یہی تو پاگل نہیں ہے

سعید پرویز  پير 16 ستمبر 2019

80 کی دہائی میں ایک افسانہ میں نے لکھا تھا، جو میرے افسانوی مجموعے ’’ نہ وہ سورج نکلتا ہے‘‘ میں شامل ہے۔ آج صلاح الدین کے پولیس کے ہاتھوں مارے جانے پر مجھے وہ یاد آگیا ہے۔اس افسانے کا مرکزی کردار بھی ایسا ہی دیوانہ سا ہے، جو زمانے سے الگ تھلگ مزاج رکھتا ہے۔

وہ خاموش رہتا تو ہفتوں گزر جاتے اور اگر بولنے پہ آتا تو دن رات ایک کر دیتا۔ اس کا خاموش رہنا تو پھر قابل برداشت تھا ، مگر بولتا ہوا بہت خطرناک۔ بولتے ہوئے وہ ! وہ کچھ بول جاتا کہ عام آدمی اس کے تصور سے ہی کانپ جائے۔ ایسے میں اس کے گھر والے اسے ایک محفوظ کمرے میں بند کر دیتے۔ گھر والوں نے نفسیاتی ماہرین سے لے کر روحانی علاج پیر ، فقیر ، تعویذ گنڈے تک کوششیں کر ڈالیں، مگر سب بے سود ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘۔ کبھی کبھی وہ نارمل بھی ہوجاتا تھا، ایسے میں اس کے گھر والے بھی اس کی طرف سے ذرا لاپرواہ سے ہوجاتے اور وہ دو تین دن کے لیے غائب ہوجاتا، اور پھرگھر لوٹ آتا۔

ایسے ہی نارمل دن چل رہے تھے کہ اچانک وہ گھر سے نکلا اور غائب ہوگیا۔اس بار تو مہینوں بیت گئے تھے اور اس کا کہیں اتا پتا نہ تھا ، گھر والے بھی تھک ہارکر بیٹھ گئے، پھر اچانک ایک دن وہ گھر واپس آگیا۔گھر والوں کے پوچھنے پر کہ اتنے دن وہ کہاں تھا۔ اس نے جو داستان سنائی وہ کچھ یوں تھی ’’ مجھے کچھ معلوم نہیں، مگر جب مجھے ہوش آیا تو میں ایک ایسی بستی میں تھا کہ جسے دو نیم دائرہ نما فلک بوس عمارتوں نے گھیر رکھا تھا۔

اس بستی کے رہنے والے بہت پریشان حال لوگ تھے۔ بہت دکھی تھے، ڈرے ڈرے ، سہمے سہمے،کمزور، کمزور۔ بستی کے گرد دونوں عمارتوں کا حصار بہت مضبوط تھا ، یوں اندھیرے بستی والوں کا مقدر بنے ہوئے تھے۔ سورج ایک عمارت کے پیچھے طلوع ہوتا اور نصف النہارکے مراحل سے گزرتے ہوئے اک نگاہ بستی پر ڈالتا اور پھر دوسری عمارت کے پیچھے غروب ہوجاتا ، سورج کی روشنی کا بستی والوں سے یہی لگا بندھا ناتا تھا کہ وہ اک اچٹتی نگاہ ڈالتی اور بس۔۔۔۔پھر وہی اندھیرا۔۔۔۔جہالت ، بیماری ، بھوک۔ ایک دن بستی والے اندھیروں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے:

روشنی چاہیے!

روشنی چاہیے!

پوری بستی میں نعروں کی گونج تھی۔

نعروں کی گونج جب دونوں مضبوط عمارتوں تک پہنچی تو وہاں سے چند باریش افراد نکلے، لمبے لمبے چوغے پہنے، ہاتھ میں تسبیح ، بغل میں کتاب۔ یہ لوگ بستی میں پھیل گئے اور جب یہ اپنے فرائض ادا کرکے واپس عمارتوں میں چلے گئے تو پوری بستی کا اتحاد پارہ پارہ اور بستی انسانی خون میں نہا گئی۔ بستی والوں کا بہتا خون دونوں عمارتوں کی بنیادوں میں جذب ہو رہا تھا، مضبوط عمارتوں کی بنیادیں اور مضبوط ہو رہی تھیں، بستی زخم زخم تھی لہو لہان تھی پھر چند روز میں بستی کے حالات معمول پر آگئے، وہی مانوس اندھیرے، وہی مایوسیوں کے ڈیرے ، وہی آنسو ، آہیں گھنیرے۔۔۔۔گھٹن ، بے چینی بڑھی تو بستی والے پھر جمع ہونے لگے ، نعرے بلند ہونے لگے ، روشنی چاہیے۔۔۔۔روشنی چاہیے۔

نعروں کی گونج پھر سے دونوں عمارتوں تک پہنچی تو اس بار وہاں سے تر و تازہ ، چمکیلے چہروں والے لوگ نکلے۔ سروں پر پگڑیاں اور دیدہ زیب ٹوپیاں، کلف لگے کڑکڑ کرتے کرتے شلوار ، کالی واسکٹیں، وہ پوری بستی میں پھیل گئے اور بستی میں ان کی لچھے دار تقریریں گونجنے لگیں اور نتیجہ اس بار پھر بستی کا اتحاد پارہ پارہ۔ بستی پھر لہولہان اور بہتا لہو پھر عمارتوں کی بنیادوں کی طرف رواں دواں۔

پھر دیوانے نے اپنے گھر والوں کو بتایا کہ ’’ ایک دن میں چھپتا چھپاتا ، مضبوط عمارتوں میں سے ایک میں گھس گیا، کیا دیکھتا ہوں کہ اکڑی اکڑی موٹی موٹی گردنوں والے کچھ لوگ فائلیں سامنے رکھے بڑی سی میز کے گرد بیٹھے ہیں۔ میں نے کان لگا کر سنا۔ مسئلہ زیر غور تھا، بستی والوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے آیندہ کی حکمت عملی‘‘۔ یہ سب کچھ سن کر میں بستی میں واپس آیا اور بستی والوں کو سب کچھ بتایا کہ ان عمارتوں میں تمہارے خلاف منصوبے بنائے جاتے ہیں اور انھی دونوں عمارتوں نے تمہارے لیے سورج کا رستہ روک رکھا ہے۔ میری باتیں سن کر بستی کے سمجھدار لوگ بولے ’’ہم تو یہ سب جانتے ہیں مگر اس بار ہم پر بڑا کاری وارکیا گیا، زبان و نسل میں ہمیں بانٹ دیا گیا۔ ہم یقین کھو بیٹھے ہیں۔‘‘

بستی والوں کو بے بس و مجبور پاکر میں نے انھیں پھر سے اندھیروں کے خلاف متحد کرنے کا عزم کرلیا، میں گلی گلی گھوما پھرا اور میرا کہنا تھا ’’ بستی والو! اپنے چہروں کو دیکھو ، غربت کی لکیریں ایک سی ہیں، اپنے گھروں کے آنگنوں میں جھانکو ، ویرانیاں ایک سی ہیں۔ میں نے بے یقین بستی کا یقین لوٹا دیا تھا۔

اس بار بستی کا اتحاد مثالی تھا ۔ بستی میں پھر نعرے بلند ہونے لگے۔ روشنی چاہیے۔۔۔۔روشنی چاہیے۔ نعروں میں بے پناہ شدت تھی۔ بستی والے عمارتوں کے گرد گھیرا کیے ہوئے تھے۔ عمارتوں والے پریشان تھے۔ لگتا تھا کہ سورج کے رستے میں حائل عمارتیں اب گریں کہ تب گریں۔ ایسے میں عمارتوں سے سنگین بردار نکلے اور پھر بستی میں سکوت طاری ہوگیا، گلیاں خاموش تھیں، راستے سنگینوں سے اٹے پڑے تھے۔ پھر مجھے بھی یہ کہہ کر بستی سے نکال دیا گیا کہ ’’تم بستی والوں کو ورغلاتے ہو۔‘‘

اپنی داستان سنانے کے بعد وہ اٹھا اور مضبوط ارادے کے ساتھ بولا ’’ میں بستی میں جاؤنگا ، وہاں لوگ میرے منتظر ہیں۔ میں بستی اور سورج کے درمیان حائل دیواریں اکھاڑ پھینکوں گا پھر وہ دیوانہ وار نعرے لگانے لگا، روشنی چاہیے۔۔۔ ۔روشنی چاہیے۔

گھر والوں نے اس کی بگڑتی حالت کو دیکھتے ہوئے سمجھا بجھا کے اسے ایک کمرے میں بند کردیا۔ مگر وہ نعرے لگا رہا تھا۔ قریب کے گھروں میں اس کی بستی والی داستان پھیل چکی تھی، آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔

ان کے گھر کا محاصرہ ہوچکا تھا۔۔۔۔ ’’وہ‘‘ اسے لینے آئے تھے۔۔۔۔جب ’’وہ‘‘ اسے لے جا رہے تھے تو گھر والوں نے ان سے کہا ’’جناب! یہ تو پاگل ہے!‘‘ تو ادھر سے جواب آیا ’’ یہی تو پاگل نہیں ہے۔‘‘

صلاح الدین بھی پاگل نہیں تھا اسی لیے وہ اس گلے سڑے نظام اور اس کے رکھوالوں کا منہ چڑا رہا تھا۔ اس نے تشدد کرنیوالوں سے کہا ’’ایک سوال پوچھوں؟‘‘ پولیس نے کہا ’’پوچھو!‘‘ اس نے کہا ’’مارو گے تو نہیں؟‘‘ پولیس نے کہا ’’نہیں‘‘ اس نے کہا ’’ پکا! کہ نہیں ماروگے؟‘‘ پولیس نے کہا ’’ہاں پکا ‘‘ پھر اس نے پوچھا ’’ تم لوگوں نے مارنا کہاں سے سیکھا؟‘‘ اور بس پھر پولیس والے اپنے وعدوں سے پھر گئے، مکر گئے اور صلاح الدین کو مار ڈالا۔ حسینی دن جاری ہیں۔ یزید اور حسین دو سوچیں ہیں۔ کرب و بلائیں آج بھی برپا ہو رہی ہیں۔ جالب کا شعر:

صعوبتوں کے سفر میں ہے کاروان حسینؓ

یزید چین سے مسند نشین آج بھی ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔