معقول اور نامعقول باتیں

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 30 ستمبر 2013
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

مخالفت برائے مخالفت میں یا بعض اوقات نئی اصطلاح کے مطابق ’’پوائنٹ اسکورنگ‘‘ کے باعث ذرائع ابلاغ میں ایسے بحث و مباحثے اور باتیں سامنے آتی ہیں جو بظاہر تو معقول باتیں ہوتی ہیں لیکن درحقیقت نامعقول باتیں ہوتی ہیں، جن کو عقل بھی تسلیم کرنے سے انکار کردیتی ہے۔

اس وقت بھی ذرائع ابلاغ پر ایسی باتوں کا سلسلہ چل رہا ہے، مثلاً طالبان کے حوالے سے ذرائع ابلاغ پر نظر ڈالیں تو طالبان سے مذاکرات کے لیے کچھ لوگ وکالت کرتے نظر آتے ہیں اور کچھ لوگ اس کی شدید مخالفت میں دکھائی دیتے ہیں۔ دائیں اور بائیں بازوؤں کے نظریات رکھنے والوں میں اس مسئلے پر ایک شدید سرد جنگ چل رہی ہے۔ پشاور میں مسیحی عبادت گاہ میں ہلاکتوں کے بعد مذاکرات نہ کرنے پر بیانات کی بھرمار ہوگئی اور یہ کہا جانے لگا کہ جناب! ایسے ظالم لوگوں سے مذاکرات نہ کیے جائیں بلکہ طاقت سے کچلا جائے۔ دوسرے مخالف گروپ نے کہا کہ جب خون خرابے کے بعد امریکا جیسی سپر پاور طالبان سے مذاکرات کرسکتی ہے تو بھلا پاکستانی حکومت کیوں نہ کرے؟

اس بحث میں اس جانب توجہ نہیں دی گئی، نہ ہی کسی اعتدال پسند نے اس طرف توجہ دلائی کہ تحریک طالبان کے اس وقت ایک دو نہیں بے شمار گروپ اور دھڑے کارروائیوں میں مصروف ہیں لہٰذا جو گروپ یا دھڑے حکومت پاکستان سے مذاکرات کرنا چاہیں تو ان سے ضرور مذاکرات کیے جائیں اور جو اس پر آمادہ نہ ہوں تو ان سے طاقت کے ذریعے نمٹا جائے۔ یہ بالکل سیدھی سی بات ہے اور یہ بہتر حکمت عملی بھی ہوسکتی ہے کہ جتنے گروپ بھی مذاکرات کے حامی ہیں ان سے بات کرکے امن قائم کرنے میں مدد لی جائے تاکہ ان گروپ کی تعداد تو کم ہو جو اس وطن میں مسلح کارروائیاں کرکے عام لوگوں کا بھی قتل کر رہے ہیں۔ یہی معقول بات ہے کہ جو جو گروپ مذاکرات کی میز پر آئے ان سے بات کی جائے۔ بے شمار گروپ کی موجودگی میں کسی ایک کی جانب سے دہشت گردی کی واردات کے باعث یہ کہنا کہ تمام گروپ سے مذاکرات نہ کیے جائیں قطعی غیر معقول بات ہے۔

اس قسم کی غیر معقول باتیں ایک طویل عرصے سے ملک میں جاری ہیں جس کے باعث اس ملک کے ادارے بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے۔ مثلاً ضیاء الحق کے دور کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کی جماعتوں کو حکمرانی کا موقع ملا تو نہایت غیر معقول فیصلے دیکھنے میں آئے۔ قومی نوعیت کے اہم ترین اداروں میں بھی سیاسی بنیادوں پر ضرورت سے زائد تعداد میں لوگوں کو ملازمتیں دی گئیں۔ پھر ایک حکومت گئی تو دوسری جماعت نے برسر اقتدار آکر مخالف جماعت کی جانب سے بھرتی کیے گئے ملازمین کو نکال کر اپنی جماعت کے افراد بھرتی کیے لیکن دوسری جماعت جب دوبارہ اقتدار میں آئی تو اس نے نکالے گئے پچھلے تمام ملازمین کو نہ صرف دوبارہ ملازمتوں پر بحال کردیا بلکہ گزشتہ برسوں کے بقایا جات بھی ان ملازمین کو دیے۔

تواتر کے ساتھ کیے گئے اس عمل نے ملک کے بڑے بڑے اداروں کو تباہی کی جانب دھکیل دیا جس کا اندازہ خود ان جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں کو تھا مگر بات یہ تھی کہ کسی ایک نے بھی اس غلطی سے رجوع کرنا یا اس عمل کا کفارہ ادا کرکے اداروں کی حالت بہتر بنانے کی کوشش نہیں کی۔

اس قسم کی غلطیوں پر مزید نامعقول بات اس طرح کی گئی یعنی جب یہ ادارے خود حکومت کے لیے بوجھ بن گئے تو جان چھڑانے کے لیے ان اداروں کو نجی تحویل میں دینے کے غیر معقول فیصلے کیے گئے یوں یہ ادارے خریداروں کے لیے تو یقیناً بہت زرخیز بن گئے مگر ملک اور عوام کے لیے عذاب کی شکل اختیار کرگئے اس کی صرف ایک مثال کے ای ایس سی کافی ہے۔ یوں اداروں کی نجکاری کے عمل کو وقت نے قطعی طور پر غیر معقول فیصلہ ثابت کیا۔

دوسری طرف ملک کے نظم و نسق میں بھی ایک طویل عرصے سے غیر معقول عمل جاری ہے لیکن اس کی طرف کسی نے توجہ نہ دی جس کے باعث امن و امان قائم کرنا بھی تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ تمام دنیا کے ممالک اپنی سیکیورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے لیکن ہمارے ہاں رشوت اور سیاسی اثرورسوخ کے باعث ایک عرصے سے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جیسی حساس دستاویزات چند ہزار روپے میں جعلی بنانے کے مواقع موجود ہیں۔ گویا کوئی غیرملکی جاسوس بھی باآسانی یہاں کی شہریت اور دیگر ملکی کاغذات بنوا سکتا ہے اور یہی نہیں بلکہ رشوت کے عوض اہم اداروں میں ملازمت بھی حاصل کرسکتا ہے۔ حالیہ کراچی آپریشن کے حوالے سے آنے والی خبریں اس امر کی بخوبی تصدیق بھی کر رہی ہیں۔ کرپشن کے اس سمت میں مواقعے امن اور سماج دشمن عناصر کو باآسانی اس ملک کا سکون غارت کرنے میں معاونت کرتے ہیں۔

اب ایسی صورت حال میں کراچی کیا ملک کے کسی بھی شہر یا علاقے میں سماج دشمن عناصر کے خلاف آپریشن کامیاب ہوسکتا ہے؟ امن و امان کے قیام کے لیے آپریشن سے قبل تو اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ:

1۔ انتظامیہ میں جرائم پیشہ افراد کے مخبر، ہمدرد یا ملک دشمن ایجنٹ نہ ہوں۔

2۔ جعلی دستاویزات، ملکی شناختی کارڈ و پاسپورٹ کا سلسلہ نہ ہو۔

3۔ آپریشن کے لیے بلا تخصیص کسی بھی دباؤ کو رد کرنے کا پختہ عزم ہو۔

مذکورہ بالا نکات کے بغیر کوئی بھی آپریشن بھلا کیسے غیر جانبدار اور شفاف ہوسکتا ہے؟ اور غیر جانبدار ہوئے بغیر آپریشن کے مقاصد کیسے حاصل ہوسکتے ہیں؟

ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کریں کہ جہاں ایک چپڑاسی کی ملازمت کے لیے بھی رشوت، اثر و رسوخ یا پرچی کی ضرورت پڑتی ہو، جہاں ایک کلرک اور استاد کو بھی ملازمت میرٹ پر نہ ملتی ہو، جہاں جس ریشو سے کولیشن گورنمنٹ بنے اسی ریشو سے سرکاری اداروں میں ملازمتوں کا کوٹہ سیاسی جماعتوں کے لیے مخصوص ہو، وہاں یہ کیسے ممکن ہے کہ سماج دشمن عناصر اور گروہوں کے خلاف بلاامتیاز آپریشن ہوجائے جبکہ ان گروہوں کے تانے بانے بھی ان جماعتوں سے ملتے ہوں۔

کس قدر غیر معقول بات ہے کہ جس معاشرے میں چپڑاسی کی ملازمت میرٹ پر ملنے کا تصور نہ ہو وہاں غیر جانبدار آپریشن اور کامیاب آپریشن کی باتیں کی جائیں۔ غیر معقول باتوں کو معقول بناکر پیش کرنے سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے۔

مخالفت برائے مخالفت میں یا بعض اوقات نئی اصطلاح کے مطابق ’’پوائنٹ اسکورنگ‘‘ کے باعث ذرائع ابلاغ میں ایسے بحث و مباحثے اور باتیں سامنے آتی ہیں جو بظاہر تو معقول باتیں ہوتی ہیں لیکن درحقیقت نامعقول باتیں ہوتی ہیں، جن کو عقل بھی تسلیم کرنے سے انکار کردیتی ہے۔

اس وقت بھی ذرائع ابلاغ پر ایسی باتوں کا سلسلہ چل رہا ہے، مثلاً طالبان کے حوالے سے ذرائع ابلاغ پر نظر ڈالیں تو طالبان سے مذاکرات کے لیے کچھ لوگ وکالت کرتے نظر آتے ہیں اور کچھ لوگ اس کی شدید مخالفت میں دکھائی دیتے ہیں۔ دائیں اور بائیں بازوؤں کے نظریات رکھنے والوں میں اس مسئلے پر ایک شدید سرد جنگ چل رہی ہے۔ پشاور میں مسیحی عبادت گاہ میں ہلاکتوں کے بعد مذاکرات نہ کرنے پر بیانات کی بھرمار ہوگئی اور یہ کہا جانے لگا کہ جناب! ایسے ظالم لوگوں سے مذاکرات نہ کیے جائیں بلکہ طاقت سے کچلا جائے۔ دوسرے مخالف گروپ نے کہا کہ جب خون خرابے کے بعد امریکا جیسی سپر پاور طالبان سے مذاکرات کرسکتی ہے تو بھلا پاکستانی حکومت کیوں نہ کرے؟

اس بحث میں اس جانب توجہ نہیں دی گئی، نہ ہی کسی اعتدال پسند نے اس طرف توجہ دلائی کہ تحریک طالبان کے اس وقت ایک دو نہیں بے شمار گروپ اور دھڑے کارروائیوں میں مصروف ہیں لہٰذا جو گروپ یا دھڑے حکومت پاکستان سے مذاکرات کرنا چاہیں تو ان سے ضرور مذاکرات کیے جائیں اور جو اس پر آمادہ نہ ہوں تو ان سے طاقت کے ذریعے نمٹا جائے۔ یہ بالکل سیدھی سی بات ہے اور یہ بہتر حکمت عملی بھی ہوسکتی ہے کہ جتنے گروپ بھی مذاکرات کے حامی ہیں ان سے بات کرکے امن قائم کرنے میں مدد لی جائے تاکہ ان گروپ کی تعداد تو کم ہو جو اس وطن میں مسلح کارروائیاں کرکے عام لوگوں کا بھی قتل کر رہے ہیں۔ یہی معقول بات ہے کہ جو جو گروپ مذاکرات کی میز پر آئے ان سے بات کی جائے۔ بے شمار گروپ کی موجودگی میں کسی ایک کی جانب سے دہشت گردی کی واردات کے باعث یہ کہنا کہ تمام گروپ سے مذاکرات نہ کیے جائیں قطعی غیر معقول بات ہے۔

اس قسم کی غیر معقول باتیں ایک طویل عرصے سے ملک میں جاری ہیں جس کے باعث اس ملک کے ادارے بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے۔ مثلاً ضیاء الحق کے دور کے بعد جب مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کی جماعتوں کو حکمرانی کا موقع ملا تو نہایت غیر معقول فیصلے دیکھنے میں آئے۔ قومی نوعیت کے اہم ترین اداروں میں بھی سیاسی بنیادوں پر ضرورت سے زائد تعداد میں لوگوں کو ملازمتیں دی گئیں۔ پھر ایک حکومت گئی تو دوسری جماعت نے برسر اقتدار آکر مخالف جماعت کی جانب سے بھرتی کیے گئے ملازمین کو نکال کر اپنی جماعت کے افراد بھرتی کیے لیکن دوسری جماعت جب دوبارہ اقتدار میں آئی تو اس نے نکالے گئے پچھلے تمام ملازمین کو نہ صرف دوبارہ ملازمتوں پر بحال کردیا بلکہ گزشتہ برسوں کے بقایا جات بھی ان ملازمین کو دیے۔

تواتر کے ساتھ کیے گئے اس عمل نے ملک کے بڑے بڑے اداروں کو تباہی کی جانب دھکیل دیا جس کا اندازہ خود ان جماعتوں کے سرکردہ رہنماؤں کو تھا مگر بات یہ تھی کہ کسی ایک نے بھی اس غلطی سے رجوع کرنا یا اس عمل کا کفارہ ادا کرکے اداروں کی حالت بہتر بنانے کی کوشش نہیں کی۔

اس قسم کی غلطیوں پر مزید نامعقول بات اس طرح کی گئی یعنی جب یہ ادارے خود حکومت کے لیے بوجھ بن گئے تو جان چھڑانے کے لیے ان اداروں کو نجی تحویل میں دینے کے غیر معقول فیصلے کیے گئے یوں یہ ادارے خریداروں کے لیے تو یقیناً بہت زرخیز بن گئے مگر ملک اور عوام کے لیے عذاب کی شکل اختیار کرگئے اس کی صرف ایک مثال کے ای ایس سی کافی ہے۔ یوں اداروں کی نجکاری کے عمل کو وقت نے قطعی طور پر غیر معقول فیصلہ ثابت کیا۔

دوسری طرف ملک کے نظم و نسق میں بھی ایک طویل عرصے سے غیر معقول عمل جاری ہے لیکن اس کی طرف کسی نے توجہ نہ دی جس کے باعث امن و امان قائم کرنا بھی تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ تمام دنیا کے ممالک اپنی سیکیورٹی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے لیکن ہمارے ہاں رشوت اور سیاسی اثرورسوخ کے باعث ایک عرصے سے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جیسی حساس دستاویزات چند ہزار روپے میں جعلی بنانے کے مواقع موجود ہیں۔ گویا کوئی غیرملکی جاسوس بھی باآسانی یہاں کی شہریت اور دیگر ملکی کاغذات بنوا سکتا ہے اور یہی نہیں بلکہ رشوت کے عوض اہم اداروں میں ملازمت بھی حاصل کرسکتا ہے۔ حالیہ کراچی آپریشن کے حوالے سے آنے والی خبریں اس امر کی بخوبی تصدیق بھی کر رہی ہیں۔ کرپشن کے اس سمت میں مواقعے امن اور سماج دشمن عناصر کو باآسانی اس ملک کا سکون غارت کرنے میں معاونت کرتے ہیں۔

اب ایسی صورت حال میں کراچی کیا ملک کے کسی بھی شہر یا علاقے میں سماج دشمن عناصر کے خلاف آپریشن کامیاب ہوسکتا ہے؟ امن و امان کے قیام کے لیے آپریشن سے قبل تو اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ:

1۔ انتظامیہ میں جرائم پیشہ افراد کے مخبر، ہمدرد یا ملک دشمن ایجنٹ نہ ہوں۔

2۔ جعلی دستاویزات، ملکی شناختی کارڈ و پاسپورٹ کا سلسلہ نہ ہو۔

3۔ آپریشن کے لیے بلا تخصیص کسی بھی دباؤ کو رد کرنے کا پختہ عزم ہو۔

مذکورہ بالا نکات کے بغیر کوئی بھی آپریشن بھلا کیسے غیر جانبدار اور شفاف ہوسکتا ہے؟ اور غیر جانبدار ہوئے بغیر آپریشن کے مقاصد کیسے حاصل ہوسکتے ہیں؟

ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کریں کہ جہاں ایک چپڑاسی کی ملازمت کے لیے بھی رشوت، اثر و رسوخ یا پرچی کی ضرورت پڑتی ہو، جہاں ایک کلرک اور استاد کو بھی ملازمت میرٹ پر نہ ملتی ہو، جہاں جس ریشو سے کولیشن گورنمنٹ بنے اسی ریشو سے سرکاری اداروں میں ملازمتوں کا کوٹہ سیاسی جماعتوں کے لیے مخصوص ہو، وہاں یہ کیسے ممکن ہے کہ سماج دشمن عناصر اور گروہوں کے خلاف بلاامتیاز آپریشن ہوجائے جبکہ ان گروہوں کے تانے بانے بھی ان جماعتوں سے ملتے ہوں۔

کس قدر غیر معقول بات ہے کہ جس معاشرے میں چپڑاسی کی ملازمت میرٹ پر ملنے کا تصور نہ ہو وہاں غیر جانبدار آپریشن اور کامیاب آپریشن کی باتیں کی جائیں۔ غیر معقول باتوں کو معقول بناکر پیش کرنے سے مسائل حل نہیں ہوا کرتے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔