں پینے اور زراعت کے حوالے سے پانی کی شدید قلت 2025 تک دیکھی جاسکتی ہے اور اگر حالیہ صورتحال کو کنٹرول نہ کیا گیا تو 2040 تک یہ قلت قحط کی صورت بھی اختیار کرسکتی ہے۔ ہمارے ذرخیز، لہلہاتے کھیت ریگستان بن جائیں گے صرف یہی نہیں زیر زمین پانی کے ذخائر بھی بے انتہا ڈرلنگ کرکے نکالنے کی صورت میں سکڑ رہے ہیں۔

یاد رہے یہ ذخائر ہماری سرزمین کے لیے بہت اہم ہیں ان کی کمی کے باعث ہماری عمارتیں، گھر، مکان اور بڑے بڑے پلازہ زمین میں دھنسنا شروع ہوجائیں گے کیونکہ تہران اور جکارتہ میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ کیا عنقریب ہم اپنی محنت سے بنائی ان شاندار تعمیرات کو دھنستا دیکھ کر صرف واویلا کریں گے۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے انڈونیشیائی حکومت نے تو ایک خطیر رقم اپنے دھنستے ہوئے دارالحکومت کو دوسرے شہر میں منتقل کرنے کے لیے مختص کر رہی ہے اور اس پر وہ کام بھی کر رہے ہیں جب کہ ہم دوسرے ممالک سے امداد کے طلب گار ہی رہتے ہیں۔

تاریخ میں جھانک کر دیکھیے بے شک ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی تھی تقسیم کے وقت اہم چھ دریا، ستلج ، بیاس ، راوی، چناب، جہلم اور انڈس کے ماخذ بھارت میں ہی چھوڑ دیے گئے۔ ریڈکلف تو اپنی کرچکے تھے لیکن پاکستان پانی کے حوالے سے بھارت سے نیچے ہے کیونکہ ان پانیوں کا کنٹرول ان کے پاس ہے، جو ہو چکا ہے ، اس پر ہم بین کرکے اگرکچھ حاصل کرسکتے ہیں تو یقینا یہ زبردست سا خیال ہے لیکن حقیقت کی آنکھ سے دیکھیے اور سوچیے کہ رب العزت نے اپنی قدرت سے ہمیں بھی فیضیاب کیا ہے ہمارے علاقوں میں بھی بارشوں کی رحمت برسی ہے، کیا ہم انفرادی طور پر اس قدرتی نعمت کو آفت بنانے سے نہیں روک سکتے۔

موئن جو دڑو جو سندھ میں واقع ہے، ذرا اس کے کھنڈرات کا معائنہ کریں۔ کس طرح دور قدیم میں وہاں پانی اور سیوریج کے نظام کے لیے اس زمانے کے ماہرین اور انجینئرز نے کام کیے تھے، کیا اس زمانے میں فصلیں پیدا نہیں ہوتی تھیں کیا اس زمانے میں وہ کیک پرگزارا کرتے تھے۔

ہم ہر طرح سے اپنی فرار کے لیے وجوہات ڈھونڈ لیتے ہیں لیکن اگر ہم اپنے ہی ملک میں قدیم تہذیب کا معائنہ کریں تو نئے زمانے کے ماہرین اور انجینئرز اس سے بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں، خود بخود جھیل بن جانے کے نظریے سے متفق نہ ہونا حماقت ہے کیونکہ یہ تو اوپر والے کی دین ہے کہ وہ کیسے عطا کرتا ہے لیکن رب العزت نے سوچنے کے لیے دماغ دیا ہے اور شکر ہے رب العزت کا کہ یہاں محنت کش اور سرمایہ داروں کی بھی کمی نہیں،  البتہ گجرات میں جو لوگ اپنی زمین کو زرخیز رکھنے کے لیے وقت پر پانی کی فراہمی چاہتے ہیں انھوں نے قدیم طرز پر بارشوں کے پانی کو اپنے طور پر محفوظ کرنے کے لیے بڑے بڑے تالاب بنا لیے ہیں تاکہ زرعی حوالے سے کسان کو مشکل نہ ہو۔ کچھ اسی طرز کے تالاب موئن جو دڑو میں بھی دیکھے گئے تھے۔

ہر مون سون کے موسم میں قدرتی میٹھے پانی کے ضیاع کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے ڈیم جب بننا ہوں گے بن ہی جائیں گے انشاء اللہ کہ ہم اپنے رب سے بالکل نا امید نہیں ہیں لیکن انفرادی طور پر ہمارے  جاگیر دار، اور وڈیرے حضرات اپنے علاقوں میں اس طرز پر تالاب بناکر پانی کو محفوظ رکھ سکتے ہیں نہ صرف وہ بلکہ یہ ہمارا بھی فرض ہے کہ اپنے گھروں سے صاف شفاف میٹھے پانیوں کو محفوظ کرنے اور اپنے استعمال میں لانے کے لیے اپنے ذہین اذہان کو چلا سکتے ہیں کیونکہ یہ بارشوں میں بہتا دوڑتا گلیوں سڑکوں پر مچلتا پانی کسی اندھیرے کنوئیں میں نہیں بلکہ انھی دریاؤں میں جاتا ہے جہاں سے ہم ماہانہ بل ادا کرکے پانی حاصل کرتے ہیں اور باقی ندی نالوں سے ہوتا سمندر میں غرق ہوجاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔