ہانگ کانگ میں احتجاج کا نیا رخ

ایڈیٹوریل  پير 16 ستمبر 2019
ہانگ کانگ 1997میں برطانیہ سے واپس لے کر چین کے حوالے کیا گیا تھا۔ فوٹو: فائل

ہانگ کانگ 1997میں برطانیہ سے واپس لے کر چین کے حوالے کیا گیا تھا۔ فوٹو: فائل

میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ہانگ کانگ میں احتجاجی مظاہروں میں اس وقت زیادہ شدت پیدا ہو گئی جب چین نواز نوجوانوں کی جمہوریت پسندوں سے دست بدست لڑائی شروع ہوگئی اور دونوں طرف سے ایک دوسرے پر مکوں اور گھونسوں کی بارش شروع کردی گئی۔

احتجاجی مظاہرین کو گھونسے مارنے والوں نے ہاتھ میں چین کے قومی پرچم اٹھا رکھے تھے۔ ہانگ کانگ کو بین الاقوامی طور پر مستحکم کاروباری ہب hub کا درجہ حاصل رہا ہے لیکن اب کئی ماہ کے احتجاج کے بعد صورت حال یکسر تبدیلی ہو چکی ہے اور احتجاجی مظاہرین اس دنیا بھر کے معروف ترین مالیاتی جزیرے میں جمہوری اقدار کے نفاذ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ان جمہوری اقدار کا مطالبہ جو ہانگ کانگ پر برطانوی حکمرانی کے دوران حاصل رہی تھیں جن کا چین کی تحویل میں چلے جانے کے بعد چھن جانے کا خدشہ ہے۔ احتجاجی مظاہرین ہانگ کانگ کے لیے زیادہ جمہوریت کے ساتھ پولیس والوں کے احتساب کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں کیونکہ مظاہرین کی نظر میں  پر امن احتجاج کو روکنے کے لیے پولیس کا ناجائز استعمال کیا گیا ہے۔ واضح رہے ہانگ کانگ 1997میں برطانیہ سے واپس لے کر چین کے حوالے کیا گیا تھا۔

جس کے بعد یہاں مقیم مغرب نواز طبقے میں بے چینی پیدا ہوئی ہے۔ انھوں نے مظاہرے شروع کریئے لیکن اب چین نواز عوام بھی باہر نکل آئے ہیں۔ یوں ہانگ کانگ میں تشدد کی وارداتیں شروع ہو چکی ہیں۔ مظاہرین جمہوریت کے حق میں نعرے بلند کرتے ہیں جب کہ چین نواز گروہ چینی قومی ترانہ گاتے ہیں۔

اس روز سڑکوں پر ایسے لوگ بھی نظر آئے جنہوں نے چین کے قومی پرچم اٹھا رکھے تھے اور نیلی شرٹس پہن رکھی تھی۔ ان کے ہاتھ میں I Love HK Police کے بینر تھے۔ خود کو جمہوریت نواز کہنے والوں اور چین کے حامی مظاہرین میں ہاتھا پائی ہوئی اور پھر یہ معاملہ پر تشدد ہوگیا۔ ہانگ کانگ پولیس دونوں گروپوں کا تصادم ختم کرانے کے لیے آہنی خود پہنے اور ہاتھوں میں ڈنڈے پکڑے وہاں موجود رہی۔ قبل ازیں جولائی کے مہینے میں بھی دونوں گروپوں میں تصادم ہوا تھا جس کے نتیجے میں 40 سے زائد افراد کو زخمی ہونے کے باعث اسپتال بھجوا دیا گیا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہانگ کانگ میں گڑبڑ کو ایک سو دن سے زیادہ ہوگئے ہیں۔

اس سے قبل بھی جزیرے کے چین کو واپس ملنے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے مگر وہ مظاہرے پر امن تھے۔ اس لیے زیادہ شور نہیں مچا تھا۔اس موقع پر احتجاج کرنے والوں کو چند رعایتیں بھی دیدی گئیں جس سے حالات فوراً قابو میں آگئے۔ سخت گیر موقف اختیار کرنے والوں کے نسبتاً چھوٹے گروہ ہنگاموں پر قابو پانے والی پولیس کے ساتھ الجھنے کی کوشش کرتے رہے بلکہ کئی مقامات پر ان دونوں گروپوں میں زیادہ سخت لڑائی بھی ہوئی۔

خاص طور پر اس صورت میں جب مظاہرین ٹرینوں کے زیر زمین اسٹیشنوں کو بند کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ 1997 میں برطانوی کنٹرول سے چین کے حوالے کیے جانے سے قبل ہانگ کانگ پچاس سال تک پر امن ماحول میں کامیابی سے کاروبار چلا رہا تھا جس میں اب جاکر رخنہ اندازی پیدا ہوئی ہے۔ جمہوریت کے حق میں مظاہرے کرنے والوں کا الزام ہے کہ چینی حکومت ہر صورت جزیرے پر اپنا قبضہ مستحکم کرنا چاہتی ہے جس سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔جب کہ چین کا کہنا ہے کہ یہاں مغربی ممالک مسائل پیدا کررہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔