امریکا، طالبان مذاکرات اور خطے کا امن

عبدالرحمان منگریو  اتوار 15 ستمبر 2019

امریکا کے صدر ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے امن مذاکرات کو ایک مرتبہ پھر یہ کہہ کر معطل کردیا کہ طالبان اب تک کیے گئے وعدوں پر عمل کریں ، اُس کے بعد حتمی معاہدے پر مذاکرات کیے جائیں گے ۔ اس سے زلمے خلیل زاد اور پاکستان کی ان کوششوں پر پھر پانی پھر گیا ، جو ایشیا میں دیرپا امن اور سی پیک راہداری سمیت تمام ترقی کے منصوبوں کی فعالیت و تکمیل کے لیے کئی ماہ سے جاری تھیں۔

ڈائیلاگ کی معطلی اس خطے میں امن کے قیام کی منزل سے پھر کوسوں دور جانے کا باعث بن چکی ہے۔ چند روز قبل تک دنیا بھر میں امریکی و نیٹو افواج کے افغانستان سے مکمل انخلاء اور عمومی طور پر دنیا بھر و ایشیا میں اور بالخصوص افغانستان و پاکستان میں امن قائم ہونے کے شادمانے بجائے جارہے تھے۔

ایک طرف امریکی حکومت دنیا بالخصوص مغرب کو یہ باور کرانے کی کوشش کررہی تھی کہ طالبان سے مذاکرات دنیا بھر میں ہونیوالے دہشت گرد حملوں کی روک تھام میں معاون ہوں گے ، اور دوسری طرف افغان حکومت افغانستان میں 40سال سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کی نوید ان مذاکرات کو قرار دے رہی تھی ۔ جب کہ پاکستان ان مذاکرات کی راہ ہموار کرنے اور دونوں فریقین کے مابین خود کو ثالث قرار دے رہا تھا۔

امریکی صدر کی جانب سے مذاکرات معطل کرنے پر طالبان نے امریکا کو خمیازہ بھگتنے کی دھمکی دی ، جو کہ صرف لفاظی نہیں رہی بلکہ طالبان نے کابل پر راکیٹ حملہ کیا اور تخار صوبہ پر لشکر کشی کی ۔ شدیدلڑائی کے بعد طالبان نے تخار صوبہ کے 3اضلاع پر قبضہ کرلیا اور افغان سیکیورٹی فورسز وہاں سے نکل گئیں ۔ یعنی یہ مذاکرات کی معطلی صرف ڈائیلاگ ڈیڈلاک نہیں رہا بلکہ ایک مرتبہ پھر میدان ِ کار زار کا باعث بن گئی ۔ اسی روز امریکا نے پاکستان میں حملوں کی بناء پر تحریک طالبان پاکستان کے امیر مفتی نور ولی محسود کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کا اعلامیہ جاری کیا ۔

مفتی نور ولی 2018میں اس وقت کے ٹی ٹی پی کے امیر ملا فضل اللہ کے ڈرون حملے میں مارے جانے کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی کا سربراہ بنا تھا ۔ جب کہ ٹرمپ نے صورتحال سے دھیان ہٹانے کے لیے خطے میں ایران اورشمالی کوریا پر پابندیوں میں کمی کا سگنل دیتے ہوئے ان ممالک کے سربراہان سے ملاقات کا اعلان کیا ہے ۔ چہ مگوئیاں یہ ہورہی ہیں کہ فریقین کے امن معاہدے پر متفق ہونے کی اطلاعات تھیں ،ایسے میں یوں اچانک مذاکرات معطل ایسے مفادات کی بناء پر کیے گئے ہوں گے جو ضرور قانونی دائرہ کار و خطے کے مفادِ عامہ میں نہیں ہوں گے ۔

2001میںنیویارک میں ٹریڈ ٹاورز پر ہونے والے حملوں کے بعد اس وقت کے امریکی صدر بش کے بقول افغانستان میں جنگ اس بنیاد پر شروع کی گئی تھی کہ مغربی دنیا بالخصوص امریکا کو محفوظ بنایا جاسکے ۔لیکن 18سال کی اس طویل ترین جنگ کے بعد نتیجہ مغربی دنیا کے محفوظ رہنے کی صورت میں نہیں بلکہ مزید غیرمحفوظ بننے کی صورت میں آیا ہے۔

آج نیوزی لینڈ اورکینیڈاجیسے پر امن خطوں میں بھی دہشت گرد کارروائیاں انتہا پسندی کی بدترین صورت میں نظر آتی ہیں ۔ امریکا اور نیٹو فورسز کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مذہبی طور پر مسلم انتہا پسندی کے بیانیے سے جوڑنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دنیا بھر میں ایک طرف طالبان ، القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کا نیٹ ورک مزید پھیلتا جارہا ہے تو دوسری طرف دیگر مذاہب کے پیروکاروں میں مسلم دشمنی پیدا ہوگئی اورمسلم کش انتہاپسندی کی لہربھی اس قدراُبھرآئی کہ دنیا پر ایک مرتبہ پھر صلیبی جنگوں کے خطرات منڈلانے لگے۔

غیرجانبدار تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دنیا کی موجودہ عدم تحفظ والی اس صورتحال کا ذمے دار خود امریکا ہے ۔وہ گذشتہ صدی کے نصف سے دنیا میں چوہدری بننے کے لیے ہیروشما ، ناگا ساکی پر ایٹمی حملوں سے ایران میں شاہ کا تختہ اُلٹنے تک ، ایران عراق جنگ سے عراق کویت جنگ تک ، اسرائیل فلسطین جنگ سے عراق پر قبضے تک ، اور روس افغانستان جنگ سے افغانستان پر قبضہ تک تمام معاملوں میں ملوث رہا ہے ۔

دوسری جنگ عظیم کے دوران ایٹم بم سے جاپان پر حملوں سے دنیا کے چوہدری بننے والے امریکا کو اپنی مستحکم معیشت کے لیے ایک طرف اس کی نظر دنیا بھر میں موجود قدرتی وسائل پر تھی ۔ اُسے کویت ، بحرین ، سعودی عرب، عراق ، یو اے ای ، شام ، لیبیا کے تیل پر قبضہ کرنا تھا تو اُس نے اوپیک کی تشکیل کرکے اُس پر اپنی اور اپنے حامیوں کی اجارہ داری قائم کی ۔

اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے اس نے اقوام متحدہ کی تشکیل اس طرح کروائی کہ اِس میں اُس کا اپنا کردار تھانیدار کا ہوگیا ۔ جہاں اختلاف نظر آیا تو وہاں اپنے خفیہ اداروں کے ذریعے دو طرفہ تنازعات پیدا کیے ۔موجودہ اسرائیل فلسطین ، سعودی عرب یمن ، انڈو پاک تنازعے ،کشمیر ، شام مسائل اور افغانستان مسئلے پر اقوام متحدہ محض تجزیہ کار بن کر رہ گیا ہے یا تھرڈ ایمپائر کی طرح صرف مشوروں تک محدود ہے ، جب کہ امریکا صاحب بہادر بن کر ہر جگہ فیصلہ کرنے پہنچ جاتا ہے ، جو کہ دراصل اپنے مفادات کو فروغ دینا ہوتا ہے۔

دوسری طرف اُسے اپنے ہتھیاروں کے کاروبار کو فروغ درکار تھا ۔ اس لیے اُس نے تمام دنیا میں تضادات و تنازعوں کو ہوا دینے کی پالیسی اختیار کی اور پھر ہر تنازعے کے دونوں فریقین کو ہتھیاروں کی فروخت کرتا رہا ۔ روس سے اپنی سرد جنگ کی وجہ سے افغانستان میں روس کے خلاف قبائل کو منظم و ہتھیاروں سے لیس کیا اور اُس جنگ کو جہاد کا نام دیکر اُنہیں مذہبی انتہا پسندی کے دلدل میں جھونک دیا ۔ پھر روس کے پسپا ہونے کے بعد افغانستان میں پیدا کیے گئے مجاہدین کو کسی منطقی راہ پر گامزن کیے بغیر پاکستان کے سر پر تھوپ کر چلتا بنا ۔

روس امریکا سرد جنگ کے خاتمے اور روس کے ٹوٹنے تک امریکا کی مہربانی سے ایشیا میں سعودی عرب -ایران کے روپ میں ایک اور سرد جنگ وجود پاچکی تھی ۔انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا ، جس کی نرسریاں افغانستان میں قائم کی گئیں ۔اس کی دی ہوئی جہادی انتہا پسندی نے افغانستان کو قبائلی خانہ جنگی میں مبتلا کردیا ، جوکہ نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کے لیے بھی درد ِ سر بن گئی ۔

کم وسائل کے حامل پاکستان کو مذہبی شدت پسندی کی لہر نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ وہ دن اور آج کا دن پاکستان اور افغانستان اپنے کھوئے ہوئے امن کی تلاش میں اختیار کی گئی پالیسیوں کی بناء پر ’’نیم حکیم خطرہ جان ‘‘ کی زندہ مثال بن کر رہ گئے ہیں ۔ انتہا پسندی نے دونوں ملکوں کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں ۔انتہا پسندی نے ان ممالک کے علاوہ دنیا بھر کے لوگوں کو بھی شدید متاثر کیا ہے ۔

گرم پانیوں کا حامل سمندر میٹھے پانی کے دریاؤں ، جھیلوں و آبشاروں اور تیل ، گیس ، کوئلے ، یورینیم ، پلاٹینیم سمیت تمام قدرتی و معدنی ذخائر کی بہتات ایشیا کو باقی تمام براعظموں پر فوقیت دیتی ہے ۔ اس لیے امریکا کبھی نہیں چاہے گا کہ ایشیا مضبوط ہو کیونکہ اگر ایسا ہوتا ہے تو باقی تمام براعظم اس کے محتاج بن جائیں گے ۔ اس لیے وہ یہاں سیاسی استحکام و امن اور خالص ایشیائی ممالک کے اتحاد کا مخالف ہے ۔

ماضی کے سیٹو اور سینٹو اتحاد ہوں یا موجودہ نیٹو اتحاد وہ اپنی موجودگی اور سربراہی چاہتا ہے ، بصورت دیگر وہ سی پیک یا تاپی وغیرہ جیسے کسی بھی اتحاد کو چلنے نہیں دینا چاہ رہا جس میں اُس کی شمولیت نہ ہو۔ اس لیے وہ سعودی عرب ( جو کہ اُس کا خالص حلیف ہے ) کی سی پیک میں شمولیت کے باوجود اِس راہداری اور اِس کے منصوبوں میں تبدیلی کے نام پر دخل اندازی کررہا ہے ۔

افغانستان میں مسلسل حالات خراب رہنے کی وجہ سے اب تک کوئی معدنی ذخائر کی تلاش نہ ہوسکی ہے لیکن یہاں پر پوست کی فصل (جس سے افیون، ہیروئن اور دیگر منشیات بنتی ہیں) بڑی مقدار میں ہوتی ہے ۔ گذشتہ 3صدیوں سے برطانیہ کے ساتھ 3بڑی جنگیں کرنے کے باوجود اُس کے تسلط میں نہ آنیوالے افغانستان پر 1979سے امریکا پہلے مذہب کے نام پر اور بعد میں انتہاپسندی کے نام پرکبھی بالواسطہ تو کبھی بلا واسطہ اس پر اثر انداز رہا ہے ۔

روس کے خلاف تیار کردہ مجاہدین کی آپس میں خانہ جنگی کی وجہ سے وہاں امریکا پوست پر اپنا مکمل کنٹرول حاصل نہ کرسکا ، ایسے میںنسلی و مذہبی طور پر طالبان اُبھر کر سامنے آئے ۔طالبان کی اکثریت پختون قبیلوںپر محیط اور مذہبی طور پر ایک فرقہ سے وابستگی رکھتی ہے جب کہ مخالف فارسی بولنے والے قبائل ہیں جوکہ مذہبی طور پر دوسرے عقائد سے وابستہ ہیں ۔ ان دونوں تضادات کو اُبھار کر افغانستان میں حالات کشیدہ رکھے گئے ۔

طالبان ابتدائی طور پر پاکستان کے کنٹرول میں رہے جوکہ آگے چل کر پاکستان کے مکمل کنٹرول سے نکل گئے اور نہ صرف امریکا بلکہ پاکستان کے لیے بھی خطرہ بن گئے ۔ پہلے انتہا پسندی امریکا اور اُس کے حامیوں کے حق میں تھی لیکن آہستہ آہستہ یہ ایسی طاقت بن کر اُبھری کہ دنیا کے کئی ممالک کے ہمہ پلہ منظم تنظیمیں بنالیں ۔ کئی جگہ اُن تنظیموں سے ڈائیلاگ و اتحاد ہونے لگے ۔ پوست کی آمدن، عوامی چندے و عطیات اور بیرونی امداد کی بناء پر آج طالبان بھی ایسی طاقت بن گئے ہیں جس کے ساتھ نہ صرف افغانستان اور پاکستان کے عوام کی ایک بڑی تعداد جذباتی وابستگی رکھتی ہے بلکہ مغربی یورپ سمیت دنیا کے کئی ممالک اس کے فنانسر بنے ہوئے ہیں ۔

آج اگر امریکا طالبان میں جنگ ہے یا اُن کے مابین امن مذاکرات ہورہے ہیں ، دونوں ہی صورتوں میں اہم محرک یہی پوست و افیون کی کمائی ہے ، جس پر دونوں فریقین اپنا قبضہ رکھنا چاہتے ہیں ۔ اورایک اندازہ ہے کہ یہی وہ پوشیدہ سبب ہے جس پر معاملات طے نہ پانے کی بناء پر مذاکرات کو معطل کیا گیا ہے ۔ جب کہ مذاکرات کی معطلی کی دوسری اہم وجہ ایشیا کو منقسم و منتشر رکھنا ہے ، جوکہ عالمی اسٹیبلشمنٹ کا ایجنڈہ ہے ۔

دیکھا جائے تو ایک طرف امریکا ہے جو دنیا پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے چکر میں کبھی ایران میں انقلاب کی حمایت و معاونت کرتا ہے تو کبھی اُسی ایران کے خلاف عراق میں صدام کو 11سال تک ہتھیار دیتا ہے ۔ پھر اُسی صدام حسین کے ملک پر قبضہ کر کے اُسے پھانسی پر لٹکا دیتا ہے ۔ کبھی اُسامہ بن لادن کو مجاہد بناکر افغانستان لے آتا ہے تو پھر اُسی اُسامہ کو دہشت گرد قرار دیکر ہلاک کردیتا ہے اور ایسے میں اپنے حلیف ترین ملک پاکستان کی جغرافیائی سالمیت و خودمختاری کا لحاظ بھی نہیں رکھتا ۔

روس کے بعداب دنیا میں معاشی طاقت رکھنے والے چین کو اپنے سامنے پاکر وہ اُس کے خلاف سرد جنگ کا آغاز کرتے ہوئے مختلف نظریات اور اتحادی بلاکوں کی تشکیل سے دنیا کو تصادم کی آگ میں جھونکتا رہا ہے ۔ لیکن کہتے ہیں ناں کہ ’’جو دوسروں کے لیے کھڈہ کھودتا ہے وہ خود اُس میں گرتا ہے ‘‘۔

اسی طرح اپنے ملک کو محفوظ رکھنے کے لیے غیرفطری طریقے اپناتے ہوئے دوسروں کو آپس میں لڑانے والی پالیسی کا شکار وہ خود اس بری طرح سے ہوگیا ہے کہ آج دنیا میں سب سے زیادہ نفرت امریکا اور امریکیوں کے لیے پائی جاتی ہے ، آج دنیا میں سب سے زیادہ عدم تحفظ کا شکار امریکی پائے جاتے ہیں ۔2001سے افغانستان پر حملے سے اب تک تقریباً 5.9ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کے باوجود تقریبا ً 2500امریکی فوجی ، 3500نیٹو فورسز میں موجود غیر امریکی فوجی اور بے پناہ امریکی شہری مارے جاچکے ہیں ۔ بش ، اوبامہ کے بعد اب ٹرمپ تیسرے امریکی صدر ہیں جو اس جنگ کی کمانڈ سنبھال چکے ہیں، لیکن یہ جنگ ختم ہونے کا نام تک نہیں لے رہی۔

اُلٹا یہ جنگ اب مغربی دنیا کے گھروں تک پھیل گئی ہے ۔واٹسن انسٹی ٹیوٹ ، براؤن یونیورسٹی کے تخمینے اور افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے جنوری 2019میں ظاہر کیے گئے اعداد شمار کے مطابق افغانستان میں ایک اندازے کے مطابق طالبان ، افغانی باشندوں اور نیٹو افواج و غیر مقامی ایک لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔ لیکن دنیا میں امن قائم ہونے کے بجائے بدامنی میں 150%تک اضافہ ہوا ہے ۔ یہ جنگ افغانستان اور پاکستان کی جغرافیائی حدود سے نکل کر دنیا بھر کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے ۔ اب یورپ سے امریکا تک ، لندن سے جرمنی تک کسی بھی عوامی جگہ پر کبھی بھی حملے کا امکان و خطرہ رہتا ہے ۔

طالبان کی دنیا کو فتح کرنے میں امامت والی فرقہ وارانہ اور مذہبی سوچ کی نشوو نما کا ماحول ہی اُسے اس حیثیت میں برقرار رکھنے کا باعث ہے بلکہ آیندہ افغانستان پر مکمل اختیار اور پھر اسلامی بلاک کی سربراہی کے قریب کرتا ہے ۔ جب کہ اُن کا اصل مقصد اسلامی بلاک اور ایشیا کے دیگر مستحکم و ہم خیال ممالک کے اتحاد کے ساتھ ایک نئے سپر پاور ملک یا بلاک کی تشکیل ہے ۔ جو فی الحال ممکن نہیں لیکن یہ وہ خواب ہے جو جنگجو اور اُس کے سرپرست اسلامی دنیا کو دکھا کر نہ صرف اُن سے پیسے بٹورتے ہیں بلکہ اسی کی بناء پر وہ پوست ، افیون اور دیگر منشیات پر قبضہ بھی کیے ہوئے ہیں ۔

آج اگر امریکا طالبان مذاکرات ہوتے ہیں تو وہ بھی اسی نکتے پر آکر تعطل کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ اس بارگیننگ کے چکر میں دنیا بالخصوص خطے کو ایک بار پھر دہکتے انگاروں پر رکھ دیا گیا ہے ۔ جسے نفرت کی ہوادی جارہی ہے اور دہشت و انتہا کا بارود بھرا جارہا ہے ۔ دنیا پر حکمرانی کا یہ حرص اس دھرتی کو ایسی تباہی کے کنارے لے آیا ہے کہInterstellar object(خلائی مادہ کے دھرتی سے ٹکرانے)سے دھرتی کی تباہی والی تھیوری کی ضرورت ہی نہیں رہی ۔ کیونکہ براعظم ایشیا کہلانے والے اس خطے میں اس وقت روس ، چین ، بھارت اور پاکستان مستند ایٹمی طاقتیں ہیں تو ایران ، کوریا غیرمستند ایٹمی قوت کے حامل ممالک ہیں جب کہ اب تو سعودی عرب نے بھی ایٹمی قوت بننے کی طرف پیش قدمی کردی ہے۔

ایسے میں ایشیا کے تمام ممالک کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے ’’سب سے پہلے خطہ ‘‘ کے عنوان تلے اپنی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے۔ وگرنہ طالبان اور امریکا جیسی قوتیںایسے ہی غیر فطری و غیر انسانی ماحول کو ہوا دیتی رہیں گی اورایشیا کو اُسی کی طاقت سے اُجاڑتی رہیں گی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔