افغانستان کا مستقبل

جمیل مرغز  پير 16 ستمبر 2019

پشتو میںایک مثال ہے کہ ’’یو غاڑے تہ ڈانگ دے او بلے غاڑے تہ پڑ انگ‘‘ (ایک طرف شیر ہے اور دوسری طرف ڈنڈا ہے) یا اردو کی ضرب المثل کہ ’’سانپ کے منہ میں چھچھوندر‘ نہ اگلتے بنتی ہے اور نہ نگلتے‘‘ انگریزی میں “Between the devil and blue deep sea”.۔ یہ سارے محاورے مجھے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کے اتار چڑھاؤ اور خاص کر اس وقت مذاکرات کے خاتمے پر یاد آئے‘ امریکا اور پوری سامراجی دنیا نے افغان انقلاب کو ناکام بنانے کے لیے مذہب اور ڈالر استعمال کیا۔

مذہبی انتہا پسندی کا جن جب بوتل سے باہر نکالا گیا تو 40 سال ہوگئے ‘ اربوں کھربوں ڈالر‘ ہزاروں اموات‘ پوری ترقی یافتہ دنیا کے سیکیورٹی ادارے مل کر بھی اس مصیبت سے چھٹکارا پانے میں ناکام ہیں‘ پاکستان نے افغان انقلاب کے خلاف  فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کیا اس لیے سب سے زیادہ متاثر بھی یہ ہے۔

افغان طالبان اسی انقلاب دشمن پالیسی کی پیداوار ہیں‘ اب امریکا ان سے معاہدہ کرنے کا خواہاں ہے لیکن اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا‘ معاہدے کے جو خد و خال سامنے آ رہے تھے‘ اگر اس طرح ہو جاتا تو بھی ایک اور جنگ کی ابتداء ہوتی اور اب جب کہ مذاکرات ختم کر دیے گئے تو مسئلہ اور بھی خراب ہو گیا‘ آخر مذاکرات کیوں ختم کر دیے گئے؟۔ مذاکرات کے خاتمے کے نتائج بھی خطرناک ہیں‘ جنگ میں تیزی آئے گی۔

پاکستان پر امریکی دباؤ بڑھے گا اور مطالبہ کیا جائے گا کہ ہر طریقے سے طالبان کو مذاکرات کی میز اور جنگ بندی پر آمادہ کیا جائے‘ ظاہر ہے کہ اس سے طالبان اور پاکستان کے تعلقات خراب ہوں گے اور جنگ میں تیزی کی وجہ سے مہاجرین کا ایک اور ریلا بھی پاکستان میں آئے گا اور ساتھ ساتھ تحریک طالبان پاکستان کی سرگرمیاں بھی شروع ہونے کے امکانات ہیں۔ مذاکرات کے خاتمے کا صرف کابل کا حملہ تو جواز نہیں بنتا کیونکہ جنگ بندی تو ہوئی نہیں تھی اور اس دوران طالبان کے حملے مسلسل جاری تھے‘ اول تو مذاکرات کی ابتداء غلط تھی۔

امن کے حصول کے لیے لازمی ہے کہ اصل فریقین کے درمیان مذاکرات ہوں‘ اس جنگ کے اصل فریق دو ہیں۔ ایک طالبان اور دوسرے افغان حکومت اور اس کے حمایت یافتہ عوام ‘ اب مذاکرات ان کے درمیان نہیں بلکہ امریکا اور طالبان کے درمیان ہو رہے تھے۔ اس محاورے کے مطابق ’’اگر دیوار کی بنیاد ٹیڑھی ہو تو عمارت آسمان تک ٹیڑھی رہے گی‘ جنگ تو اس حالت میں ختم ہوتی کہ اگر افغانستان کے دونوں فریق آپس میں مل کر جنگ ختم کرتے اور ایک مشترکہ سیاسی نظام پر متفق ہو جاتے‘ ورنہ سوویت فوجوں کے انخلاء کے بعد اب تک افغان آپس میں کسی نہ کسی شکل میں بر سر پیکار رہے ہیں۔

بلکہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اتنی تباہی سوویت یونین نے نہیں کی جتنی کہ افغانوں کی آپس کی جنگوں میں ہوئی‘ اس لیے یہ ممکن نہیں کہ جب تک افغانوں کے درمیان مفاہمت نہ ہو تو اس وقت تک امن قائم ہو ‘ لگتا تو تھا کہ مذاکرات بے نتیجہ ختم ہوں گے لیکن شاید درمیان میں اور بھی عوامل آگئے جن کی وجہ سے مذاکرات کا آگے بڑھنا ممکن نہ رہا۔

رچرڈ ہالبروک نے صدر اوباما کے دور میں بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی کو شش کی تھی لیکن اس وقت بھی طالبان نے افغان حکومت سے مذاکرات سے انکار کیا تو حامد کرزئی کے احتجاج پر بارک اوباما نے بھی طالبان سے افغان حکومت کے بغیر بات چیت سے انکار کر دیا تھا ۔موجودہ مذاکرات کا منفی نتیجہ یہ نکلا کہ افغان حکومت کا مورال ڈاؤن ہو گیا اور طالبان بہت تیز ہو گئے اور یوں لگتا تھا کہ بس امریکا افغانستان سے بھاگنے والا ہے‘ اس تاثر کا نتیجہ بڑا خوفناک برآمد ہوا‘ ایک طرف طالبان کے حملوں میں تیزی اور موقف میں سختی آتی گئی تو دوسری طرف افغان حکومت اور اس کے حامیوں میں یہ سوچ گہری ہوتی گئی کہ اگر یہ معاہدہ ہو گیا تو ان کی سیاسی اور جسمانی موت لازمی ہے۔ 28 ستمبر کے صدارتی انتخابات ملتوی کرنے کی امریکی تجویز کو لات مار کر اشرف غنی نے صدارتی انتخاب کرنے کا اعلان کر دیا اور سب امیدواروں نے الیکشن مہم زور شور سے شروع کی‘ ان میں عبداللہ عبداللہ‘ گلبدین حکمت یار اور دیگر تمام امیدوار شامل تھے۔

یہ امر سب کو معلوم تھا کہ صدر ٹرمپ کے سامنے اصل ہدف امن نہیں بلکہ امریکی فوج کے انخلاء کو ویت نامی اسٹائل پسپائی سے بچانا تھا‘ اس مقصد کے حصول کے لیے طالبان کی سب شرائط مان لی گئیں’ جب یہ شرائط امریکی اسٹیبلشمنٹ اور سیکیورٹی کے ذمے داروں کے سامنے آئیں تو ان کی طرف سے بھی سخت مزاحمت ہو ئی‘ جو صدر ٹرمپ کی طرف سے شاید مذاکرات کے خاتمے کی بنیادی وجہ بن گئی۔

ظاہر ہے کہ واشنگٹن میں افواج کے جلد اور بے عزتی کے ساتھ انخلاء پر اختلافات ہیں‘ اس طرح کابل میں بھی اس سلسلے میں اختلافات ہیں۔ اشرف غنی کی حکومت اور طالبان اس معاملے میں دو مختلف آراء رکھتے ہیں‘ بلکہ مجھے تو لگتا ہے کہ طالبان کے مذاکراتی ٹیم اور فوجی کمانڈروں کی پالیسی بھی الگ الگ ہے‘ ورنہ مذاکرات کے درمیان اتنے خطرناک حملوں کی ضرورت نہ تھی۔

اکثر افغانوں کے لیے دوبارہ طالبان کی حکومت کا قیام ایک خوفزدہ کرنے والا واقعہ ہو گا‘ اس خوف کو کم کرنے کے لیے امریکا کے مذاکراتی ٹیم کے سربراہ زلمے خلیل زاد نے حکومت کو یقین دہانی کرائی کہ‘ معاہدے کے مطابق امریکا کے پاس یہ حق محفوظ ہو گا کہ طالبان کی طرف سے حملے کی صورت میں افغان فوج کی مدد کرے لیکن امریکا واپس آنے کے لیے نہیں جا رہا‘ یہ بھی ایک حقیقت ہے۔طالبان نے اب تک اپنا سیاسی ایجنڈا نہیں بتایا‘ جس کی وجہ سے ایک کنفیوژن پیدا ہو گیا ہے۔

مختلف افغان گروپوں اور وفود سے ملاقاتوں میں طالبان نے یقین دلایا ہے کہ وہ خواتین کے حقوق اور ان کی تعلیم کے حق میں ہیں لیکن ان وعدوں پر کسی کو بھی اعتبا ر نہیں اور عام تاثر یہ ہے کہ جیسے ہی غیرملکی افواج کا انخلاء ہو گا تو یہ لوگ اپنے پرانے طور طریقوں کو دوبارہ اختیار کر لیں گے‘ یہ امر یقینی ہے کہ طالبان کی سیاسی قیادت اپنے خیالات میں زیادہ لچکدار اور میانہ رو نظر آتی ہے لیکن یہ امر ابھی واضح نہیں کہ میدان میں موجود جنگجو کمانڈر بھی تبدیلی کے اس ایجنڈے کو مانتے ہیں۔ یہ مسئلہ بھی ابھی تک طے نہیں ہوا کہ طالبان افغانستان کے مستقبل کے سیاسی ڈھانچے میں کیسے شامل ہوں گے۔

اس ماہ کے آخر میں افغانستان میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں‘ ان کے بارے میں طالبان کے رویے کا بھی پتہ نہیں ہے‘ صدارتی انتخابات کی مہم جاری ہے کیونکہ مذاکرات کی وجہ سے انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست صدر اشرف غنی نے مسترد کر دی ہے‘ یہ بات واضح تھی کہ طالبان معاہدے کے بعد انتخابات کی بجائے براہ راست کابل پر قبضے کی کوشش کرتے‘ اب توصورت حال مزید پیچیدہ ہوگئی ہے کیونکہ طالبان نے وسیع علاقوں پر مذاکرات کے باوجود اپنے حملے اور دیگر کارروائیاں بند نہیں کیں۔

زلمے خلیل زاد نے افغان حکومت کو معاہدے کے بارے میں تفصیلات بتائیں تو اس کے چند گھنٹے کے بعد طالبان نے کابل کے ہائی سیکیورٹی زون میں ایک خوفناک خود کش حملہ کیا ‘ اس زون میں اکثر غیر ملکی تنظیموں کے ارکان رہتے ہیں‘ ایک درجن سے زیادہ اموات ہوئیں اور صدر امریکا نے اس حملے پر انتہائی غصے کا اظہار کیا ہے اور معاہدہ معطل کر دیا‘ اس دوران مختلف صوبوں میں طالبان کے حملے جاری ہیں۔ شمالی افغانستان میں قندوس اور پل خمری پر طالبان نے حملے کیے ہیں‘ اس طرز عمل کا واضح مقصد مذاکرات میں اپنا پلڑا بھاری کرنا ہے۔

سب سے خطرناک بات داعش کی طرف سے حملوں میں اضافہ ہے‘ ان حملوں کا واضح پیغام یہ ہے کہ وہ کسی بھی وقت امن معاہدے کو ختم یا تباہ کر سکتے ہیں‘ افغانستان کے بعض علاقوں میں داعش موجود ہے‘ پچھلے مہینے اس گروپ نے کابل میں شادی کے ایک تقریب پر خود کش حملہ کر کے 60 سے زیادہ افراد کو مار دیا تھا‘ اس گروپ کے بارے میں تشویش موجود ہے‘ کیونکہ طالبان بھی ان کی گارنٹی نہیں لے سکتے۔ امریکی فوجوں کے انخلاء سے علاقائی سیاست پر بھی اثرات مرتب ہوں گے‘یہ امکان بھی موجود ہے کہ افغانستان پڑوسی ملکوں اور علاقائی طاقتوں کی مداخلت اور پراکسی جنگوں کا میدان بن جائے کیونکہ افغانستان کی جغرافیائی صورت حال ایسی ہے کہ ہر وقت بیرونی مداخلت کا خطرہ رہتا ہے‘جنگ زدہ افغانستان میں امن کے قیام کے لیے ابھی کافی طویل راستہ طے کرنا ہے۔

ملک کے اندر تمام  فریق اگر کسی سمجھوتے پر پہنچ بھی جائیں تو اس طویل جنگ نے افغان معاشرے میں جو دراڑیں پیدا کی ہیں ان کو بھرنے میں طویل عرصہ لگے گا‘غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء سے الگ پیچیدگیاں پیدا ہوں گی۔اس طویل جنگ نے ملک کو بری طرح تقسیم کردیا ہے ‘اب تک کی صورت حال تو ظاہر کرتی ہے کہ طالبان کافی متحرک ہیں لیکن افغانستان کی خاموش اکثریت اور ازبک‘ تاجک‘ ترکمان اور ہزارہ وغیرہ قومیتیں کیا ردعمل دیں گی اس کو دیکھنا ہو گا۔ جی تو چاہتا ہے کہ امریکا اور پاکستان سے کہیں کہ ’’ہور چوپو‘‘۔ لیکن مسئلہ پورے خطے کا ہے اس لیے ہم بھی پاکستانی فوج سے ڈو مور کا مطالبہ کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔