کراچی کا کُوڑا

محمد عثمان جامعی  اتوار 15 ستمبر 2019
تُو ’’اُٹّھے‘‘ تو میں مرجاؤں۔۔۔۔میں ’’اُٹّھوں‘‘ تو تُو مرجائے۔ فوٹو: فائل

تُو ’’اُٹّھے‘‘ تو میں مرجاؤں۔۔۔۔میں ’’اُٹّھوں‘‘ تو تُو مرجائے۔ فوٹو: فائل

صوبائی وزیراطلاعات ومحنت سعید غنی نے اطلاع دی ہے کہ کراچی میں پھیلے کچرے سے حکومت سندھ کا تعلق نہیں ہے۔

پیپلزپارٹی کی حکومت نے کبھی عذیربلوچ سے اس قدر واشگاف الفاظ میں اعلان لاتعلقی نہیں کیا جتنے واضح طور پر کراچی کے کچرے سے کیا ہے۔ نہ جانے یہ سُن کر بے چارے کچرے کے دل پر کیا گزری ہوگی۔ شاید وہ رُندھی ہوئی آواز میں کہہ رہا ہو

کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے

دور تک پھیل گئی بات شناسائی کی

جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے سندھ کی صوبائی حکومت نے کراچی کے کوڑے سے خود اس وقت تعلق جوڑا تھا جب شہری میں صفائی ستھرائی کی ذمے داری بلدیاتی اداروں سے لے کر حکومت سندھ کے ماتحت ادارے ’’ویسٹ منیجمنٹ بورڈ‘‘ کے سُپرد کردی گئی تھی۔ شہری اب تک حیران ہیں کہ صوبائی حکومت کو کیا پڑی تھی کہ اُس نے۔۔۔’’گندگی‘‘ ادھر آ جا، ہم تجھے گزاریں گے‘‘ کہتے ہوئے کچرے کی ذمے داری اپنے سر لے لی۔ پیپلزپارٹی کی حکومت شاید سمجھ نہ پائی کہ ہاتھوں کی صفائی دکھانے اور کسی شہر کو صاف رکھنے میں بڑا فرق ہے۔ اب اس سلوک پر اگر کراچی کا کچرا یہ شکوہ کرے ’’تم نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا‘‘ تو بے جا نہ ہوگا۔

کوئی لاتعلقی کا اظہار کرے یا تعلق نبھائے، ہم کراچی والوں کا تو گلیوں، چوراہوں، سڑک کنارے اور خالی پلاٹوں پر پڑے کچرے، گٹر کے بہتے پانی اور غلاظت سے بھرے اُبلتے نالوں سے ایسا ناتا جُڑ گیا ہے کہ ہم نے بعض شہریوں کے کوڑے اور غلاظت کے ڈھیر کے پاس کھڑے ہوکر گاتے دیکھا:

پیار کا وعدہ ایسے نبھائیں

تو ’’اُٹّھے‘‘ تو میں مرجاؤں

میں ’’اُٹّھوں‘‘ تو تُو مرجائے

شہریوں کی کچرے سے اُلفت کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ ہر وقت آتے جاتے اُسے دیکھتے ہیں، یوں پہلے کوڑے سے اپنائیت ہوئی پھر اس سے محبت ہوگئی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کوڑے کے ڈھیر محلوں، علاقوں، عمارتوں اور مکانوں کی پہچان بن گئے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کو اپنے گھر کا پتا یوں سمجھاتے ہیں ’’بھیے! کچرے کا ڈھیر جہاں ختم ہوریا ہے ناں، بس وہیں تیرے بھائی کا گھر ہے۔‘‘ موبائل فون پر بھیجے گئے محبت ناموں میں ملاقات کے لیے لکھا ہوتا ہے،’’اچھا اب بات سُن، کل سات بجے کوڑے کی پہاڑی کی اُلی سائٹ پر آجائیو، جدھر گٹر کی گند پڑی ہے، اُدھر کوئی نہیں ہوتا۔ دیکھ تو گند مت کیجیو، آجائیو، فرشٹ ٹیم بلاریا ہوں تیرے کو، چراند کری تو کسی اُور کو پَٹا لوں گا۔‘‘

کوڑے کی یہ محبت، افادیت اور ضرورت ہی ہے جس کے باعث محض شہریوں کے خیال سے حکومت سندھ اور بلدیہ عظمیٰ کراچی دونوں متفق ہیں کہ جب شہریوں اور کچرے میں اتنی اپنائیت ہے تو ۔۔۔۔۔غیر ’’اسے‘‘ اٹھائے کیوں۔

شاید پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال صاحب شہریوں اور کچرے کے باہمی تعلق سے باخبر نہیں اسی لیے انھوں نے دعویٰ کردیا ’’نوے دن میں شہر صاف کرسکتا ہوں۔‘‘ ہمیں تو ان کے تجربے کی بنیاد پر یقین ہے کہ وہ نہ صرف شہر کا کچرا اُٹھا سکتے ہیں بل کہ اُس کی ’’ری سائکلنگ‘‘ کرکے کارآمد بھی بنا سکتے ہیں! حیرت ہے کہ میئرکراچی وسیم اختر نے بھی ان کے دعوے پر یقین کرکے انھیں شہر کی صفائی کے پروجیکٹ کا ڈائریکٹر مقرر کردیا۔ مصطفیٰ کمال نے صفائی کا ’’یہ پروجیکٹ بھی‘‘ قبول کرلیا۔

اس سے قبل وہ ایم کیوایم کے کارکنوں کی صفائی اور دُھلائی کا منصوبہ قبول کر اور کام یابی سے چلا چکے ہیں۔ بس فرق یہ تھا کہ اُس منصوبے کے لیے کچرا اُٹھا کر دوسرے لاتے تھے، اِس منصوبے کے لیے کچرا اُٹھانے اور ٹھکانے لگانے کا سارا کمال مصطفیٰ کمال ہی کو دکھانا تھا۔ مگر وہ ’’آکے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے۔‘‘ہوا یوں کہ میئر پر اچانک یہ عقدہ کُھلا کہ مصطفیٰ کمال بدتمیز ہیں، سو انھیں گاربیج پروجیکٹ ڈائریکٹر کے عہدے سے ہٹادیا گیا۔ بات ٹھیک ہے، وسیم اختر جیسے باادب، باتمیز اور شائستہ انسان کے لیے کسی بدتمیز کے ساتھ کام کرنا کیسے ممکن ہے۔

وسیم اختر صاحب خود ہمیشہ تمیز کے دائرے میں رہتے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ دائرہ پھیل کر بدتمیزی کی حدود پار کرجائے اور ’’گھر گھر مُجروں‘‘ کی خبر لائے۔ میئرکراچی کے اس فیصلے سے یہ اندازہ بھی ہوا کہ انھیں مذکورہ عہدے کے لیے کسی نہایت تمیزدار شخص کی ضرورت ہے، جو لکھنوی تہذیب کا مُرقع ہو اور کوڑے کے ڈھیروں کے پاس کھڑا ہوکر کہے،’’اَجی انبارِ اشیائے متروکہ وتلف شدہ صاحب! آپ ایک ہی جگہ پڑے پڑے اُکتا گئے ہوں گے، اگر مزاج گرامی پر گِراں نہ گزرے اور اجازت ہو تو ہم پوری عزت وتعظیم کے ساتھ آپ کو یہاں سے اُٹھا کر کہیں اور منتقل کردیں؟‘‘

ہمیں یقین ہے کہ ایم کیوایم جیسی ’’نفیس‘‘ حضرات کی جماعت میں ایسا شخص آسانی سے دست یاب ہوجائے گا۔

رہے مصطفیٰ کمال، تو ان کا مسئلہ سیاست سے زیادہ فراغت ہے۔ انھوں نے پاک سرزمین پارٹی تو بنالی، لیکن ’’شادباد‘‘ نہ ہوسکے، کیوں کہ ’’قوت اخوت عوام‘‘ میسر نہ ہونے کے باعث منتخب ایوانوں سے باہر ہی رہے، چناں چہ خود کو ’’رہبر ترقی وکمال‘‘ ثابت کرنے کا خواب پورا نہیں ہوسکا، حالاں کہ ’’مرکزِیقین‘‘ پر انھیں پورا یقین تھا مگر ’’پاک سرزمین کا نظام‘‘ ان کے لیے جگہ نہ بنا سکا۔ اب وہ کچھ کرکے دکھانا چاہتے ہیں۔ وسیم اختر کی پیشکش کی صورت میں ایک اچھا موقع ہاتھ آیا تھا مگر میئرکراچی نے ہاتھ بڑھا کر پیچھے ہٹا لیا۔

مصطفیٰ کمال صاحب کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ کچرے کو چھوڑیں، مکھیوں پر توجہ دیں جنھوں نے کراچی پر یلغار کردی ہے۔ کیا دور تھا جب کراچی میں ان لوگوں کو اقتدار حاصل تھا جو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے، پھر انھوں نے اپنے قائد کو ہی دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال دیا، اور اب یہ زمانہ ہے کہ ہر ناک پہ مکھی بیٹھی ہے۔

اس صورت حال میں اگر مصطفیٰ کمال مکھی مار مہم چلائیں تو انھیں مصروفیت اور شہریوں کو مکھیوں سے نجات مل سکتی ہے۔ یہاں ہم واضح کردیں کہ مکھی مارنا بہت آسان ہے، اس کے لیے نہ گولی کی ضرورت پڑتی ہے نہ بوری کی، اس کے قتل کے لیے ہاتھ، کتاب، اخبار سمیت کچھ بھی ہتھیار کا کام کرسکتا ہے۔ آخری بات یہ کہ مکھی مار مہم چلاتے ہوئے انھیں خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ کراچی کے فارغ ہیں اگر ’’لندن کے فارغ‘‘ ہوتے تو ڈینگیں ہی مار سکتے تھے کہ وہاں مکھیاں میسر نہ آتیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔