سندھ کی پہچان

ڈاکٹر توصیف احمد خان  ہفتہ 14 ستمبر 2019

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کیلئے سبسکرائب کریں

ڈاکٹرمبارک علی، بنیادی طور پر استاد ہیں، وہ سندھ یونیورسٹی  شعبہ تاریخ کے فارغ التحصیل ہیں ۔ انھوں نے تدریس کے ساتھ تحقیق کو اپنی زندگی کا محور بنایا، اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ گئے پھر مغربی جرمنی سے مغل دربار میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔

انھوں نے کارل مارکس کے فلسفے کا گہرائی سے مطالعہ کیا اردو میں عوام کی تاریخ لکھنے کا رواج ڈالا۔اپنی تحقیق کی بنیاد پر ہمیشہ معتوب رہے، سندھ یونیورسٹی کے ارباب اختیار نے انھیں کئی دفعہ انتظامی طور پر معطل رکھا۔ سندھ یونیورسٹی کے حالات سے دلبرداشتہ ہو کر ریٹائرمنٹ لے لی،پھر وہ لاہور چلے گئے لیکن ملک کی کسی یونیورسٹی میں  ان کے لیے کوئی جگہ نہیں بن سکی۔

ڈاکٹرمبارک علی کی اب تک 80 سے زیادہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں، یہ کتابیں سماج کے ارتقا ، خواتین کی تاریخ ، قوموں کے عروج اور تاریخ کی اہمیت جیسے اہم موضوعات سے متعلق ہیں۔ سندھ ڈاکٹر مبارک علی کا پسندیدہ موضوع ہے، انھوں نے سندھ میں عربوں کی آمد ، راجا داہر کا دور اور محمد قاسم کے کردار جیسے اہم موضوعات پر معرکتہ الآرا کتابیں لکھی ہیں۔

ان کی نئی کتاب ’’سندھ کی پہچان ‘‘کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔انھوں نے اپنی اس کتاب کا انتساب معروف ادیب امر جلیل کے نام کیا ہے۔سماجی علوم کے استاد اور محقق ڈاکٹر ریاض شیخ کتاب کے دیباچے میں حرف چند کے عنوان سے لکھتے ہیںکہ سندھی جہاں بقول شاہ لطیف بھٹائی سب کی خوشحالی کے لیے دعا گو ہیں تو ساتھ ہی اپنے حقوق اور خصوصاً اپنی شناخت کو برقرار رکھنے کے لیے بھی کافی حساس ہیں۔

وہ اپنی زبان  ، ثقافت اور تحریر پر فخرکرتے ہیں اور اسی روایت کو برقرار رکھنے کے لیے سندھ میں ادب ، شاعری  ، موسیقی ، ڈانس ، فنون لطیفہ اور دوسری دیگر اقسام کی ہمیشہ پذیرائی ہوتی ہے۔اس روایت کو آگے بڑھانے کے لیے اس دھرتی کے فرزندوں نے چار سال قبل کراچی میں سندھی ادبی میلے کا انعقاد کیا، یہ ایک انتہائی محنت طلب کام تھا جس میں مشکل زیادہ اور امیدیں کم تھیں لیکن انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور تیسرے ادبی میلے کا انعقاد کیا اور اس ادبی میلے کے افتتاحی سیشن کا مہمان خصوصی ڈاکٹر مبارک علی کو منتخب کیا گیا۔

ڈاکٹر مبارک علی نے سندھ کی تاریخ کو روایتی اور سرکاری نقطہ نظر سے رقم کرنے کی بجائے اس کو عوامی نقطہ نظر سے لکھنے کی روایت کے امین ہیں اور اس ادبی میلے میں سندھ کی عوامی تاریخ کو اجاگر کیا۔وہ خود اس کتاب کے تعارف میں لکھتے ہیں کہ پاکستان کے مختلف اداروں کی جانب سے اس خواہش کا اظہار کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی مستند اور مضبوط تاریخ لکھوائی جائے ۔صوبہ سندھ میں یہ خواہش تحقیقی اداروں کی جانب سے کی جاتی ہے۔

سندھ کی تاریخ کا وہ منصوبہ جو اپنے قیام کے ابتدائی دنوں میں سندھ ادبی بورڈ نے بنایا تھا ،اس کو پورا کیا جائے ،سندھ کی تاریخ کو ازسرنو لکھا جائے لیکن اس پر غور نہیں کیا جاتا کہ تاریخ کو لکھنے کے لیے مورخوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہ مورخ جو نہ صرف سندھ کی تاریخ سے آشنائی رکھتے ہوں بلکہ موجودہ حالات میں تاریخ کے بدلتے ہوئے نظریات سے بھی واقف ہوں۔

تاریخ محض واقعات کو جمع کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ اسے تھیوریٹکل فریم ورک میں لکھ کر واقعات کی تشریح ضروری ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ تاریخ کا علم اسی وقت ہی تبدیل ہوجاتا ہے جب کوئی نئی دستاویزات یا مخطوطات دریافت ہوتے ہیں ۔ان کی روشنی میں تاریخ کو ازسرنو لکھنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ کتاب کے مصنف سندھ کی تاریخ ،ایک تجزیے کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ تاریخ کی قوموں کی زندگی میں بڑی اہمیت ہوتی ہے۔

اس کے مطالعے سے معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں کا پتہ چلتا ہے۔جنگ کی صورت میں نئی روایت بنتی ہیں اور فوج ایک طاقتور ادارے کی حیثیت میں اپنا مقام بناتی ہے۔کبھی کبھی قدیم تہذیب زمین میں مدفون ہوکر ماضی کی تاریخ کو چھپا دیتی ہے، لیکن جب آثار قدیمہ کے ماہرین اس ماضی کو آشکار کرتے ہیں تو پھر تاریخ میں نیا اضافہ ہوتا ہے، قوموں کی تاریخ میں اسی وقت تبدیلی ہوتی ہے جب نئی دستاویزات اور مخطوطات دریافت ہوتے ہیں۔

ان کی معلومات سے تاریخ بدلتی رہتی ہے،کیونکہ سندھ کی تہذیب مٹی تلے مدفون ہوکر گم ہوگئی تھی لیکن جب 1920 میں اس کی کھدائی ہوئی تو اس مدفون تہذیب کے حیرت کن آثار برآمد ہوئے، خاص طورپر ہڑپہ اور موہنجو داڑو جیسے اس کے نئے آثار دریافت ہوتے رہے اس طرح تہذیب کے پھیلاؤ کا بھی اندازہ ہوتا رہا۔ وہاں سے ملنے والے اوزار ، استعمال کے لیے دوسری اشیا کے ، لوگوں کے رہن سہن ، عادات ، عقائد اور روزمرہ کی زندگی کے بارے میں معلومات اکٹھی ہوتی رہی ہیں۔

خاص طور پر موہنجو داڑو میں پائے جانے والے آثار سے لوگوں کی سیاسی و سماجی زندگی کا اظہار ہوتا ہے ۔ڈاکٹر مبارک علی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب ہم تاریخ کے ان اہم پہلوؤں پر نظر ڈالتے ہیں اور اس کا دوسری قدیم تہذیبوں سے مقابلہ کرتے تو اس صورت میں اس میں وہ خصوصیات نظر آتی ہیں جو دوسری تہذیبوں میں نہیں تھیں مثلاً وادی سندھ میں ہمیں کسی طاقتور حکمران کی موجودگی نظر نہیں آتی ہے ، جو جبروطاقت سے لوگوں کو خوفزدہ کرکے حکومت کرتا ہو اور نہ ہی وادی سندھ کے لوگوں نے دوسرے ہمسایہ ملکوں پر حملے کیے اور نہ ایسی خونریزی کی جو دوسری تہذیبوں میں ملتی ہے۔

جیسے آسٹریا کے بادشاہ جب اپنے دشمن کو شکست دیتے تھے تو ان کی لاشوں کو رتوں کے نیچے کچل دیتے تھے۔مصر کے حکمران جب جنگوں میں فاتح ہو کر لوٹتے تھے تو دشمنوں کے ہاتھ کاٹ کر لاتے تھے تاکہ گنتی کر سکیں کہ انھوں نے کتنے لوگوں کو قتل کیا ۔ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا کہ جب پندرہ سو قبل مسیح آریا ہندوستان آئے تو وہ پہلے پنجاب میں آباد ہوئے پھر وہ وادی گنگا جمنا میں بس گئے ،پھر وید کی تہذیب کا ارتقا ہوا ، اور ہندوستانی سماج ذات پات میں تقسیم ہوگیا ،ابتدا میں ذات پات کا یہ نظام وزن کہلاتا تھا جس کی بنیاد رنگ پر تھی بعد میں یہ جاتی کہلایا۔یعنی پیدائشی طور پر جو جس ذات میں پیدا ہوگیا وہ اس کا مقدر ہے۔

ذات پات کا یہ نظام سندھ میں موجود نہیں تھا اس کے مقابلے میں یہاں قبائلی نظام تھا اور فرد کی شناخت اس کے قبیلے سے ہوتی تھی ایک اور خصوصیت وادی سندھ کے تاجر تھے جو میسو یوٹا ٹاپ تک جاتے تھے ،ان کی شہادت ان مہروں سے ملتی ہے جو وہاں ملی ہیں ، تجارت سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ کاریگر اور دستکاروں کا طبقہ موجود تھاجو ایسی اشیا بناتے تھے جن کی مانگ دوسرے ملکوں میں تھی ،یہ تاجر طبقہ یقیناً دولت مند اور مالدار ہوگا لیکن انھوں نے اپنی دولت مندی کا اظہار نہ تو شاندار مکانات تعمیرکرا کر کیا اور نہ ہی ذاتی استعمال کی ایسی اشیا بنوائیں جس سے ان کی دولت کا اظہار ہو۔

ڈاکٹر مبارک علی مزید لکھتے ہیں کہ سندھ کی تاریخ کی تحریری ابتدا عربوں کی فتح سے ہوتی ہے،اس کی تفصیل چچ نامے یا فتح نامے میں مفصل انداز میں بیان کی گئی ہے ،کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب عربی زبان میں تھی اور 1216ء میں علی کوفی نامی شخص نے اس کا فارسی میں ترجمہ کیا ، اس کے عربی مصنف کا نام معلوم نہیں ہوسکا،اس کا عربی نسخہ بھی دریافت نہیں ہوسکا ، اس کے فارسی ترجمے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مستند نہیں ہے ، مترجم نے ترجمہ کرتے وقت اپنے ناپسندیدہ حوالوں کو نکال دیا تھا اور اپنی مرضی کی باتیں اس میں شامل کردی تھیں جو چچ نامے کے ترجمے میں ابھی تک موجود ہیں۔

اس لیے چچ نامے کو تاریخی و فرضی واقعات کو مجموعہ کہتے ہیں ،مثلاً اس میں بہت ساری ایسی اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں جو اس دور میں استعمال نہیں ہوئی تھیں۔وہ لکھتے ہیں کہ محمد بن قاسم کو بیل کی کھال میں سلوا کر بھیجنا محض ایک فرضی کہانی ہے کیونکہ بطور سزا کھال میں سلوانے کی روایت منگولوں کی تھی ، عربوں کی نہیں تھی،مثلاً شہنشاہ جہانگیر نے اپنے بیٹے کے دو حامیوں کو گدھے اور بیل کی کھالوں میں سلوایا تھا ۔

محمد بن قاسم کا ایک قیدی بنا کر بھیجنا ایک سیاسی عمل تھا،اس طرح حجاج بن یوسف اورمحمد بن قاسم کے درمیان ہونے والی خط و کتاب کی کوئی شہادت نہیں ملتی ۔چچ نامہ عربوں کے نقطہ نظر سے لکھا گیا اس میں عربوں کے حملے کو جائز ثابت کیا گیا جیسا ہر حملہ آورکرتا ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کہ عوام حملہ آوروں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

وہ لکھتے ہیں کہ چچ نامے میں کہا گیا ہے کہ چچ ایک غاصب حکمران تھا جس نے سازش کے ذریعے اقتدار حاصل کیا ، راجا داہر ایک بدکردار شخص تھا کیونکہ اس نے اپنی بہن سے شادی کی تھی ۔محمد بن قاسم کو امیر عادل لکھا گیا ہے ،چچ نامے میں کہیں بھی سندھیوں کے خیالات کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔ اس کتاب میں کئی تاریخی جھوٹ ہیں،اس کتاب میں تاریخ جھوٹ ہے کہ عنوان سے ڈاکٹر مبارک علی کا ایک انٹرویو ہے ۔اس انٹرویو کے سوالات ڈاکٹر ریاض شیخ نے تیار کیے تھے ،انھوں نے یہ انٹرویو ڈاکٹر مبار ک علی سے لیا تھا ،یہ انٹرویوسندھ لٹریچر فیسٹیول کے آخری دن بیچ لگژری ہوٹل میں سیکڑوں لوگوں نے سنا تھا۔

ڈاکٹر مبارک علی اس انٹرویو کے ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں کہ ایوب خان کے دور میں انھیں اس بات کا احساس دلوایا گیا کہ پاکستا ن کی ایسی تاریخ لکھوائی جائے جو ہندوستان سے علیحدہ ہو، تاکہ پاکستان کی تاریخی شناخت قائم ہو سکے یوں پاکستان کی تاریخ لکھوائی گئی،اس کے جنرل ایڈیٹر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی تھے اس میں جو مضامین لکھے گئے وہ انتہائی سطحی نوعیت کے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ تاریخ کو مسخ کرنے کا عمل نہ صرف ریاست کی طرف سے ہو رہا ہے بلکہ اس میں موجودہ مذہبی اور سیاسی جماعتیں بھی شامل ہیں جو اپنے نظریات کو جائز قرار دینے کے لیے ماضی کے واقعات کی غلط تشکیل کر رہی ہیں۔

ڈاکٹر مبارک علی شاہ لطیف کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ شاہ لطیف کو قوم پرستی کی علامت بنایا گیا لیکن وہ قوم پرستی کی بجائے انسانیت کے علمبردار ہیں ،ا ن کی شاعری کو قوم پرستی میں بند کرنے کی  بجائے وسیع تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر مبارک علی کی یہ کتاب معلومات سے بھرپور ہے ،تاریخ کے طالب علموں کے علاوہ عام آدمی بھی اس کتاب کو پڑھ کر بہت سارے حقائق جان سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔